بند دروازوں کے پیچھے مرنے والوں کا نوحہ۔ | تحریر: ارشد قریشی

کراچی  ایک ایسا شہر جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، اب اندھیروں  اور غلاظت میں ڈوبا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ان اندھیروں میں صرف لوڈشیڈنگ ، بنیادی ضرورتوں کے مسائل  یا جرائم نہیں، بلکہ تنہائی، بےخبری اور وہ موتیں چھپی ہوئی ہیں جنہیں محسوس کرنے والا کوئی نہیں۔

گزشتہ دنوں شہر کے مختلف علاقوں سے ایسی لاشیں ملی ہیں جو بند گھروں میں کئی  روز  پرانی تھیں۔جن  میں ملک کی معروف  بزرگ اداکارہ عائشہ خان ، اداکارہ و ماڈل  حمیرا اصغر اور ایک عام شہری  ظفر شامل ہیں ۔ حمیرا اصغر کی  موت کو نو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا تھا، لیکن کسی نے دروازہ نہیں کھٹکھٹایا، کسی کو ان کی یاد نہ آئی، کسی کو یہ جاننے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ ایسی ہی خبریں نارتھ ناظم آباد، گلشنِ اقبال، سعدی ٹاون  اور ڈیفنس جیسے علاقوں سے آئیں جہاں زیادہ تر لوگ اکیلے رہتے تھے۔

سوال یہ نہیں کہ وہ کیسے مرے، سوال یہ ہے کہ وہ مرنے کے بعد کب تک یاد نہ کیے گئے؟ ان کی چیخیں، اگر تھیں، تو دیواروں میں گم ہو گئیں۔ ان کے وجود کی گواہی صرف ان کے سڑنے والے جسموں نے دی۔ بدبو جب برداشت سے باہر ہوئی، تب کسی کو ہوش آیا۔

یہ مناظر صرف فلموں یا ناولوں تک محدود نہیں رہے، بلکہ ہماری حقیقت بن چکے ہیں۔ ہم سب کے آس پاس ایسے درجنوں لوگ ہیں جو بظاہر زندہ ہیں، لیکن حقیقتاً تنہائی کی قبر میں دفن ہو چکے ہیں۔ بزرگ، تنہا خواتین، ریٹائرڈ ملازمین، بیمار افراد  سب کسی نہ کسی وقت اس انجام کا شکار ہو سکتے ہیں۔

حمیرا  ہو یا عائشہ خان ان کے چاہنے والے لاکھوں میں تھے ۔ چلیں لاکھوں نہیں تو دس پندرہ لوگ تو ضرور رابطے میں رہے ہوں گے  کیا ان رابطے میں رہنے والوں نے یہ تک محسوس نہ کیا کہ کئی روز سے ان سے ربطہ نہ ہوا یا کہیں نظر نہیں آئیں تو خبر گیری کرلی جائے کہ آخر ماجرہ کیا ہے ۔ پوش علاقوں میں رہنے والے جانتے ہیں زیادہ تر فلیٹوں ، سوسائٹیوں میں مرکزی داخلی راستوں پر چوکیدار یا گارڈز موجود ہوتے ہیں وہ  وہاں رہنے والوں کو جانتے ہیں اگر کوئی اچانک غائب ہوجائے تو انہیں ضرور احساس ہوتا ہوگا کہ فلاں انسان کافی دنوں سے نظر نہیں آیا ۔ اس کے علاوہ کراچی کے ایسے علاقوں میں ہر روز کچرے والا، دودھ والا، دھوبی، سبزی والا، اخبار والا، گھر میں کام کرنے والی ماسیاں ،  چوکیدار اور فلیٹوں میں قائم کمیٹیاں جو   صفائی ستھرائی کا کام کراتی ہیں اور  اس مد میں ماہانہ پیسے لیتے ہیں یہ سب کے سب اتنے طویل عرصہ کیسے بے خبر رہ سکتے ہیں ۔سوچتا ہوں حمیرا کی  موت سے لے کر اس کی لاش گلنے سڑنے کے نو ماہ کے دوران دو عید کے تہوار  بھی ا ٓئے تو کیا بے حسی ان تہواروں  پر بھی غالب رہی کسی نے عید مبارک کے لیے فون تو کیا ہوگا کیوں پڑوسی اکیلے رہنے والی حمیرا کے لیے شیر خرما  یا قربانی کا گوشت بھی نا لایا ہوگا۔ کسی نے تو نئے سال کی مبارک باد کے لیے حمیرا کو کال کی ہوگی ۔

