چین روس تعلقات کا اہم موڑ۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

حالیہ برسوں میں تاریخی وژن اور اسٹریٹجک عروج سے چینی صدر شی جن پھنگ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے نئے دور میں چین اور روس کے تعلقات کو ایک پیچیدہ بیرونی ماحول کے باوجود ہمیشہ آگے بڑھنے میں رہنمائی کی ہے اور تعلقات کی دائمی اچھی ہمسائیگی اور دوستی، جامع اسٹریٹجک کوآرڈینیشن اور باہمی فائدے، تعاون اور جیت جیت کی نمایاں خصوصیات کا مظاہرہ کیا ہے۔اسی مضبوط کڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے چین کے صدر شی جن پھنگ 7 سے 10 مئی تک روس کا سرکاری دورہ کر رہے ہیں اور روس کے صدر پیوٹن کی دعوت پر ماسکو میں عظیم محب وطن جنگ میں فتح کی 80 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کریں گے۔

 

اس سے قبل رواں سال دونوں صدور کی ورچوئل بات چیت اور ٹیلی فونک مذاکرات ہو چکے ہیں ، جن میں دونوں رہنماوں نے بین الاقوامی اور علاقائی امور پر گہرا اسٹریٹجک تبادلہ خیال کیا  اور چین اور روس کے تعلقات کو آگے بڑھانے کی سمت کو مزید واضح کیا گیا ہے۔

اس دورے کے دوران صدر شی جن پھنگ نئی صورتحال کے تناظر میں چین روس تعلقات اور اہم بین الاقوامی اور علاقائی امور پر صدر پیوٹن کے ساتھ اسٹریٹجک تبادلہ خیال کریں گے۔چینی صدر کے دورے سے یہ اعتماد ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دونوں صدور کے درمیان اہم مشترکہ مفاہمت دونوں ممالک کے درمیان سیاسی باہمی اعتماد کو مزید گہرا کرے گی، اسٹریٹجک کوآرڈینیشن میں نئی روح پھونکے گی، مختلف شعبوں میں عملی تعاون کو فروغ دے گی، دونوں ممالک کے عوام کے لیے مزید ثمرات لائے گی اور بین الاقوامی برادری میں مزید استحکام اور مثبت توانائی کا کردار ادا کرے گی۔

رواں سال جاپانی جارحیت، عظیم حب الوطنی کی جنگ اور عالمی فاشسٹ مخالف جنگ کے خلاف چینی عوام کی مزاحمتی جنگ کی کامیابی کی 80 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے ۔ دوسری جنگ عظیم میں ایشیا اور یورپ کے دو اہم مراکز کی حیثیت سے ، چین اور روس نے عالمی فاشسٹ جنگ میں فتح کو یقینی بنانے کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور اہم  تاریخی کردار ادا کیا ہے۔دونوں ممالک نے اپنی قوموں کو تباہی سے بچایا اور بنی نوع انسان کے مستقبل کا بھی تحفظ کیا۔

اس سے قبل بھی صدر شی جن پھنگ اور صدر پیوٹن کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ دونوں فریق مشترکہ طور پر تاریخ کو یاد رکھیں گے، شہداء کا احترام کریں گے، دوسری جنگ عظیم کی تاریخ کے بارے میں صحیح نقطہ نظر کو فروغ دیں گے، جنگ میں فتح کے نتائج اور جنگ کے بعد کے بین الاقوامی نظام کا دفاع کریں گے اور بین الاقوامی انصاف اور شفافیت کو برقرار رکھیں گے۔ایک جانب اگر چین کا موقف ہے کہ بین الاقوامی صورتحال میں تبدیلیوں کے باوجود چین اور روس کے تعلقات ہموار طور پر آگے بڑھیں گے جس سے ایک دوسرے کی ترقی اور بحالی میں مدد ملے گی اور بین الاقوامی تعلقات میں استحکام اور مثبت توانائی پیدا ہوگی ، تو دوسری جانب روس کا ماننا ہے کہ چین کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا روس کی جانب سے ایک تزویراتی انتخاب ہے جو ایک طویل مدتی نقطہ نظر سے کیا جاتا ہے، مزید یہ کہ یہ حکمت عملی کسی عارضی رجحان یا بیرونی مداخلت کے تابع نہیں ہے۔

