نائلہ اظہر کا صالحہ محبوب کے افسانوی مجموعے ‘اس نے کمال کر دیا ‘پر تبصرہ
آ ج کتاب شروع کی ہےایک کہانی پڑھی تو سوچا کہ تھوڑا سا تبصر ہ کرنا چائیے۔
کہانی “خود غرض” خاموشی سے یہ پیغام دیتی ہے کہ رشتے صرف الفاظ سے نہیں، توجہ، محبت اور وقت مانگتے ہیں۔ جب انسان صرف اپنی ذات میں کھو جائے تو آس پاس کے لوگ آہستہ آہستہ دور ہونے لگتے ہیں۔ اور جب تنہائی گلے لگاتی ہے، تب جا کر احساس ہوتا ہے کہ اصل خوبصورتی دوسروں کے دل جیتنے میں ہے، نہ کہ صرف خود کو سنوارنے میں۔
ایصالِ ثواب
کہانی ایصالِ ثواب دادی اور پوتی کی محبت پر مبنی ہے، مگر اس میں بیٹوں کی بےحسی اور دنیا داری کو بھی خوب اجاگر کیا گیا ہے۔ دادی اپنی زندگی میں اپنی موت کی تیاری خود کرتی ہیں کیونکہ بیٹے صرف مال اور جانوروں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ مصنفہ نے دکھایا ہے کہ کیسے دین کی اصل روح کو چھوڑ کر صرف رسموں کو اپنایا جا رہا ہے۔ کہانی ایک تلخ حقیقت کی آئینہ دار ہے جہاں ایصالِ ثواب کے نام پر ریاکاری اور غفلت چھپی ہوتی ہے۔
“انتظار” ایک تلخ حقیقت کو سادہ بیانیے میں بیان کرنے والی کہانی ہے جو قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ مصنفہ (صالحہ) نے نہایت کامیابی سے دکھایا کہ غربت صرف پیٹ کی بھوک نہیں ہوتی، بلکہ کبھی کبھار احساس کی بھی بھوک جنم لے لیتی ہے۔ کہانی کا اختتام چونکا دینے والا ضرور ہے، مگر اس کے پیچھے ایک گہرا پیغام ہے: زندگی کا احترام صرف مرنے کے بعد نہیں، جیتے جی ہونا چاہیے۔
کہانی ، اے آ گ ٹھنڈی ہو جا۔
یہ کہانی نہ صرف رشتوں کی قدر، بلکہ احساس، برداشت اور سیرتِ رسول ﷺ سے سبق لینے کی بہترین مثال ہے۔ ایک ایسا پیغام جو ہر قاری کو اپنے اندر جھانکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
کہانی “ستّارالعیوب” ایک نہایت باریک مگر گہرا اخلاقی اور نفسیاتی پہلو اُجاگر کرتی ہے۔ شوگر جیسے عام مگر سنجیدہ مرض کے پس منظر میں انسانی کمزوری، خودفریبی، اور ضمیر کی آواز کو نہایت ہنر مندی سے بیان کیا گیا ہے۔
انصاف کی چکی
قسمت کی چکی سب کو ایک بار ضرور پیستی ہے۔
جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودے، ایک دن خود بھی اُس میں گرتا ہے
کہانی “شکر گزاری کی عینک” ہمیں قناعت، شکر اور خاندانی محبت کا خوبصورت پیغام دیتی ہے۔ بابا جی اور اماں جی کا ہر حال میں شکر ادا کرنا اور بیٹوں کا ان کے آرام کا خیال رکھنا، ایک مثالی خاندانی رشتہ دکھاتا ہے۔ ہر فرد نے اپنی ذمہ داری خوشی سے نبھائی، جس سے سب کا دل لگا اور ماحول خوشگوار ہو گیا۔
یہ کہانی سکھاتی ہے کہ اگر ہم شکر گزاری اور محبت سے زندگی گزاریں تو خوشی خود بخود ملتی ہے۔
آ ئینہ
یہ کہانی ایک عام مگر اہم مسئلے کی عکاسی کرتی ہے کہ جب لاڈ پیار حد سے بڑھ جائے تو وہ اولاد کی شخصیت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ ماں کی دیر سے سہی مگر تربیت کی طرف توجہ قابلِ ستائش ہے۔ محبت کے ساتھ نظم و ضبط بھی ضروری ہے