اسی حوالے سے یہاں اپنا ایک ذاتی مشاہدہ بیان کرتا چلوں کہ گذشتہ دنوں ہمارے بڑے بھائی صاحب کی طبعیت خراب ہوگئی اور انہیں ایک  مقامی اسپتال لے جایا گیا جہاں ان کا تشویش ناک حالت میں  آپریشن کیا گیا جس کے باعث وہ کئی روز تک انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہے ۔ ہمارے بھائی صاحب کا حلقہ احباب ہم بہن بھائیوں سے کہیں زیادہ وسیع ہے  اس کے باوجود ہمیں حیرت تھی کہ تین دن گذرنے کے باوجود ہمارے خاندان کے علاوہ کسی کو خبر نہ ہوئی کے بھائی صاحب کو کیا ہوا یا وہ کہاں ہیں ، ہم  لوگوں نے سوچا کہ چلیں ہم بھائی کے سیل فون سے یہ دیکھ کر کہ بھائی کن لوگوں سے ہر روز رابطے میں رہتے تھے انہیں خبر کردیں  اس کے بعد لوگوں کا اسپتال میں عیادت کا سلسلہ چل نکلا  لیکن مجھے  ایک بات پر سخت حیرانی اور مایوسی بھی ہور ہی تھی کہ جتنے لوگ عیادت کے لیے آ رہے تھے ان میں ننانوے فیصد لوگ کہتے تھے کہ کئی دن سے ان کا واٹس ایپ پر صبح کا پیغام نہیں آرہا تھا  ان کی فیس بک پر پوسٹ نظر نہیں آرہی تھی   جس سے اندازہ ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے  ۔میری نظر میں یہ ایک بہت خطرناک صورت حال ہے کہ سوشل میڈیا پر آپ کی موجودگی آپ کی خیریت کی ضامن ہے ۔ تو پھر عائشہ خان اور حمیرا تو طویل عرصہ سوشل میڈیا سے غائب رہیں پھر کیوں کسی کے کان پر جوں نہ  رینگی ! کیوں کسی نےان کے  گھر یہ اس سوسائیٹی میں جاکر ان کی خیریت دریافت کرنے کی زحمت  نہ کی۔

یہ المیہ صرف ان افراد کا نہیں، بلکہ پورے معاشرے کا ہے۔ ہم نے رشتوں کو فاصلے دے دیے، ہمسائیوں کو دروازوں کے باہر روک دیا، بزرگوں کو موبائل فونز اور سوشل میڈیا پر “ہیلو” کے پیغامات میں سمیٹ دیا۔ ہم نے حقیقی تعلقات کو ڈیجیٹل موجودگی سے بدل دیا، اور اس کا خمیازہ تنہائی کی موت کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔

معاشرتی سست روی اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ جب لاشوں کی بدبو ناقابل برداشت ہو جائے تو ہمیں یاد آتا ہے کہ ہمارے ساتھ رہنے والے بھی انسان تھے۔  پڑوسی کو پڑوسی کا حال کا علم  نہ ہو، تو کیا یہ واقعی ایک “معاشرہ” ہے؟

یہ خبریں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ ہمیں اپنی ترجیحات پر غور کرنا ہوگا۔ شہری مصروفیات، تیز رفتار زندگی، موبائل میں قید وقت اور خود غرض طرزِ حیات ہمیں ایک ایسے اندھے گڑھے میں دھکیل رہا ہے جہاں صرف خود کا خیال رکھا جاتا ہے، باقی سب “بیک گراؤنڈ نوائس” بن جاتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
“نماز باجماعت انفرادی نماز سے ستائیس درجے افضل ہے۔”

یہ فضیلت صرف جسمانی اجتماع کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس کے ذریعے پیدا ہونے والے سماجی اور معاشرتی اثرات کی وجہ سے ہے۔مسجد وہ جگہ ہے جہاں دن میں پانچ بار مسلمانوں کا آپس میں سامنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص غیر حاضر ہو، تو فوراً اس کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔نماز کے ساتھ ساتھ ہماری معاشرتی تربیت ہوتی ہے۔

ہمیں  خود سے یہ سوال کرنے ہوں گے کہ

کیا ہماری سوسائٹیز میں تنہا رہنے والوں کے لیے کوئی نظام موجود ہے؟

کیا پڑوسیوں سے تعلقات اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ کسی کی غیر حاضری کا ہمیں مہینوں علم نہ ہو؟

کیا کسی کی زندگی صرف اس وقت اہم ہوتی ہے جب وہ سوشل میڈیا پر ایکٹیو ہو؟

ان سوالات کے جوابات ہمیں خود میں تلاش کرنے ہوں گے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دوبارہ انسانیت کے اصولوں کی طرف رجوع کریں۔ ہمسائیوں کے دروازے پر دستک دینا کوئی غیر اخلاقی یا مداخلت نہیں بلکہ اسلامی اور انسانی اقدار کا تقاضا ہے۔ تنہائی کی زندگی بسر کرنے والے افراد سے رابطے میں رہنا، ان کی خیریت معلوم کرنا، اور گاہے بگاہے ان سے ملنا معاشرتی صحت کی علامت ہے۔

بلدیاتی اداروں، پولیس، سوسائٹی انتظامیہ اور سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹس کو بھی اس حوالے سے سنجیدگی اختیار کرنی چاہیے۔ اکیلے رہنے والے افراد کا باقاعدہ ریکارڈ، خیریت دریافت کرنے کے مکینزم اور محلہ کمیٹیوں کا فعال کردار اس المیے کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

یاد رکھیں، تنہائی صرف ایک نفسیاتی کیفیت نہیں، یہ ایک قاتل خاموشی ہے جو جسم کو اندر ہی اندر ختم کر دیتی ہے۔ اور جب موت آئے، تو اگر کوئی دروازہ کھولنے والا نہ ہو، تو اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے؟

یہ وقت ہے کہ ہم جاگیں، اپنے آس پاس کے لوگوں کا احساس کریں، ان کے وجود کی قدر کریں اس سے پہلے کہ وہ صرف ایک بدبو بن کر یاد آئیں۔

MAQ

ارشد قریشی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link