اس خصوصی تاریخی موڑ پر صدر شی جن پھنگ کی ماسکو میں عظیم حب الوطنی کی جنگ میں فتح کی 80 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت ان کے دورے کا ایک اہم حصہ ہے، یہ عالمی فاشسٹ جنگ میں فتح کی 80 ویں سالگرہ کی تقریبات میں چین اور روس کی جانب سے ایک دوسرے کی حمایت کی عکاسی کرتا ہے۔

دوسری جانب یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس سال اقوام متحدہ کے قیام کی 80 ویں سالگرہ بھی منائی جا رہی ہے،چین اور روس اقوام متحدہ کے بانی ارکان اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی حیثیت سے بین الاقوامی نظام کے تحفظ کی خصوصی اور اہم ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔صدر شی جن پھنگ کے دورہ روس سے یہ توقعات بھی وابستہ ہیں کہ  دونوں ممالک اقوام متحدہ، شنگھائی تعاون تنظیم، برکس اور دیگر کثیر الجہتی پلیٹ فارمز میں اپنے قریبی تعاون کو مزید مستحکم کریں گے، گلوبل ساوتھ  کو متحد کریں گے، عالمی گورننس کی صحیح سمت میں تشکیل کی کوششوں کو آگے بڑھائیں گے، یکطرفہ پسندی اور بالادستی کے اقدامات کی واضح طور پر مخالفت کریں گے، اور مشترکہ طور پر ایک مساوی اور منظم کثیر قطبی دنیا اور عالمی سطح پر فائدہ مند اور جامع اقتصادی گلوبلائزیشن کو فروغ دیں گے۔

 

حقائق واضح کرتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں چین اور روس نے اہم شعبوں میں تعاون کو گہرا کیا ہے اور قابل ذکر پیش رفت حاصل کی ہے۔ توانائی کا تعاون ایک تزویراتی ستون بنا ہوا ہے جس کی نشاندہی 2 دسمبر 2024 کو چین اور روس کے درمیان مشرقی روٹ کی قدرتی گیس پائپ لائن کی مکمل تکمیل سے ہوتی ہے، جس سے پیک سیزن کے دوران بھی مستحکم گیس کی فراہمی حاصل ہوتی ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان آٹو ٹریڈ بھی اعلیٰ معیار کی ترقی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ چینی کار ساز کمپنیوں نے روس میں تقریباً 100 نئے ماڈل متعارف کرائے ہیں، جس سے مقامی طلب کو پورا کرنے والی اسٹار مصنوعات تیار کی گئی ہیں۔ چین اب روس کا سب سے بڑا گاڑیوں کی درآمد کا ذریعہ ہے ، جبکہ روس چین کی سب سے بڑی آٹوموبائل برآمدی منزل بن گیا ہے۔ جیت جیت تعاون کی یہ رفتار دوطرفہ تجارت میں طویل مدتی توانائی پیدا کر رہی ہے۔

مستقبل کو دیکھتے ہوئے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ چینی صدر شی جن پھنگ کے تاریخی دورہ روس کے تناظر میں دونوں ممالک مزید شعبوں میں تعاون کو وسعت دیں گے جس سے ان کی شراکت داری کی گہرائی اور وسعت کو مزید تقویت ملے گی۔ اس سے نہ صرف مشترکہ خوشحالی کو فروغ ملے گا بلکہ عالمی معیشت کے استحکام اور ترقی میں بھی مثبت کردار ادا کیا جائے گا۔

SAK

شاہد افراز خان کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link