مطالعے کی کچھ غلط عادتیں۔ | عارف بلتستانی

اکثر افراد مطالعے کی خواہش تو رکھتے ہیں، مگر دل نہ لگنے، نیند آنے، اور یادداشت کی کمزوری جیسے مسائل سے دوچار رہتے ہیں اور شکوہ کرتے رہتے ہیں۔ درحقیقت، یہ رکاوٹیں شوق کی کمی سے نہیں بلکہ غلط عادتوں سے جنم لیتی ہیں، جو مطالعے کو بوجھ بنا دیتی ہیں۔ مطالعہ محض پڑھنے کا عمل نہیں، بلکہ ایک باقاعدہ فن ہے، جس کے لیے یکسوئی، نظم و ضبط اور مقصدیت ضروری ہے۔ غیر ضروری مشاغل، سستی اور انتشارِ خیال ترک کیے بغیر اس راہ پر چلنا ممکن نہیں۔

مطالعے کو زندگی کا حصہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کو پہچانیں اور وقت کو قیمتی سمجھیں۔ اس حوالے سے محرر کی مطالعے کی افادیت اور مصروفیات کے باوجود مطالعے کو کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے، جیسے موضوعات پر مزید تحریریں “ہم سماج” ، “ہم سب” اور اسلام ٹائمز سائٹ پر دستیاب ہیں۔ وہاں سے مطالعہ کیا جا سکتا ہے:

بدقسمتی سے، بہت سے افراد کچھ ایسی غلط عادتوں کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں جو ان کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہیں۔ آئیے ایسی چند غلط عادتوں پر نظر ڈالتے ہیں:

پہلی غلط عادت منصوبہ بندی کے بغیر مطالعہ کرنا ہے۔ بہت سے لوگ مطالعہ شروع تو کر دیتے ہیں، لیکن ان کے پاس کوئی منصوبہ یا ہدف نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی ایک کتاب پڑھتے ہیں، کبھی دوسری، اور کچھ بھی مکمل نہیں ہو پاتا۔ مطالعہ میں تسلسل، نظم اور ہدف کا تعین ضروری ہے۔

دوسری غلط عادت غیر مناسب وقت پر مطالعہ کرنا ہے۔ جب انسان کا دماغ تھکا ہوا ہو یا نیند کا غلبہ ہو، تو اس وقت مطالعہ کرنا وقت اور ذہن دونوں کا ضیاع ہے۔ مطالعے کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر تروتازہ ہونا ضروری ہے۔ بہتر یہ ہے کہ دن کے ابتدائی یا ایسے اوقات میں مطالعہ کیا جائے جب دماغ پوری طرح مطالعے کے لیے آمادہ ہو۔

تیسری غلط عادت مطالعے کے دوران ہاتھ میں قلم نہ رکھنا اور نوٹس نہ بنانا، ہائی لائٹ نہ کرنا ہے۔ ہائی لائٹ کرنے، حاشیہ لکھنے اور نوٹس بنانے سے نہ صرف مواد یاد رہتا ہے بلکہ بعد میں دہرائی (ریویژن) بھی آسان ہو جاتی ہے۔ کتاب کے سائیڈ پر حاشیہ لکھ سکتے ہیں، سوال اٹھا سکتے ہیں، جس سے انسان کی سوچنے، سمجھنے، نقد کرنے، سوال اٹھانے اور جستجو کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

چوتھی بڑی غلط عادت، جس میں آج کے 99 فیصد لوگ شامل ہیں، موبائل یا سوشل میڈیا کے ساتھ مطالعہ کرنا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مطالعے کے لیے سب سے بہترین چیز خود کتاب ہے۔ “اس مہنگائی میں کتاب کون خریدے” — اس سے بہتر ہے کہ موبائل یا لیپ ٹاپ پر مطالعہ کریں۔ لیکن انسان جتنا کتاب اور علم پر خرچ کرتا ہے، اتنا ہی خدا اس کو کئی گنا نعمت و دولت عطا کرتا ہے۔ پھر بھی اگر موبائل یا لیپ ٹاپ پر ہی مطالعہ کرنا ہے، تو مطالعے کے دوران بار بار موبائل چیک کرنا یا سوشل میڈیا کی طرف متوجہ ہونا ارتکاز کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ عادت دماغ کو منتشر کرتی ہے اور مطالعے کو بے اثر بنا دیتی ہے۔ مطالعہ کے وقت فون کو دور رکھنا یا “فلائٹ موڈ” پر ڈالنا بہت ہی ضروری ہے۔

پانچویں غلط عادت کم روشنی میں مطالعہ کرنا ہے۔ کم روشنی میں مطالعہ کرنا آنکھوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس سے آنکھوں پر دباؤ بڑھتا ہے، سر درد ہو سکتا ہے، اور بینائی کمزور ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ مسلسل دھندلی روشنی اور لیپ ٹاپ و موبائل پر پڑھنے سے آنکھوں کی پٹھوں کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، جس کی وجہ سے آنکھیں تھک جاتی ہیں اور خشک ہونے لگتی ہیں۔ اگر یہ عادت برقرار رہے تو مستقل بینائی کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس مسئلے کا ایک آسان حل مطالعے کے لیے خاص مطالعے والی عینک کا استعمال ہے۔ یہ عینک آنکھوں کو مناسب روشنی فراہم کرتی ہے اور اضافی روشنی کی ضرورت کو کم کرتی ہے، جس سے آنکھوں پر دباؤ کم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، مناسب روشنی والی جگہ پر بیٹھ کر پڑھنا چاہیے۔ عینک کا استعمال اور روشنی کا خیال رکھ کر ہم اپنی آنکھوں کو صحت مند رکھ سکتے ہیں۔

