NH

سانحہ سوات,دینی تربیّت یا مادری تربیت ؟.| تحریر : نذر حافی

انسانوں کی تربیّت کے بغیر دین کا تصوّر ممکن نہیں۔ یہ ۱۸  جون ۲۰۲۴ کا واقعہ ہے۔  سیالکوٹ سے  ایک شخص سوات  آیا۔ وہاں مدین  کے ایک  ہوٹل میں  لوگوں نے اُس پر توہین قرآن کا الزام لگا کر اُسےزندہ جلا دیا، اُسے  بازار میں گھسیٹا ، اُس کی لاش کو لٹکایا اور اُسے ڈنڈوں و پتھروں سے مسلسل زد و کوب کیا۔ یہ ہماری تاریخ کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔  مثلاً  اس سے پہلے مشال خان کا قتل ہی سامنے رکھ لیجئے۔  اتنے لوگوں کا اکٹھے ہو کر  ایک آدمی کو بے دردی سے مار دینا ۔ یا باوردی اہلکاروں کا سانحہ ساہیوال میں اندوہناک  ظلم یا ذہنی معذور صلاح الدین پر بہیمانہ تشدد کر کے اُسے موت کے گھاٹ اتارنا۔۔۔

ایسے پُر تشدد سانحات کو دیکھ کر  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شعوری یا لاشعوری طور پر  آخر ہماری یہ تربیّت کس نے  اور کہاں کی ہے کہ  انسانوں پر تشدد کر کے ہمیں سکون ملتا ہے اور خوشی حاصل ہوتی ہے؟ اس سوال کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ   تربیّت صرف وہ نہیں ہوتی جو ہم کسی اکیڈمی، مدرسے یا ادارے سے حاصل کرتے ہیں بلکہ تربیّت وہ بھی ہے جو ماں کی آغوش میں ہوتی ہے۔

دینِ اسلام نے ماں کی آغوش کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اسلامی نکتہ نظر سے ماں کی آغوش ایک مکمل یونیورسٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ تاریخِ اسلام میں مثالی اور باکردار ماوں کا بہت بڑا حصّہ ہے۔ تصویر کا دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ  مسلمانوں کی تاریخ  پُر تشدد سانحات اور واقعات سے بھری پڑی ہے۔ حضرت حمزہ ؓ کا جگر چبانے ،  حضرت محمد ابن ابی بکر کو گدھے کی کھال میں بند کر کے جان سے مارنے ، حضرت حجر ابن عدی، حضرت میثم ابن تمّاراور حضرت مسلم بن عقیل نیز شہدائے کربلا  کی دلخراش شہادتوں اور لاشوں کی بے حُرمتی  کے واقعات سے لے کر آج تک  تشدّد کر کے مارنے اور مارنے کے بعد لاشوں کی بے حرمتی  کا ایک مسلسل سلسلہ ہے  کہ جو  دینی تربیّت کے بجائے  مادری   تربیّت کے غلبے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

بلا شبہ اسلام میں دینی تربیّت کا غلبہ ہونا چاہیے۔  مادری تربّیت بھی دینی تربیّت کے سائے میں ہونی چاہیے۔ تاہم بصد افسوس ایسا نظر نہیں آ رہا۔ اسلامی تربیّت میں دھوکہ دہی، ملاوٹ ، کرپشن، کسی کو تشدد کر کے مارنا، حبسِ بے جا میں رکھنا، کسی کو اغوا برائے تاوان کیلئے لاپتہ کرنا ، خود سے الزام لگانا اور خود ہی سزا دینا، انسانوں کو جلانا یا لاشوں کا مُسلہ کرنا ممنوع ہے۔  اسلام سے پہلے یہ سب ہوتا تھا، لیکن اسلام نے آکر از سرِ نو تربیتی معیارات مقرر کئے۔ ظاہر ہے کہ  کسی کی تربیت کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن اُس سے بھی زیادہ مشکل کام  کسی کی جو پہلے سے  تربیت ہو چکی ہو  اُسے فراموش کرانا   اور اس سے پیچھا چھڑانا ہے۔