مشینوں کی حکومت
مواقع ہمیشہ نہیں ملتے۔ جو وقت میسر ہو، اس میں شکر، محنت اور نظم و ضبط اختیار کریں۔ ورنہ وقت اور ترقی کا پہیہ کسی کا انتظار نہیں کرتا۔
“معجزہ” ایک سادہ مگر دل کو چھو لینے والی کہانی ہے، جو قربانی، دھوکے اور اللہ پر یقین کا خوبصورت امتزاج ہے۔ شاکر کا کردار پردیس کی محنت کش حقیقت کو اجاگر کرتا ہے، جب کہ بھائی کا رویہ ایک عام سماجی المیہ ہے۔
کہانی کا اختتام امید اور اللہ کی مدد کا پیغام دیتا ہے، جو دل کو سکون بخشتا ہے۔ اگر بھائی کی توبہ کا پس منظر تھوڑا اور واضح ہوتا تو کہانی مزید مؤثر بن سکتی تھی۔
بےحسی
مجموعی طور پر یہ ایک سبق آموز اور روح پرور تحریر ہے۔یہ کہانی صرف ایک شخص کی نہیں بلکہ ایک رویے کی کہانی ہے جو ہمارے آس پاس عام ہے۔ اس سے سبق لینا ضروری ہے کہ صرف اولاد پیدا کرنا کافی نہیں، ان کی صحت، تربیت اور ذمہ داری بھی والدین پر فرض ہے۔ اور جب ریاست یا ادارے عوامی بھلائی کے لیے اقدامات کریں جیسے پولیو مہم، تو ان کی مخالفت صرف نقصان ہی لاتی ہے۔
سر کا سائیں
یہ کہانی بظاہر ایک سادہ چوری کی واردات سے شروع ہوتی ہے، لیکن جیسے جیسے انجام کی طرف بڑھتی ہے، اس میں چھپے انسانی جذبات، رشتوں کی پیچیدگیاں، اور طبقاتی تلخیاں سامنے آتی ہیں۔
واقعاتی ترتیب بہت سادہ ہے، مگر انجام بہت وزنی ہے۔ بیوی کا اپنے شوہر کو “میرے سر کا سائیں” کہہ کر دفاع کرنا، اس پورے بیانیے کو ایک نئی گہرائی دیتا ہے۔
جب چور کے جرم پر سب متفق تھے اور اس کی بیوی بھی کہہ رہی تھی “پکڑو تو چھوڑنا نہیں”، تو اس وقت وہ اصول کی بات کر رہی تھی۔ لیکن جیسے ہی حقیقت سامنے آئی کہ چور اس کا شوہر ہے، اس کی ساری اصول پسندی، ایک بیوی کی بےبسی اور جذباتی وفاداری میں بدل گئی۔”سر جی، وہ میرے سر کا سائیں ہے”
یہ جملہ نہ صرف کردار کی بے بسی اور محبت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ پورے معاشرے میں موجود اُس سوچ کی بھی نمائندگی کرتا ہے جہاں رشتے قانون اور اخلاقیات سے زیادہ وزنی سمجھے جاتے ہیں
تلاش گمشدہ
یہ کہانی معاشرتی سستی، گھریلو بے ترتیبی اور وقت کے ضیاع کے مسائل کو بڑے خوبصورت اور نرم پیرائے میں سامنے لاتی ہے۔ خاتونِ خانہ کی “تبدیلی” اصل میں صرف ایک طریقۂ کار کی تبدیلی ہے — یعنی کاموں کو نماز کے اوقات کے مطابق ترتیب دینا۔ اس کے ذریعے مصنفہ نے یہ پیغام دیا ہے کہ نماز نہ صرف عبادت ہے بلکہ ایک فطری شیڈول بھی فراہم کرتی ہے جو زندگی کو منظم اور پُرسکون بنا سکتی ہے۔
اس نے کمال کر دیا
