تنہائی: ایک خاموش قاتل۔ | تحریر: عارف بلتستانی

ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں دنیا ایک “گلوبل ولیج” میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ہر شخص سوشل میڈیا، ڈیجیٹل نیٹ ورکس اور جدید سہولتوں سے جُڑا ہوا ہے۔ لیکن اس ظاہری جُڑاؤ کے پیچھے ایک گہرا، اذیت ناک سناٹا چھپا ہوا ہے تنہائی کا سناٹا۔ یہ وہ خاموش قاتل ہے جو نہ شور مچاتا ہے، نہ خون بہاتا ہے، لیکن انسان کی روح کو اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کر دیتا ہے۔

یہ تنہائی ایک ایسے زخم کی مانند ہے جو نہ دکھائی دیتا ہے، نہ چھو کر محسوس کیا جا سکتا ہے، لیکن دل کے اندر خالی پن کا ایک سمندر بہا دیتا ہے۔ انسان لوگوں کے ہجوم میں بھی اپنے دِل کی بات کہنے کو ترسنے لگتا ہے۔ احساسِ موجودگی ماند پڑ جاتا ہے، اور جب سوشل میڈیا پر لاکھوں فالوورز کے باوجود دل ایک سچے دوست کو ترسے، تو یہ سب کچھ بےمعنی لگنے لگتا ہے۔

یہی وہ کیفیت ہے جو رفتہ رفتہ انسان کو ڈپریشن، بے معنویت، اور خودکشی جیسے المیوں کی طرف دھکیلتی ہے۔ کتنے ہی افراد صرف اس لیے دنیا چھوڑ چکے ہیں کہ اُن کی تنہائی کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ہم نے کبھی ان سے یہ نہیں پوچھا کہ اُن کے دل میں کیا ہے؟ اُن کے پاس درد بانٹنے والا کوئی ہے یا نہیں؟ ہم نے کبھی اُن کے آس پاس کے خلا کو پُر کرنے کی کوشش نہیں کی۔

ہمیں بحیثیتِ قوم اب یہ سیکھنا ہوگا کہ کسی کو صرف کھانا کھلانا ہی کافی نہیں، بلکہ اُس کے دل کا حال سننا، اُس کے ساتھ وقت گزارنا، اُس کے وجود کو اہمیت دینا بھی ایک عظیم صدقہ ہے۔ کسی کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینا، اُس کی باتوں کو توجہ سے سننا، اُسے یہ یقین دلانا کہ وہ اکیلا نہیں، یہ سب وہ انسانی صفات ہیں جن سے معاشرہ جیتا ہے۔ اگر تنہائی ایک خاموش قاتل ہے، تو ہم میں سے ہر شخص ایک مسیحا بن سکتا ہے، جو کسی کی زندگی میں امید کی روشنی بنے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ آج کے اس تیز رفتار، مشینی دور میں، جہاں ہر چیز ڈیجیٹل ہو چکی ہے، انسان پہلے سے کہیں زیادہ “کنیکٹڈ” ہونے کے باوجود اتنا تنہا کیوں ہے؟ سوشل میڈیا، ویبینارز، اور آن لائن کمیونٹیز کے باوجود دل کے سناٹے کیوں گہرے ہوتے جا رہے ہیں؟ مغرب میں تنہائی کو “سائلنٹ کلر” کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ جسمانی نہیں بلکہ روحانی اور نفسیاتی خلا کی پیداوار ہے۔

یہ مسئلہ کسی ایک قوم یا نسل تک محدود نہیں رہا، بلکہ ایک عالمی بحران بن چکا ہے۔ اس کا حقیقی حل تلاش کرنے کے لیے ہمیں اس کے پیچھے چھپی تہذیبی سوچ کو سمجھنا ہوگا۔ مغربی تہذیب کا بنیادی نظریہ انفرادیت اور مادیت پر قائم ہے۔ اس سوچ کے مطابق انسان اپنی ذات میں مکمل، خودمختار اور آزاد ہے۔ وہ کسی خالق یا کسی اعلیٰ مقصد کا محتاج نہیں۔ اسی لیے وہاں رشتے، تعلقات، اور قربتیں بھی وقتی یا مفاداتی ضرورتوں تک محدود ہو چکی ہیں۔

یہی سوچ انسان کو اپنے خالق سے کاٹ دیتی ہے، اور یوں وہ دوسروں سے بھی کٹ جاتا ہے۔ جب زندگی کا مرکز صرف “میں” بن جائے تو “ہم” بکھر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا میں خاندانی نظام بکھر چکا ہے، اولڈ ہاؤسز بڑھتے جا رہے ہیں، نوجوان تنہائی میں جی رہے ہیں، اور سوشل میڈیا کا دھوکہ انہیں وقتی توجہ دے کر مزید اندر سے خالی کر رہا ہے۔ مغرب تنہائی کا صرف سطحی علاج کرتا ہے۔ یعنی علامات کو دباتا ہے، لیکن بیماری کی جڑ، یعنی روحانی اور سماجی بے معنویت کو نظرانداز کر دیتا ہے۔

