صلح یا فریب۔ | تحریرـ عارف بلتستانی

صلح تحمیلی جنگ کی ایک قسم ہے۔ جو جنگ سے زیادہ بدتر ہے۔ ظاہر میں صلح جبکہ حقیقت میں بدترین جنگ ہے۔ اس جنگ کا میدان کرسی و میز ہے۔ جس میں طرف مقابل کو ضعیف کر کے اپنی تمام تر شرائط کو بغیر کسی نقصان کے منوانا ہے۔ اگر میدانی جنگ میں فاتح بھی ہو لیکن ڈپلومیسی جنگ میں ہار جائے تو ننگ و عار ہے جو کبھی تاریخ سے محو نہیں ہو سکتی ہے۔ جس دشمن سے ملت اسلام روبرو ہے، وہ مکر و فریب کا مجسمہ ہے۔ ان کا وجود ہی مکر و فریب پر ہے۔

دنیا جانتی ہے امریکہ و اسرائیل نے جہاں بھی قدم رکھا ہے ویرانی میں بدل گیا ہے۔ ان کیلئے نہ بین الاقوامی قانون اہم ہے نہ انسانیت نامی چیز ان کے اندر ہے۔ فرعونیت اور انا ربکم الاعلی ان کا آخری ہدف ہے۔ سب اس کے سامنے سر تسلیم خم ہو۔ جب ان کے مقابلے میں لشکر ثار اللہ و لشکر خدا ہو تو شکست ہی انکا مقدر ہے۔ بچہ بچہ یہ جانتا ہے کہ یہ کیسی صلح ہے حملہ بھی خود کرے اور صلح کےلئے پیشنہاد بھی دیں۔

ایک طرف آکے ایک ملک کے صف اول کے کمانڈرز ، سائنٹسٹ اور ملکی سالمیت پر حملہ کر کے فرار کرے اور رو برو جنگ میں جب شکست سے دوچار ہونا پڑے تو صلح اور مظلوم نمائی کرے۔ جس جنگی جنایت کا دشمن مرتکب ہوا ہے اس کی سزا ملے بغیر کوئی صلح نہیں ہے۔ صلح صلح کی رٹ جنہوں نے لگائی ہوئی ہے وہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ دشمن دوبارہ حملے کرنے کےلئے موقع کی تلاش میں ہے۔ جوں ہی صلح کرے اس کے چند دنوں بعد ہی اس نے پہلے والے سے زیادہ خطرناک حملہ کرنا ہے۔ تاریخ دنیا کے سامنے ہیں۔

اس نوعیت کی صلح نے کبھی امن نہیں لایا ہے، بلکہ دشمن نے پہلے سے بھی زیادہ اپنا رعب جمایا ہے۔ دشمن نے پہلے سے زیادہ منظم اور مترتب انداز سے اپنے اہداف کو حاصل کیا ہے۔ مجبوری کی صلح کو قبول کرنا اس بات کی علامت ہے آپ نے دشمن کو اپنی ملکی و قومی سالمیت پر حمله کرنے کی اجازت دی ہے۔ مجبوری کی صلح کو قبول کرنا یعنی دشمن کو گرین سگنل دینے کے مانند ہے۔

جس طریقے سے بھی آپ دشمن کے سامنے سے عقب نشینی کرے دشمن نے آگے بڑھ کر پہلے سے زیادہ متکبرانہ انداز میں حمله کرنا ہے۔ یہ راستہ انہوں نے ہمیشہ اپنایا ہے اور ابھی بھی اپنانا ہے۔ تاریخی تجربی سب کے سامنے ہے۔ مجبوری کی صلح ایک فریب کی جنگ ہے۔ میدان جنگ میں دشمن اپکو ہرا نہیں سکا تو میز پر ایک مسکراہٹ و تبسم کے ذریعے سے اپکو ہرا سکتا ہے۔

صلح کی جگہے پر بہترین راستہ استقامت و بہادری کا راستہ ہے۔ دشمن ہماری استقامت اور عزم ارادے سے ڈرتا ہے۔ جہاں بھی جنگ کے بعد صلح ہوا ہے۔ وہاں پہلے سے زیادہ نا امنی، غلامی کا شکار ہوا ہے اور ملکی سالمیت پہلے سے خطرے میں پڑا ہے۔ پہلے سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ پہلے سے زیادہ قربانی دینی پڑی ہے۔ اگر ان سب سے بچنا ہے تو مقاومت بہترین راستہ ہے

عارف بلتستانی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link