NH

خوشحالی کے بغیر عظیم انسان یومِ مزدور کے حوالے سے خصوصی تحریر ڈاکٹر نذر حافی

مزدور صرف وہ شخص نہیں جو بھٹوں پر اینٹیں اٹھاتا ہے، فیکٹریوں میں مشینوں کے شور میں اپنی سانسیں گنواتا ہے،  یا پھر نمک کی کانوں میں دب کر مر جتا ہے بلکہ  ہر وہ شخص  مزدور ہے جو اس ملک میں دن بھر محنت کرتا ہے، اور رات کو اس امید کے سائے میں سوتا ہے کہ شاید کل کچھ بدلے گالیکن اگلی صبح پھر اُس کیلئے کچھ نہیں بدلتا۔ وہ صرف پانی ، گیس ، اور بجلی  کے بِل ادا کرنے کیلئے پیدا ہوتا ہے اوراپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلوائے بغیر ہی مر جاتا ہے۔ جس روز وہ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر قہوہ پی لے وہ دِن اس کیلئے عید کا دن ہوتا ہے۔وہ کبھی چھٹی نہیں کر سکتا، چونکہ چھٹی کرے گا تو کھائے گا کہاں سے؟
مزدور یہ سمجھتا ہے دنیا کی تاریخ محض بادشاہوں، طاقتوروں، اشرافیہ اور زورآوروں نے مرتب کی ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ تہذیب و تمدّن  کی تاریخ صرف جنگوں اور معاہدوں کا نتیجہ  نہیں، بلکہ وہ  مزدورکے خون پسینے سے  کا شہکار ہے ۔ یہ مزدور ہی ہیں کہ جنہوں نے تہذیبوں کو اٹھایا، سلطنتوں کو سجایا، مگر تاریخ نے ان کے نام صفحۂ حیات پر رقم نہ کیے۔یومِ مزدور  در اصل انہی مزدوروں کے اُسی  انمٹ کردار کی بازگشت ہے جسے  طاقِ نسیاں میں رکھ دیا گیا ہے۔

یہ دن ہمیں  یہ یاد دلاتا ہے کہ انصاف تب قائم ہوتا ہے جب برابر کو برابر سمجھا جائےلیکن ہمارے ہاں مزدور نہ برابر ہے، اور  نہ  اُسے اپنے برابر سمجھا جاتا ہے، وہ ہرروز صرف  ایک ٹشو پیپر کے طور پر استعمال  ہوتا ہے۔انگریزی صنعتی انقلاب کے دوران جب کارخانوں نے زمین پر   خطرناک دھواں اور آسمان پرزہریلا  سایہ  پھیلایا   تو انسان بھی  ایک مشین کا پرزہ بن کر رہ گیا۔یہ انسانی تاریخ کا ایک بہت بڑا المیّہ ہے  کہ اُس وقت  انسان کی قیمت ایک مشین جتنی بھی نہیں بلکہ کسی مشین کے ایک   پُرزے جتنی طے کر دی گئی تھی۔  1886ء کا شکاگو  ہمیں اسی المیّے کی یاد دلاتا ہے۔ تاریخ کے اس موڑ پر انسان اتنا بے بس ہو گیا تھا کہ  مزدوروں نے صرف آٹھ گھنٹے کے کام کا مطالبہ کیا، اور ریاست نے  گولیوں سے اُن کا سینہ چیر دیا۔  یہ دن اُن دِنوں میں سے ایک ہے کہ جب ریاست یہ بھول گئی تھی کہ وہ ایک ماں ہے۔ اُس کے بعد  جو احتجاج ہوا وہ  محض   ایک احتجاج نہیں تھا بلکہ  یہ ایک عہدِ نو کا  آغاز تھا۔ اس عہدِ نو میں مقتدر اشرافیہ نے یہ تسلیم کیا کہ  مزدور کو  ہر حال میں اس کی محنت کا مکمل صلہ ملنا چاہیے اور  اُس کا صلہ فقط دو وقت کی روٹی و  روزی  تک محدود نہیں بلکہ  یہ صلہ معیاری  اجرت ، عزّت، سہولت اور مساوات کی صورت میں مزدور کا انسانی حق ہے۔ اگرچہ آج تک  دنیا بھر  میں  مزدور کا حال اُس مٹی کی مانند ہے جو کھیت کو سبزہ دیتی ہے، مگر خود خشک رہتی ہے۔ مزدور  بیمار ہو تو دوا نایاب، وہ زخمی ہو تو معاوضہ ندارد، اور اگر اُس کے آنگن میں بچہ پیدا ہو تو تعلیم کے دروازے بند۔دوسری طرف اشرافیہ کے بچوں کے لیے اوکسفورڈ اور ہاورڈ کےدروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔آج مزدور صرف معاشی غلام نہیں بلکہ علمی اور فکری غلامی میں بھی گرفتار ہے۔ اُس کے بچوں کو سوچنے، سوال کرنے اور شعور حاصل کرنے سے پہلے ہی افلاس کی سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔مزدور کو غربت کی صلیب سے اُتارنا  تبھی ممکن ہے کہ  جب اُسے  اُس کا جائز مقام دیا جائے، اور یہ تبھی ہوسکتا ہے کہ  جب تعلیم، انصاف، صحت اور ترقی کو خاندانی وراثت نہیں، انسانی حق سمجھا جائے۔

وہ مزدور جو آج کے دور میں معاشی غلام بن چکا ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہم میں سے ہر  وہ شخص  ہے جس کی محنت کبھی اس کا پیٹ نہیں بھرتی، جس کے ہاتھوں کی سختی اور جسم کی تھکاوٹ کا بدلہ اُسے معیاری زندگی کی صورت میں نہیں ملتا۔ وہ اپنی روزمرہ کی جدوجہد میں دن رات ایک کرتا ہے، مگر اُسے اُجرت شکریے کےبجائے  یوں دی جاتی ہے کہ جیسے اُس پر کوئی  احسان کیا جا رہا ہو۔ وہ مسلسل دوڑتا ہے، کولہو کے بیل کی مانند، لیکن پھر بھی اس کے ہاتھ خالی رہ جاتے ہیں، اور اس کی زندگی میں خوشحالی کا تصور محض ایک خواب ہوتا ہے۔

بھلا کوئی اندازہ کرے اُس شخص کی مشکلات کا کہ جو  دِل و  جان سے محنت کرتا ہے لیکن اس کی محنت کا کوئی حقیقی بدلہ اُسے  نہیں ملتا۔ جو اپنی ساری جسمانی  قوت و توانائی اپنی مزدوری میں صرف کردیتا ہے لیکن وہ  سکون سے نہیں جیتا۔ اس کی روزانہ کی جدوجہد اُس کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر پاتی۔ وہ زمین سے رزق کماتا ہے، لیکن اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھی اسے زندگی کے ہر پہلو میں قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔

ہمارے عہد کا یہ نوحہ ہے کہ یہاں   سچائی اور ایمانداری سے محنت کرنے والا کبھی اپنے پیٹ کی آگ کو پوری طرح نہیں بجھا پاتا، وہ ایک عظیم انسان ضرور ہوتا ہے لیکن خوشحال انسان نہیں بن پاتا۔ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے دین ، تہذیب اور سماج میں محنت کرنے والا  ایک عظیم شخص تو ہے لیکن  وہ خوشحال کیوں نہیں ہوتا؟

نذر حافی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link