پتھرانزَک، کھوو، جاپانی اور انگلینڈ کی مشترک علامت۔ | تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
کھوار زبان میں “پتھرانزَک“ ایک ایسا لفظ ہے جسے اردو میں “بِجوکا” یا “بِجھوکا” اور انگریزی میں “Scarecrow” کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کا بنیادی تعلق زرعی تہذیب اور دیہی زندگی سے ہے، جہاں کھیتوں میں کسان فصلوں کو پرندوں اور آوارہ جانوروں سے بچانے کے لیے انسانی شکل کا ایک ڈھانچہ تیار کرتے ہیں۔ یہ ڈھانچہ اکثر گھاس، بھوسے، لکڑی یا کپڑے سے تیار کیا جاتا ہے اور کھیت کے وسط یا کنارے نصب کیا جاتا ہے تاکہ پرندے اسے انسان سمجھ کر خوف کھائیں اور فصل کو نقصان نہ پہنچائیں۔
“پتھرانزک” محض ایک ڈھانچہ نہیں بلکہ کسان کی ذہانت، مشاہدے اور فطرت سے ہم آہنگی کی علامت بھی ہے۔ یہ کھوو تہذیب کی علامتی یادگار ہے، جو انسانی صورت میں غیر انسانی کردار نبھاتا ہے۔ بالائی چترال میں
اب بھی کہیں کہیں ”پتھرانزک” نظر آرہے ہیں لیکن لوئر چترال میں اب یہ رسم معدوم ہوگئی ہے۔
پتھرانزک” یعنی بجوکا کی انسانی شباہت اس کی افادیت کا بنیادی پہلو ہے۔پرانے زمانے میں چترال میں اسے کبھی مٹی کا چہرہ دیا جاتا تھا، کبھی لکڑی کا، بعض اوقات پرانے کپڑے، ہیٹ یا چترالی کپھوڑ اور مفلر کے ذریعے اسے مکمل انسانی پیکر میں ڈھالا جاتا تھا۔ ”پتھرانزک” یعنی بجوکا دراصل خوف اور حفاظت کے بیچ ایک لطیف توازن کا نام ہے۔چترال کے کسان ”پتھرانزک” بناتے وقت جس انسان کی شبیہ تراشتا ہے، وہ گویا ایک “خاموش محافظ” بن جاتا ہے۔ ایک ایسا محافظ جو نہ بولتا ہے، نہ چلتا ہے، مگر اس کی موجودگی میں فصلیں محفوظ ہو جاتی ہیں۔ ”پتھرانزک” کی موجودگی کو دیکھ کر چور اور پرندے بھاگ جاتے ہیں۔
شمالی یارک شائر (انگلینڈ) کے ماسٹن گاؤں میں ہر سال ”پتھرانزک” یعنی”بجوکا فیسٹیول” منایا جاتا ہے جو ایک ثقافتی جشن کی صورت اختیار کر چکا ہے۔”پتھرانزک” انگلینڈ اور چترال کی مشترکہ علامت بن چکی ہے۔
اگرچہ انگلینڈ میں 1999ء سے پہلے یہ ایک چھوٹا سا دیہی تہوار تھا، مگر اب یہ ایک بین الاقوامی رنگ اختیار کر چکا ہے۔ یہاں رنگ برنگے بجوکے تیار کیے جاتے ہیں جو دیہی تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہیں۔ لیکن چترال میں
”پتھرانزک” کااستعمال ریاست چترال سے پہلے موجود تھا اور اب بھی بالائی چترال میں موجود ہے۔
اسی طرح جاپان کے ناگورو گاؤں میں، جہاں انسانی آبادی کم ہو چکی ہے، وہاں ”پتھرانزک” کو زندگی کی نمائندگی دی گئی ہے۔ یہ نہ صرف گاؤں کے خالی پن کو پر کرتے ہیں بلکہ تہذیبی یادداشت کا ایک متحرک استعارہ بھی بن چکے ہیں۔ ”پتھرانزک” اب چترال اور جاپان میں بھی مشترک علامت بن گئی ہے۔ اردواور کھوار ادب اور دیگر عالمی ادب میں بھی ”پتھرانزک” کو محض ایک دیہی شے کی بجائے ایک علامتی پیکر کے طور
پر اپنایا گیا ہے۔
سعادت حسن منٹو نے 1954ء میں ہندوستان کے وزیرِاعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو ایک مشہور خط لکھا جس کا عنوان ہی “بجوکا” تھا۔ اس خط میں منٹو نے بجوکا کے ذریعے معاشرتی، سیاسی اور فکری زوال کی عکاسی کی۔ بجوکا یہاں خاموشی، لاچاری اور نمائشی پن کی علامت کے طور پر ابھرتا ہے۔
اسی طرح سریندر پرکاش کا افسانہ “بجوکا“ بھی بجوکے کو ایک تلخ حقیقت کے پیکر کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ہوری، ایک کسان، جو آزادی کے بعد اپنی زمین اور فصل کے مالک ہونے پر خوش ہے، اس وقت چونک جاتا ہے جب اس کی فصل کاٹنے والا کوئی اور نہیں بلکہ وہی بجوکا نکلتا ہے، جسے اس نے حفاظت کے لیے بنایا تھا۔ یہ ایک گہرا استعارہ ہے جس میں اقتدار، غداری اور استحصال جیسے عناصر پوشیدہ ہیں۔
پتھرانزک یا بجوکا دراصل کھوو تہذیب کا محض ایک زرعی آلہ ہی نہیں بلکہ ایک تہذیبی علامت بھی ہے۔ جہاں ایک طرف یہ کسان کی ذہانت، مشاہدہ اور قدرت کے ساتھ ہم آہنگی کی نمائندگی کرتا ہے، وہیں دوسری طرف یہ بے جان انسانی شکل کی صورت میں ایک تلخ سماجی استعارہ بھی بن جاتا ہے۔ ادب میں اس کا استعمال سماجی بے حسی، سیاسی استبداد اور عوامی استحصال کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
سریندر پرکاش کے افسانے میں بجوکا ریاستی نمائندگی کا استعارہ ہے جو عوامی بھلائی کے لیے بنایا گیا تھا لیکن بالآخر وہی عوامی سرمائے پر قابض ہو گیا۔ اسی طرح منٹو کے خط میں بجوکا ایک ایسا معاشرہ ہے جو بول نہیں سکتا، احتجاج نہیں کر سکتا اور بس تماشا دیکھتا رہتا ہے۔
کھوار زبان کا “پتھرانزک” یا “بجوکا” اپنی سادہ ساخت کے باوجود ایک کثیر المعنٰی علامت بن چکا ہے۔ یہ نہ صرف دیہی زراعت کی علامت ہے بلکہ معاشرتی و ادبی اظہار کا ایک اہم استعارہ بھی بن چکا ہے۔ کھوار زبان سے اردو اور اردو سے عالمی ثقافت تک یہ لفظ اور اس کے تصور نے انسانی تخیل اور فکری دنیا میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ یہ محض کھیتوں کا محافظ نہیں، بلکہ تہذیبوں کا گواہ، معاشرت کا ناقد اور سیاست کا بے زبان تماشائی بھی ہے۔