چھٹی غلط عادت محض مکمل کرنے کی نیت سے مطالعہ کرنا ہے۔ بعض افراد صرف اس نیت سے کتاب پڑھتے ہیں کہ بس ختم ہو جائے، چاہے کچھ سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ یہ مطالعے کے اصل مقصد کے خلاف ہے۔ مطالعہ کا مطلب یہ نہیں کہ کتنی زیادہ کتابیں پڑھی گئیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا سمجھا اور کتنا ذہن نشین ہوا۔ سب سے پہلے خود سے سوال کریں کہ میں اس کتاب کا کیوں مطالعہ کر رہا ہوں۔ جب خود سے سوال کریں، تب جواب ڈھونڈنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ کریں۔ اس طرح مطالعہ کریں کہ کتاب کا مخاطب میں ہی ہوں۔

ساتویں غلط عادت مطالعہ کے دوران سوال نہ کرنا ہے۔ اچھے مطالعے کی نشانی یہ ہے کہ قاری ذہن میں سوالات پیدا کرے، تجزیہ کرے اور تحقیق کرے۔ اگر صرف لفظی مواد کو قبول کیا جائے اور اس پر غور نہ کیا جائے، تو مطالعہ سطحی رہ جاتا ہے۔

بلند آواز سے پڑھنا، بار بار پیچھے مُڑ کر دہرانا، یا ہر لفظ پر ضرورت سے زیادہ توجہ دینا مطالعے کی ایسی غلط عادتیں ہیں جو پڑھنے کے عمل کو سست اور تھکا دینے والا بنا دیتی ہیں۔ اس طرح پڑھنے سے دماغ معلومات کو تیزی سے پروسیس نہیں کر پاتا، جس کی وجہ سے سمجھنے کی رفتار کم ہو جاتی ہے اور قاری جلد تھک جاتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ طریقہ یادداشت کو بھی کمزور کرتا ہے، کیونکہ مسلسل رکاوٹیں مواد کے تسلسل کو توڑ دیتی ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ خاموشی سے تیز رفتاری سے پڑھا جائے، پورے جملوں یا پیراگرافوں کو سمجھنے پر توجہ دی جائے، اور ضرورت پڑنے پر ہی کسی خاص نقطے پر واپس لوٹا جائے۔ اس طرح مطالعہ زیادہ مؤثر، پرسکون اور دیرپا ہو جاتا ہے۔

نویں غلط عادت تھکنے تک بغیر وقفے کے مسلسل پڑھتے رہنا اور غیر معیاری مواد کا انتخاب ہے۔ لمبے عرصے تک مسلسل پڑھتے رہنا بھی کارآمد نہیں ہوتا۔ دماغ کو آرام دینے کے لیے وقفے ضروری ہیں۔ ہر 25-30 منٹ پڑھنے کے بعد دو سے پانچ منٹ کا وقفہ لینا چاہیے۔ ہر کام کے لیے ایک معین وقت ہوتا ہے۔ اس سے نکل جائے تو اس کا فائدہ بھی نہیں ہوتا اور وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔ وقت ضائع کرنے میں غیر معیاری مواد کا انتخاب بھی شامل ہے۔ کچھ طلبہ غیر معتبر کتابوں یا آن لائن مواد پر انحصار کرتے ہیں، جس کی وجہ سے غلط معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔ ہمیشہ معیاری کتابیں اور مستند ذرائع سے پڑھنا چاہیے۔

مطالعے کی دسویں اور سب سے بڑی غلط عادت یہ ہے کہ ہم اپنے علم اور محنت کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی رضا پر نہیں رکھتے۔ جو کام بھی بسم اللہ کے بغیر شروع کیا جائے، وہ ناقص اور بے برکت ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: “اور ہر اہم کام کے شروع میں اللہ کا نام لیا کرو”۔ اگر ہم اپنے مطالعے کا آغاز کلامِ الٰہی سے نہیں کرتے، تو ہماری محنت میں سہولت، برکت اور قبولیت نہیں ہوتی۔ علم حاصل کرنے کا مقصد صرف دنیاوی فائدہ نہیں، بلکہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہونا چاہیے۔ لہٰذا، ہر پڑھائی کا آغاز تلاوتِ کلامِ الٰہی سے کرنا چاہیے، تاکہ ہمارا علم نفع بخش ہو، دل میں نور پیدا ہو، اور ہماری کوششیں بارآور ثابت ہوں۔ یاد رکھیں، جو کام خدا کی یاد سے شروع ہو، وہ کبھی نامراد نہیں جاتا۔

مطالعہ ایک مقدس اور نفع بخش عمل ہے، بشرطیکہ اسے صحیح طریقے سے اپنایا جائے۔ غلط عادتیں نہ صرف وقت کا ضیاع ہیں، بلکہ علم کی برکات سے بھی محرومی کا سبب بنتی ہیں۔ یاد رکھیں، علم وہی کارآمد ہوتا ہے جو نیت کی پاکیزگی، مستند ذرائع، اور صحیح طریقہ کار سے حاصل کیا جائے۔ لہٰذا، ان غلط عادتوں سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے مطالعے کو بامقصد، بابرکت اور مؤثر بنائیں۔

عارف بلتستانی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link