یہ کہانی معاشرتی جبر، فضول رسومات اور جہیز جیسی لعنت کے خلاف ایک توانا آواز ہے۔ طلوعِ سحر کا کردار آج کی خوددار، تعلیم یافتہ لڑکی کی بہترین عکاسی کرتا ہے، جو نہ صرف ظلم برداشت کرنے سے انکار کرتی ہے بلکہ باعزت انداز میں اپنے حق کے لیے کھڑی ہوتی ہے۔ کہانی کا انجام حقیقت پسند اور حوصلہ افزا ہے، جو معاشرے کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ بیٹیوں کو بوجھ نہیں بلکہ حوصلہ بنائیں۔ مختصر مگر مؤثر کہانی، جس میں سادہ زبان کے باوجود گہرا پیغام چھپا ہے۔
قصاص
کہانی میں دو مختلف قانونی نظاموں کا موازنہ بہت مؤثر انداز میں دکھایا گیا ہے۔ ایک طرف پاکستان کا نظامِ انصاف جہاں دہائیوں تک فیصلے نہیں ہوتے، اور مظلوم عدالتوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب کا سخت لیکن فوری انصاف، جو ظالم کو فوراً انجام تک پہنچاتا ہے اور متاثرین کو تحفظ اور سہارا فراہم کرتا ہے۔ کہانی میں درد، معاشرتی بے بسی اور انصاف کی اہمیت بہت خوبصورتی سے ابھرتی ہے۔ انجام قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ انصاف صرف سزا نہیں، متاثرہ خاندان کی زندگی سنوارنے کا ذریعہ بھی ہے۔
غلط فہمی
کہانی کا موضوع مضبوط اور حقیقت پر مبنی ہے، “غلط فہمی” نام بالکل موزوں ہے۔ بھائی کی ضد، ماں کی دور اندیشی اور آخر میں بیٹوں کی تربیت ماں کے ہاتھ آنے کا انجام سبق آموز ہے۔ مجموعی طور پر کہانی مؤثر، سبق آموز اور متوازن ہے۔
بول کے لب آ زاد ہیں تیرے
کہانی ظلم، صبر، خودداری اور عزتِ نفس کی خوبصورت ترجمانی ہے۔ اس میں “بول کہ لب آزاد ہیں تیرے” کا پیغام عملی طور پر دکھایا گیا ہے کہ جب انسان اپنی آواز اٹھاتا ہے اور اپنی قدر پہچانتا ہے تو حالات چاہے جتنے بھی کٹھن ہوں، آخرکار آزادی اور سکون ملتا ہے۔ کہانی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انجام انتقام نہیں بلکہ وقار اور خودمختاری پہ ختم ہوتا ہے۔
ربیع قلبی
ایک بہترین کاوش۔ کہانی کے نام کی طرح ربیع قلبی یعنی میرے دل کی بہار، کو نہایت خوبصورتی سے کہانی سے جوڑا ہے۔دادی کے دل میں قرآن پاک سیکھنے کی لگن اور اس کی تکمیل واقعی ان کے دل کی بہار بن گئی۔
کہانی سادہ، مؤثر اور جذبات سے بھرپور ہے ۔کہانی میں سچائی اور سبق دونوں موجود ہیں ۔ مختصر الفاظ میں یہ کہانی حوصلہ دین کی خدمت اور انسانی جذبے کی خوبصورت مثال ہے
۔کہانی کا سکینڈ لاسٹ پیراکہ ڈھیروں ہار گلے میں ڈالے آ ج آ پا بھی پر نم آ نکھوں سے سوچ رہی تھیں کہ ورثہ تو وہ گھر تھا جو چھوٹا بھی تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ پرانا بھی،مگر یہ ترکہتو انھیں بھی انمول بنا گیا، واقعی بہت شاندار قابل تعریف ہے۔
روشن ستارہ
یہ کہانی والدین کی سوچ اور وقت کی اصل حقیقت کو بہترین انداز میں اجاگر کرتی ہے۔
کہانی کا انجام مؤثر ہے کہ جو بچہ ناکام سمجھا جاتا تھا، وہی اصل میں والدین کا سہارا اور روشن ستارہ بن گیا۔
عنوان بالکل موزوں اور جچتا ہوا ہے۔
سبق واضح ہے: ہر بچہ اپنی جگہ قیمتی ہے، ہر کسی کی قابلیت کا پیمانہ صرف ڈگری یا تعلیمی نمبر نہیں ہوتا۔