اس کے برعکس اسلام ایک مکمل اور مربوط تصورِ حیات دیتا ہے، جو انسان کی روحانی، نفسیاتی، اور سماجی فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ اسلام کا تصورِ کائنات توحید پر مبنی ہے، یعنی اس یقین پر کہ انسان تنہا نہیں، اُس کا ایک خالق ہے جو اُس کو جانتا ہے، اُس سے محبت کرتا ہے، اور اُس کی رہنمائی کے لیے ہر لمحہ موجود ہے۔ اس نظامِ فکر میں انسان کے چار اہم رشتے ہوتے ہیں: خود سے، خالق سے، دوسرے انسانوں سے، اور باقی مخلوقات سے۔ جب یہ رشتے مضبوط ہوں تو تنہائی کی گنجائش نہیں رہتی۔

اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ تنہائی کا سب سے پہلا علاج اللہ سے تعلق کو بحال کرنا ہے۔ دلوں کا سکون دولت، شہرت، یا سوشل میڈیا میں نہیں، بلکہ اُس ہستی کے ذکر میں ہے جو دلوں کے حال سے واقف ہے۔ “أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ” یقیناً دلوں کو سکون صرف اللہ کے ذکر سے ملتا ہے۔ عبادت، دعا، اور قرآن کے ساتھ وقت گزارنا ہمیں اُس اصل مرکز سے جوڑتا ہے جس سے جڑنے کے بعد کوئی دل تنہا نہیں رہتا۔

اس کے ساتھ ہی اسلام معاشرتی تعلقات کو بھی نہایت اہمیت دیتا ہے۔ صلہ رحمی، احسان، ہمسایہ داری، مجلس، خیر خواہی، اور خدمتِ خلق جیسے اعمال انسان کو ایک زندہ، متحرک اور پرمعنی تعلق میں جوڑتے ہیں۔ جب انسان کسی دوسرے کے درد میں شریک ہوتا ہے، اُس کی بات سنتا ہے، اُس کا سہارا بنتا ہے، تو نہ صرف دوسرے کی تنہائی کم ہوتی ہے بلکہ خود اس انسان کی زندگی میں بھی ایک نئی معنویت شامل ہو جاتی ہے۔

اسلامی طرزِ زندگی ہمیں دکھاتا ہے کہ زندگی صرف جینے کا نام نہیں، بلکہ کسی کے لیے جینے کا نام ہے۔ جب انسان اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے مفید بننے لگے، تو اس کی اپنی زندگی میں بھی سکون، مقصد اور روشنی بھر جاتی ہے۔تنہائی ایک خاموش قاتل ضرور ہے، لیکن اس کا علاج بھی ہمارے پاس ہے۔ وہ علاج نہ صرف دینی ہے بلکہ انسانی بھی ہے۔ ہمیں صرف یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اس خاموشی کو کب توڑتے ہیں، کب کسی کا حال پوچھتے ہیں، کب کسی کے ساتھ بیٹھتے ہیں… اور کب خود کو بھی اُس نور سے جوڑتے ہیں جو تنہائی کے اندھیروں کو مٹا سکتا ہے۔

اس الہی نور کا سرچشمہ حسین علیہ السلام ہے۔ جو کربلا سے طلوع ہوا ہے ۔ کربلا عشق کا مسکن ہے اور کربلا کے لائق وہی لوگ ہیں، جو حریت پسند ہو اور جن کے دل عشق سے ایسے لبریز ہیں۔ تعصب کی عینک کو اتار کر اگر دیکھیں تو جان لو!  تمہارا سینہ بھی لا محدود آسمان کی مانند ہے اور اس میں تمہارا دل وہ سورج ہے جس سے روشنی پھوٹ رہی ہے اور غور سے سنو تمہارے دل کی دھڑکن کیا ترنم سنا رہی ہے: حُسین، حُسین، حُسین، حُسین۔ پوری کائنات عشق کے طواف  میں مگن ہے، اس طواف کا مرکز حسینؑ ہے۔ ہمارا پیغام استقامت ہے، اور یہ وہی نور ہے جو زمان و مکان کی وسعتوں سے بالاتر ’’فاستقم کما اُمِرتُ وَ مَن تَابَ معک‘‘ کے سرچشمے سے فروزاں ہے، اور یہی وجہ ہے کہ آنے والا زمانہ ہمارا ہے۔ العاقبۃ للمتقین۔” کوئی بند گلی نہیں ہے۔ ایک روشن مستقبل ہے۔ تنہائی کے گرداب میں پھنسنے اور نا امید ہونے کے بجائے سفینہ نجات میں داخل ہونے کی دیر ہے۔

عارف بلتستانی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link