ہم سے روزوں کے تقاضے نہ نبھائے جاتے۔| شاعر: امجد علی راجاؔ
ہم سے روزوں کے تقاضے نہ نبھائے جاتے ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی نہ کھائے جاتے ہے مٹھائی بھی ستائیسویں شب تک محدود ورنہ ہم روز تراویح میں پائے … Read More
ہم سے روزوں کے تقاضے نہ نبھائے جاتے ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی نہ کھائے جاتے ہے مٹھائی بھی ستائیسویں شب تک محدود ورنہ ہم روز تراویح میں پائے … Read More
اس موڑ پہ آگی ہے زندگی جہاں نا اب کوئی تمنا ہے نا کوئی خواہش اک عجب سی دل میں بیزاری سی ہے نا اس میں کوئی خوشی نا کسی … Read More
موسم سہانا ہے یہ دل دیوانا ہے ایسے میں تو کہیں سے آجائے رنگین فسانہ ہو جائے اس حسین موسم میں اس برستے بادل میں تیرا ساتھ ہو تو لطف … Read More
مجھے شکایت ہے اپنے والدین سے جنہوں نے مجھے اس دُنیا میں جینا نہیں سکھایا جنہوں نے مجھے یہ نہیں سکھایا کہ دنیا کتنی بے حس ہے اس کے ساتھ … Read More
بہت دل رویا تیری محبت میں مگر تونے پلٹ کے حال تک نا پوچھا ہم انتظار میں رہے تیرے مسلسل کے شاید تو آئیگا ہمیں ملنے مگر یہ وہم ہمارا … Read More
میرے محبوب تمہارے ہونے سے یہ دنیا رنگین ہے میری ہر دھڑکن تمہارے نام سے دھڑکتی ہے تمہاری ہر مسکراہٹ پہ میرا دل جھومتا ہے تمہارے ہر لفظ پر میں … Read More
شاعرانہ چراغ روشن ہے ہے اُجالا چراغ روشن ہے آپ کے صدقے بھراتھا کشکول اب یہ مولا چراغ روشن ہے ہے دِیا کربلا کی مٹی کا غم ہے تازہ ، … Read More