سانحہ سوات یہ غمازی کر رہا ہے کہ ہم نے  اسلامی تربیّت  کے بجائے ظہورِ اسلام سے پہلے کی تربیّت کو اپنا رکھا ہے۔یہ دینی تربیّت پر مادری تربیّت کا غلبہ ہے۔بچے پر ماں کی تاثیر اتنی موثر ہے کہ بچےکے پسندیدہ و ناپسندیدہ ذائقوں کا تعیّن بھی ماں کا مزاج کرتا ہے۔ کھانے کے جو ذائقے ماں کو پسند ہوتے ہیں وہی بچے کو بھی بہاتے ہیں، حتی کہ کھانے میں بچہ  نمک کی مقدار بھی  اپنی  ماں کے ذوق کے مطابق رکھتا ہے۔  دوسری طرف اگرچہ دین بذاتِ خود  عینِ تربیّت ہے ۔دین کے فلسفہ وجودی کی دلیل انسانوں کی تربیّت کے سوا کچھ اور نہیں۔  اگر دین انسانوں کی تربیّت نہ کرے تو اُس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے آپ کو تربیّت کیلئے دین کے سُپرد  نہ  کرے تو برس ہا برس دین پڑھنے و پڑھانے کے باوجود اُس کا دین قبول کرنا اور نہ کرنا ایک جیسا  ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مساجد کی کثرت، مدارس کی تعداد، حفاظ کی بھرمار، احادیث کے  انبار اور نمازیوں  کا زیادہ ہونا۔۔۔ یہ سب  دینی تربیّت کا پیمانہ نہیں  ۔ دینی تربیّت کا پیمانہ تو ہمارا سماج ہے جس میں ہمارے  معاشرتی رویّے اور ہمارا  سماجی برتاو یہ معیّن کرتا ہے کہ  ہم دینی اعتبار سے کتنے تربیّت یافتہ ہیں۔

المیّہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں  دوسروں کی دینی تربیّت کرنے کے دعویدار  مولانا حضرات خود اپنی  مادری تربیّت کے سحر میں مبتلا ہیں۔ گزشتہ دنوں  ایک مولانا صاحب کا کلپ دیکھا۔  وہ فرما رہے تھے کہ رسول خدا ؐ نے غدیر کے میدان میں جومن کنت مولاہ فھذا علی مولا کہا اس میں مولا سے مراد دوست اور محبوب کے ہیں۔  گویا وہ اپنی مادری تربیّت کے تحت یہ فراموش کر چکے تھے کہ رسولِ خدا کی بعثت کا مقصد انسانوں کی تربیّت ہے۔ ۱۸ ذی الحجہ ۱۰ ھجری کو غدیر کے تپتے ہوئے صحرا میں جب حاجیوں نے سخت گرمی میں حج کی مناسبت سے اپنے سروں کو بھی منڈوا رکھا تھا، ایسے میں رسول اللہؐ نے دہکتے ہوئے اور شعلہ ور  سورج کے نیچے ، کاروان کو روکا،  اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنوایا ،  آگے نکل جانے والوں کو واپس پلٹایا اور پیچھے رہ جانے والوں کو دوڑ کر  غدیر خم کے مقام پر پہنچنے کا حکم  دیا، یہ سب صرف اور صرف اس لئے کیا  کہ  اس گرمی میں سب کو جمع کر کے یہ بتائیں کہ حضرت علیؑ میرے دوست ہیں۔مولا کے یہ معنی  تاریخ اور  دلیل و منطق کے اعتبار سے  تو مترود ہیں لیکن  یہی معانی جنہیں ماوں نے اپنی گھٹی میں پلا دئیے ہیں سو  وہ  ہزار دلائل کے باوجود اپنی  مادری رائے سے نہیں ہٹیں گے۔

بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں چاہے عام لوگ ہوں یا مولانا حضرات،  اُن کی اکثریت  اپنی مادری تعلیم کو دین، دلیل اور منطق پر فوقیّت دیتی ہے۔سو  اس معاشرے میں اللہ اکبر  اور لبیک یا رسول اللہؐ کے نعروں کے ساتھ بے گناہوں کی  لاشیں تو گریں گی، لاشوں کا مُسلہ بھی ہوگا اور لاشیں جلائی بھی جائیں گی۔۔۔ چونکہ ہماری مُلّا و غیر مُلّا  اکثریت کی تربیّت ، تاریخ، دلیل، اور منطق  سے عاری ہے  ۔  سانحہ سوات دینی تربیّت کا نتیجہ نہیں بلکہ مادری تربیّت کا  شاخسانہ ہے۔

نذر حافی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link