چین کا شنگھائی تعاون تنظیم کی ترقی میں نمایاں کردار۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

چین کے صدر شی جن پھنگ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہ اجلاس میں شرکت اور وسط ایشیائی ممالک قازقستان اور تاجکستان کے سرکاری دورے پر موجود ہیں۔قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ہونے والی سربراہی کانفرنس کے دوران شی جن پنگ شنگھائی تعاون تنظیم کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ترقیاتی خاکوں پر تبادلہ خیال کریں گے اور تعاون پر اتفاق رائے پیدا کریں گے، جس سے یوریشین براعظم اور اس سے آگے امن اور خوشحالی کو برقرار رکھنے کے لیے نئی تحریک پیدا ہوگی۔وسیع یوریشین براعظم کے ممالک تبادلوں کی ایک طویل تاریخ، ترقیاتی کاموں اور قریبی طور پر آپس میں جڑے  مستقبل کا اشتراک کرتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ صدر شی جن پھنگ کے دورے سے توقع ہے کہ متعلقہ ممالک کے ساتھ چین کے تعاون میں اضافہ ہوگا اور مشترکہ مستقبل کی حامل قریبی چین وسطی ایشیا برادری کی تعمیر میں مدد ملے گی۔

اس سے قبل جون کے اوائل میں ،صدر شی نے کرغیز  صدر جاپاروف اور ازبک صدر شوکت میرزییوئیف کے ساتھ ویڈیو لنک کے ذریعے چین ۔ کرغزستان ۔ ازبکستان ریلوے منصوبے پر بین الحکومتی معاہدے پر دستخط کی تعریف میں بھی شرکت کی تھی۔ریلوے چین اور وسطی ایشیا کے درمیان رابطے کا ایک اسٹریٹجک منصوبہ ہے جو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت تعاون کے ذریعے مشترکہ ترقی کے لئے متعلقہ ممالک کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔یہ منصوبہ “شنگھائی اسپرٹ” کی رہنمائی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے “خاندان کے تعاون” اور یکجہتی کی تازہ ترین مثال ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم  کا قیام 23 سال قبل عمل میں آیا تھا جس کی بنیاد “شنگھائی اسپرٹ” پر رکھی گئی تھی جو باہمی اعتماد، باہمی فائدے، مساوات، مشاورت، تہذیبی تنوع کے احترام اور مشترکہ ترقی پر مبنی ہے۔ آج ایس سی او ، نو رکن ممالک، تین مبصر ریاستوں اور 14 مکالمہ شراکت داروں کے ساتھ، جغرافیائی پیمانے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے.شی جن پھنگ نے 2013 کے بعد سے شنگھائی تعاون تنظیم  کے سربراہان مملکت کے ہر سربراہ اجلاس میں شرکت کی ہے، جس میں کووڈ کے دوران براہ راست ویڈیو کانفرنسز بھی شامل ہیں، اور ایس سی او کے مضبوط تعلقات کی تعمیر اور ترقی کو فروغ دینے کے بارے میں اپنے خیالات اور تجاویز کا تبادلہ کیا۔

علاقائی امن و سلامتی کو برقرار رکھنا شنگھائی تعاون تنظیم کے تعاون کی بنیاد ہے۔ حالیہ برسوں میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان نے دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کی “تین شیطانی قوتوں” کا مقابلہ کرنے، منشیات کی اسمگلنگ سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ سائبر اسپیس اور بیرونی خلا میں سلامتی کے تحفظ کے لئے تعاون کو مضبوط کیا ہے۔اسی طرح شنگھائی تعاون تنظیم کی ترقی کی ایک بڑی محرک قوت اقتصادی ترقی اور عملی تعاون کی طرف مائل ہونا ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم  کے ارکان کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبے میں تعاون میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور عالمی تجارت میں اس کا حصہ 2001 میں 5.4 فیصد سے بڑھ کر 2020 میں 17.5 فیصد ہو گیا ہے۔

افرادی تبادلے اور باہمی سیکھنے جیسے عوامل بھی گزشتہ برسوں کے دوران شنگھائی تعاون تنظیم کے تعاون کا ایک اور اہم جزو بن چکے ہیں۔تنظیم کے تحت تیزی سے باہمی منصوبوں کی تکمیل  اور سرگرمیاں دیکھنے میں آئی ہیں جن میں شنگھائی تعاون تنظیم ممالک کے طلباء کے لئے 2024 “چائنیز برج ” اسپرنگ کیمپ ، جو اپریل میں سنکیانگ میں کھولا گیا تھا ، اور ایس سی او زرعی یونیورسٹیوں کا اتحاد ، جو اب شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی 20 سے زیادہ یونیورسٹیوں کے مابین زرعی صلاحیتوں کے تبادلے کو فروغ دیتا ہے۔اسی طرح چین اور دیگر ممالک کے درمیان بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کے نتیجہ خیز ثمرات برآمد ہوئے ہیں جس سے علاقائی ممالک کی رابطوں اور سماجی و اقتصادی ترقی کو فروغ ملا ہے۔یہ ممالک کے درمیان مساوات اور باہمی فائدے پر مبنی تعاون کی علامت ہے اور “شنگھائی اسپرٹ” کا ایک اہم اظہار ہے۔

SAK

شاہد افراز خان کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link