۔ ۸۶ سالہ جوان کے ہاتھوں میں لہو کی تلوار۔ تحریر: عارف بلتستانی
خونِ شہیدوں سے سُرخ ہونے والی اس تلوار کی دھار پر صیہونیت کی شکست کندہ ہے۔ یہ تلوار ایک ایسے “۸۶ سالہ جوان” کے ہاتھوں میں ہے جس کا جسم بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑا ہے، لیکن روح آج بھی اُس جوان مجاہد کی مانند ہے جو عرصۂ شش درہ سے صیہونی طاقتوں کے خلاف جنگِ حق کی ڈائریکٹ لی کمانڈ کر رہے ہیں۔ یہ شخصیت *رہبرِ معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی* ہیں۔ وہ رہنما جس کے ہاتھ میں “لہو کی تلوار” محض علامت نہیں، بلکہ استقامت و حریت، عزمِ صمیم و یقین و محکم ، اور شہیدوں کے خون سے لکھی گئی فتح و نصرت کی داستان ہے۔
ان کی زندگی جہادِ باطنی و ظاہری کی عملی تفسیر ہے۔ ۱۹۳۹ء میں مشہد کے علمی گھرانے میں پیدا ہونے والے اس سیدِ حسینی نے چار سال کی عمر میں قرآن سے تعلیم کا آغاز کیا۔ سترہ سال کی عمر میں درجہ اجتہاد اور چوبیس سال کی عمر میں کامل مجتہد بن گئے۔ انقلابِ اسلامی کے صفِ اول کے رہنما، دفاعِ مقدس میں امام امت امام خمینی کا ترجمان، اور ملک کے مقبول ترین صدر رہنے کے بعد، آج ۸۶ برس کی عمر میں بھی ان کی روح کی جوانی کا راز *عزم کی تازگی* ہے۔ جوانی عمر سے نہیں، ارادے کی مضبوطی سے ہوتی ہے۔ ۱۹۸۱ء میں صہیونی ایجنٹ کے حملے میں ان کا جسم اپاہج ہوا، مگر ارادوں کی طاقت کم نہ ہوئی۔
زمانہ انہیں بڑھاپے کا قیدی سمجھے، لیکن یہ شخصیت شہیدوں کے خون سے سینچے گئے انقلابِ اسلامی کا محافظ اور اسلام کے جغرافیے کا نگہبان ہے۔ آپ کا مطالعہ اس قدر وسیع ہے کہ تیزخوانی میں عالمی سطح پر صف اول میں شمار ہوتے ہیں۔ کتابخوانی آپ کی زندگی کا اہم ترین مشغلوں میں سے ایک ہیں۔ جوانوں میں یہ جوش دیکھنے کو ملتا ہے کہ رہبرِ انقلاب کس نئی کتاب کی سفارش کرتے ہیں۔ آپ نہ صرف ایرانی مصنفین بلکہ بین الاقوامی ادیبوں کی تخلیقات کا بھی گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں۔ شہداء کی یادداشتیں آپ کے نزدیک خاص اہمیت رکھتی ہیں، کیونکہ شہیدوں کا خون انسان کے عزم کو پختہ کرتا ہے۔ لہو تلوار سے زیادہ موثر ہے۔
“لہو کی تلوار” فولاد کی نہیں، بلکہ تربیت اور توکل کی تلوار ہے۔ اس میں عزمِ حقیقی، ایمانِ کامل، اور رضائے الٰہی کا امتزاج ہے۔ روح اللہ خمینی اور رہبرِ معظم نے قوم کو اس طرح تربیت دی کہ ان کی نسل نے تمناوں کو شہادت پر قربان کرنا سیکھ لیا۔ یہ تلوار شہیدوں کے خون، پختہ ارادوں، اور اسلامی بیداری کی علامت ہے۔
سن ۲۰۲۵ء میں جب صیہونی ریاست نے ایران پر حملہ کیا، تو شہیدوں کے ورثاء نے جہادِ علمی میں ایسی کامیابیاں حاصل کیں کہ ایرانی میزائلوں نے تل ابیب کے مراکز کو خاک میں ملا دیا۔ آئرن ڈوم کے پرخچے اڑ گئے۔ نتن یاہو اپنی کابینہ میں بے بسی کا شکار رہا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے براہِ راست مداخلت کی کوشش کی، مگر امریکی اڈے ایران کے نشانے پر آ گئے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اسے “عراق جنگ سے بھی بڑی غلطی” قرار دیا۔ رہبرِ انقلاب کے الفاظ تھے: *”صہیونی حکومت کی شکست اور امریکا کے منہ پر یہ طمانچہ، ایرانی قوم کے اتحاد کا معجزہ ہے۔”*
یہ تلوار فولاد کی نہیں، بلکہ شہیدوں کے لہو کی طاقت ہے۔ ایران-عراق جنگ سے لے کر آج تک، لاکھوں شہیدوں کا خون اس کی آبِ حیات ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای شہداء کی یاد کو زندہ رکھنے پر زور دیتے ہیں، کیونکہ شہیدوں کی زندگیاں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آپ مظلوموں کی حمایت کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں، خواہ وہ غزہ ہو، کشمیر ہو یا بحرین۔ رنگ و نسل کی تفریق کو رد کرتے ہوئے، آپ نے اہلِ سنت کے مقدسات کی توہین کو حرام قرار دے کر اسلامی وحدت کا عملی مظاہرہ کیا۔
اس بارہ روزہ جنگ میں فتح صرف ایران کی نہیں، بلکہ پوری دنیا کے مظلوموں کی مشترکہ کامیابی تھی۔ رہبرِ انقلاب کی اصطلاح “اسلامی بیداری” مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اثرات کے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ ایرانی قوم نے ثابت کیا کہ ایک ملت، ایک قم، وحدت و اتحاد اور “یکجہتی” دشمن کو شکست دے سکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے اس عصر کے چند چی گویرا کو جمع کریں تب بھی کہ سید علی خامنہ ای کا کردار ان سے کہیں بڑھ کر ہے۔ آپ کی فقیرانہ زندگی، تاریخی بصیرت (جیسا کہ آپ کی کتاب “قرآن میں اسلامی طرزِ تفکر کے بنیادی خدوخال” سے عیاں ہے)، اور دفاعی، جنگی، سیاسی حکمتِ عملی نے سپر پاور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
سید علی خامنہ ای کے ہاتھ میں یہ *”لہو کی تلوار”* درحقیقت مظلومیتِ عالم کا پرچم ہے، جو شہیدوں کے خون سے سجی ہے۔ ۸۶ سالہ جسم میں جوان روح آج بھی صیہونیت کے خلاف میدانِ جنگ میں کھڑی ہے۔ دشمن اور مغربی میڈیا جب اس گمان میں تھا کہ علی خامنہ ای ہمیشہ کےلئے چھپے رہیں گے وہ اب دوبارہ دکھائی نہیں دے گا۔ لیکن شب عاشور ٹھیک عین اسی وقت حیدر کرار ، غیر فرار کا بیٹا اپنے جد کی طرح میدان اتر کر وقت کے مرحب و عنتر کے غرور و گھمنڈ کو خاک میں ملا دیا۔ میدانی اور روانی دونوں میدا میں صیہونیت کو شکست دے سے دچار کیا۔ صیہونیت کی شکست محض ایک جنگ کا اختتام نہیں، بلکہ **حق کی آخری فتح** کا آغاز ہے