پانی کے کنارے پانی سے محروم گاؤں “شیخ کیریو بھنڈاری”۔| تحریر : عرشی عباس

شیخ کیریو بھنڈاری، سندھ کے ضلع بدین کا ایک ساحلی گاؤں ہے جو کراچی سے تقریباً 275 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ یہ گاؤں پاکستان اور بھارت کی سرحد کے قریب واقع ہے اور اسے ضلع بدین کا آخری گاؤں بھی کہا جاتا ہی جس کا کل رقبہ 6,726 مربع کلومیٹر ہے ۔

 پاکستان کےصوبہ سندھ کے ضلع بدین کی آبادی 2023 کی مردم شماری کے مطابق 1,947,081 تھی۔ اس ضلع میں بھی 397,892 گھرانے تھے۔

کچھ روز قبل گرین میڈیا انیشیٹو(جی ایم آئی) کے توسط سے مختلف میڈیا ہاؤسز سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے اایک گروپ کے ساتھ بدین میں موجود محکمہ لاڑ ہیومنیٹیرین اینڈ ڈیویلپمنٹ ہروگرام (ایل ایچ ڈی پی) کے ہمراہ سندھ کے ضلع بدین کے گاؤں شیخ کیریو کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔

شیخ کیریو بھنڈاری بدین شہر سے تقریباً 40 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے اور بحیرہ عرب کے ساحل کے قریب آباد ہے۔ یہ گاؤں دریائے سندھ کے آخری کنارے پر واقع ہے اور اس کے بعد کوئی انسانی آبادی نہیں بلکہ سمندر ہے۔

پاکستان اور بھارت بارڈر کے قریب یہ گاؤں شیخ کیریو سندھ کے ضلع بدین کا آخری گاؤں کہلاتاہے، یہاں 800 گھرانے آباد ہیں جو کہ گارے اور مٹی سے بنے ہوئے گھروں میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

بدین کا یہ گاؤں شیخ کیریو دراصل تین گاؤں سے مل کر بنا ہے اور یہاں موجود لوگ اپنی زندگی کو پیچیدہ مسائل کے ساتھ گزارنے پر مجبور ہیں دراصل یہ گاؤں دریا کے کنارے پر ہے، جہاں سیلاب بھی زیادہ آتا ہے اور خشک سالی بھی زیادہ رہتی ہے، 2022 کے سیلاب کے بعد گاؤں شیخ کیریو میں خشک سالی کا تیسرا سال ہے۔

جس کے سبب گاؤں کے رہائشی پینے کےپانی کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ میرواہ کینال، جو دریائی پانی فراہم کرتی تھی، اب خشک ہو چکی ہے اور اب وہاں ریت اڑتی رہتی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہاں ہونے والی زراعت متاثر ہوئی ہے اور مویشیوں کے لیے چارہ دستیاب نہیں رہا، جس سے سینکڑوں جانور ہلاک ہو چکے ہیں۔

علاقے کے سربراہ اللہ بچایو نے بتایا کہ سیلاب کے بعد سے ہمارے گاؤں میں پینے کا صاف پانی موجود نہیں ہے، اور صاف پانی کے لئے ہمیں دوسرے گاؤں بھگلا میمن جانا پڑتا ہے۔جس کی وجہ سے لوگوں نے یہاں سے ہجرت شروع کردی ہے کیونکہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کھیتی باڑی جو ایک واحد زریعہ معاش تھا ختم ہونے لگا ہے اور یہاں بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے ایک زمانہ تھا جب یہ علاقہ سرسبز ہوتا تھا یہاں چاول کی کاشت کی جاتی تھی لیکن پانی نہ ہونے کی وجہ سے اب وہ ناممکن ہے۔

علاقے کے سربراہ نے یہ بھی بتایا کہ سیلاب سے پہلے یہاں گورنمنٹ کے اداروں نے ایک واٹرپلانٹ بھی لگایا تھا جو کہ کھارے کڑوے پانی کو میٹھا کرتا تھاجس کی بدولت ایک عرصے تک اس گاؤں کے لوگ پینے کا صاف پانی حاصل کر رہے تھے لیکن اب سالوں سے اسکی دیکھ بھال اور مرمت کے ساتھ ساتھ تیل کی ترسیل نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی اب کارآمد نہیں رہا اور اب وہاں پرندوں نے اپنا بسیرا کرلیا ہے اور کچھ لوگ اس شیڈ میں اپنے ٹریکٹر اور گاڑیاں کھڑی کرتے ہیں۔

اب یہاں گاؤں کے لوگ اپنا گزارا کرنے کے لئے مچھلیاں اور کیکڑے پکڑتے ہیں اور شہر میں جا کر ان مچھلیوں اور کیکڑوں کو فروخت کردیتے ہیں چونکہ یہ مچھلیاں کھانے کے قابل نہیں ہوتی لہذا اسے جانوروں کی خوراک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

