شہادت امام حسین وحدت امت کا پیغام۔ | تحریر: سیدہ ایف گیلانی
تاریخِ انسانیت کے صفحات پر اگر کسی قربانی نے سب سے زیادہ اثر چھوڑا ہے تو وہ شہادتِ امام حسینؑ ہے۔ کربلا کی تپتی ریت پر نواسۂ رسولؐ نے صرف اپنی جان ہی نہیں دی، بلکہ حق و باطل کی تمیز، جبر و عدل کے فرق، اور دین کی اصل روح کو محفوظ کرنے کے لیے ایک ایسی جدوجہد کی بنیاد رکھی جو رہتی دنیا تک ایک معیارِ حق بن گئی۔ مگر سوال یہ ہے کہ آج کا مسلمان اس فلسفے کو کتنا سمجھتا ہے؟ اور کیا ہم اس عظیم قربانی کے فکری اور اخلاقی مطالبات پر پورا اُتر رہے ہیں؟
امام حسینؑ کی شہادت کو محض ایک واقعہ سمجھنا یا صرف رنج و غم کی حد تک محدود کرنا اس عظیم جدوجہد کی روح سے ناانصافی ہے۔ امامؑ نے یزید کی بیعت نہ کرکے یہ اعلان کیا کہ مسلمان کسی فاسق، ظالم اور غاصب حکمران کے آگے سر نہیں جھکا سکتا۔ یہ اسلامی اصولِ عدل کی بقاء کی جنگ تھی، جو قیامت تک حق کے متوالوں کو ظلم کے سامنے ڈٹ جانے کا درس دیتی رہے گی۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم دنیا کے اکثر خطے ظلم، کرپشن، اقربا پروری، اور اخلاقی زوال کا شکار ہیں۔ کیا ہم نے کبھی خود سے یہ سوال کیا کہ اگر ہم واقعی امام حسینؑ کے ماننے والے ہیں، تو ہم نے ان کے پیغام کو اپنی زندگی میں کس حد تک نافذ کیا ہے؟ کیا ہمارے حکمران عدل پر قائم ہیں؟ کیا ہمارے معاشرے میں مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مخالفت کا جذبہ موجود ہے؟
امام حسینؑ نے اپنی جان قربان کی مگر باطل کے ساتھ سمجھوتہ نہ کیا۔ آج ہمیں بھی اس پیغام کو تعلیمی میدان میں زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری جامعات، مدارس اور نصابِ تعلیم کو کربلا کے فکری پیغام کو شامل کرکے نوجوان نسل کو ظلم کے خلاف کھڑا ہونے کا شعور دینا ہوگا۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ شہادتِ حسینؑ کو فرقہ وارانہ تعصب کی نذر کر دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امام حسینؑ تمام امت کے مشترکہ ہیرو ہیں۔ ان کی قربانی کو بنیاد بنا کر ہم سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث—سب کے درمیان وحدتِ فکر و عمل پیدا کر سکتے ہیں۔
فلسطین، کشمیر، یمن، برما، شام—جہاں بھی مسلمان مظلوم ہیں، وہاں کربلا کی روح ہمیں جھنجھوڑتی ہے کہ ہم امام حسینؑ کے فلسفے کو عملی صورت میں کیوں نہیں اپناتے؟ ہم احتجاج، مزاحمت، سچائی، استقامت، اور قربانی کے اُس معیار کو کیوں نہیں دہراتے جو نواسۂ رسولؐ نے قائم کیا؟
امام حسینؑ نے فرمایا:
“مجھ جیسا، یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔”
یہ جملہ کسی وقت یا قبیلے تک محدود نہیں بلکہ ایک آفاقی اصول ہے۔ جب تک دنیا میں ظلم باقی ہے، حسینؑ کا پیغام زندہ ہے۔ اور جب تک مسلمان اس پیغام پر عمل پیرا نہیں ہوتے، وہ نہ دنیا میں عزت پا سکتے ہیں، نہ آخرت میں فلاح۔
دعا ہے کہ ہم سب کو امام حسینؑ کی قربانی کا صحیح شعور حاصل ہو، اور ہم ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والے، اور عدل و صداقت کے علَم بردار بنیں۔ آمین۔
لٹے ہوئے قافلوں کے امیر ہیں حسینؑ
منزل آزمائش کے ضمیر ہیں حسینؑ
طلوع آفتاب کی سرخی بتاتی ہے
جاں نثاران اسلام کے نظیر ہیں حسینؑ
بہتے ہوئے فرات کی پیاس کہتی ہے
فاطمہ زاہرا کے جگر گیر ہیں حسینؑ
ایسی مثال دنیا میں تھی نہ ہو سکی
روز حشر تلک اسلام کی تعمیر ہیں حسینؑ
بس حق ادا کردیا حق کے واسطے
صداقت کی ایسی زندہ تفسیر ہیں حسینؑ
مندرجہ بالا نظم میرے دلی جذبات کی ترجمان ہے۔ اس میں امام حسینؑ کی لازوال قربانی اور ان کی صداقت، وفا، اور اسلامی اصولوں کی حفاظت کے عزم کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ شاعرہ نے حسینؑ کو لٹے ہوئے قافلوں کا امیر، آزمائش کی منزل کا ضمیر، اور حق کی تفسیر قرار دے کر اُن کے مقام و مرتبے کو اجاگر کیا ہے۔ فرات کی پیاس اور آفتاب کی سرخی جیسے علامتی مناظر کے ذریعے امام حسینؑ کی شہادت کے اثرات اور جذباتی پہلو کو مؤثر انداز میں بیان کیا ہے۔ یہ نظم نہ صرف ایک عقیدت بھرا کلام ہے بلکہ ایک فکری پیغام بھی ہے کہ حق کے لیے قربانی حسینؑ کی سنت ہے، جو قیامت تک رہنمائی کرتی رہے گی۔