 یہاں کی خواتین بھی اپنے گھر کی کفالت کے لئے رلیاں اور سلائ کڑھائی کا کام کرتی ہیں تاکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے وہ اپنی ضروریات زندگی کو پورا کر سکیں۔

گاؤں میں موجود ایک خاندان سے بات کے دوران نسیمہ نے بتایا کے وہ رلیاں بناتی ہے اور کڑھائ بھی کرتی ہے جس کی وجہ سے اب اس کی آنکھیں بھی کمزور ہوگئیں ہیں اور چشمہ لگانا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے گھر کے مرد کیکڑے پکڑتے ہیں اوران کو بیچ کر انکے ہاتھوں میں مناسب رقم آجاتی ہے جو اس کے خاندان کی زندگی کو آگے بڑھنے میں مدد دیتے ہیں۔

یہاں موجود خالی نہروں میں پانی سال میں ایک یا دو بار آتا ہے، جسے یہاں کے لوگ بڑے بڑے گڑھوں میں تالاب کی شکل میں جمع کرکے سالہا سال اپنے استعمال میں لاتے ہیں جہاں اس تالاب میں ان کے جانور پانی پیتے ہیں۔ وہیں اس تالاب کے پانی کو چھان کر وہ اپنے کھانے اور پینے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔

 ہیومینیٹیرین اینڈ ڈیویلپمنٹ پروگرام (ایل ایچ ڈی پی) کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر اقبال حیدر اور آپریشن مینجر عبداللہ نے بتایا کہ ہمارا محکمہ سندھ یہاں کے 1800 کے لگ بھگ گاؤں میں کام کر رہا ہے اور ہم ان گاؤں میں سندھ گورنمنٹ کی جانب سے دیے گئے وسائل کے مطابق ضرورت کی سہولیات پہنچانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ایل ایچ ڈی پی اور انڈس کنسورشیم دونوں ساتھ کام کر رہی ہیں جب سیلاب آتا ہے تو ہم ایمرجنسی کے دنوں میں بھی کام کرتے ہیں۔ ہم واٹر ایڈ اور واٹر سینیٹیشن دونوں پر کام کر رہے ہیں۔

 مثال کے طور پرایل ایچ ڈی پی ایریا کے لحاظ سے علاقے میں مختلف پراجیکٹس کے تحت کام کر رہی ہےجس میں گاؤں شیخ کرہیو اور آس پاس کے دیہات بنہو مالہ یونین کونسل بھوگرا میمن تعلقہ اور ضلع بدین شامل ہیں۔ ان میں کاشت کے لیے 35 ایکڑ بنجر زمین کی بحالی کے لئیے سمندر کے نیچے کی زمین مہیا کی ہے،پینے اور دھونے کے مقصد کے لیے 2 پانی کے تالاب بنائے گئے، جانوروں کی ویکسینیشن اور ڈی ورمنگ، دو پانی کے تالاب بھی بنائے گئے ہیں کیکڑوں کی فارمنگ کے لئے وغیرہ

اقبال حیدرنے بتایا کہ ماتلی، ٹنڈو بھاگو سے گیس نکلتی تو ہے لیکن شیخ کیریو گاؤں اسں گیس سے محروم ہے کیونکہ یہاں گیس کی لائن ہی نہیں ڈالی گئی ہیں، انہوں نے مزید بتایا کہ شیخ کیریو گاؤں میں لوگوں کو گیس کا تصور ہی نہیں ہے، یہاں لوگ دور دراز علاقوں سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے ہیں اور کھانا پکانے اور دیگر کاموں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

شیخ کیریو بھنڈاری گاؤں کے قریب ایک صوفی بزرگ شیخ کریو بھنڈاری کا مزار واقع ہے، جو بھوگرا میمن گاؤں سے تقریباً 8 کلومیٹر جنوب میں ہے۔ یہ مزار مقامی شیخ برادری کے لیے روحانی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے قریب اسی برادری کے افراد آباد ہیں۔

حسین جروار (سی ای او۔انڈس کسورشیم) کے مطابق یہ کمیونٹیز دراصل ارباب اختیار کی رضامندی یا غور و فکر کے بغیر ان کے مخالف کیے گئے فیصلوں کی قیمت ادا کر رہی ہیں۔ ان کے پانی کے حقوق کا تحفظ صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں ہے، یہ انصاف، بقا اور مساوات کا معاملہ ہے۔

شیخ کیریو بھنڈاری گاؤں اس وقت شدید ماحولیاتی اور معاشی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ جس میں پانی کی قلت، روزگار کے مواقع کی کمی اور بنیادی سہولیات سر فہرست ہیں اوران کے نہ ہونے کی وجہ سے اس گاؤں میں رہنے والیافرادکی زندگیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی اور غیر سرکاری ادارے اس گاؤں کی حالت زار پر توجہ دیں اور وہاں کے مسائل کے حل کے لیے اقدامات کریں۔

عرشی عباس
عرشی عباس

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link