سحر شعیل

امن کی ہر ہاتھ میں قندیل ہو۔ | تحریر : سحر شعیل

“امن”سہ حرفی یہ لفظ  یوں تو بہت مختصر معلوم ہوتا ہے مگر  اس کے معنی کی وسعت شاید کئی بحروں میں بھی نا سمٹی جا سکے۔ بظاہر عام سا لگنے والا یہ لفظ اپنے مفہوم کے اعتبار سے اتنا اہم ہے کہ معاشروں کی بقا کا دارومدار اسی ایک لفظ پر ہے۔امن صرف جنگ کے نہ ہونے یا ہتھیاروں کے خاموش ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں انسان انفرادی اور اجتماعی سطح پر سکون ، اطمینان اور ذہنی نشاط کا تجربہ کرتا ہے۔

امن کی مختلف صورتیں ہیں جیسے کہ

فرد واحد کی ذہنی حالت پرسکون ہو اور وہ کسی قسم کے انتشار کا شکار نہ ہو تو گویا وہ حالتِ امن میں ہے۔انفرادی امن ہی معاشرتی امن کا عکاس ہوتا ہے۔اسی طرح خاندان ہو یا برادری اس میں بھی رشتوں کا اپنی اپنی جگہ پر پر امن رہنا خوش گوار زندگی کی علامت ہے۔ان سے باہر نکلیں تو سیاسی طور پر بھی امن کا لفظ بہت اہمیت کا حامل ہے اور اسی کی بدولت قوم کی ترقی اور خوش حالی ممکن ہے۔سماجی یا معاشرتی امن بھی  قلبی سکون کے لئے ضروری ہے اور سب سے بڑھ کر امن کی وسیع ترین شکل عالمی امن  ہے جس کے بغیر شاید نوع بشر کی مجموعی بقا ناگزیر ہے۔گویا امن کی کوئی بھی صورت ہو اس کا ہونا ہی زندگی کی دلیل ہے اور اسی کی بدولت نا صرف انفرادی  بلکہ اجتماعی استحکام بھی ممکن  ہے۔امن کی سبھی صورتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔انفرادی اور خاندانی سطح پر امن نا ہو تو معاشرتی اور عالمی امن کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔

آج کے حالات پر نظر  ڈالیں تو  ان  سبھی صورتوں میں امن  نادر و نایاب دکھائی دیتا ہے ۔فردِ واحد کی زندگی بھی اس لفظ سے عاری معلوم ہوتی ہے۔انسان جذباتی طور پر بھی پُر امن نہیں رہا ۔جذباتی ہیجان اس  کی زندگی میں بے قراری اور بے چینی  برپا کیے ہوئے ہے۔آج کا انسان   اضطراب ، غصے اور منفی خیالات کا شکار ہے اس لئے ذہنی دباؤ اور ڈیپریشن جیسی بیماریوں میں مبتلا ہے۔اسی بے امنی کے باعث گھریلو ناچاکیاں بڑھ رہی ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ ذہنی امن کے نا ہونے کی وجہ سے معاشرے میں قتل و غارت اور خود کشیوں کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے تو یہ غلط نا ہو گا۔ انفرادی امن قائم ہو گا تو خاندان اور پھر معاشرہ دونوں امن کا گہوارہ بنیں گے۔افراد کے امن کی وجہ سے لوگوں میں تحمل، برداشت ،ایثار اور قربانی جیسی صفات پیدا ہوں گی۔ایک پرامن خاندان ہی وہ مضبوط اکائی ہے جس سے ایک مہذب، بااخلاق اور ترقی یافتہ قوم وجود میں آتی ہے۔آج کے تیز رفتار، مادہ پرست اور خود غرض معاشرے میں خاندانی  امن کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ والدین کے درمیان اختلافات، وقت کی کمی، تربیت میں لاپرواہی، موبائل فون اور سوشل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال اور بزرگوں کی نظراندازی جیسے مسائل خاندانی امن کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ان سب مسائل کا حل صرف اس ایک  لفظ امن میں مضمر ہے۔امن ایک ایسا قیمتی جوہر ہے جو کسی بھی معاشرے کی بنیاد کو مضبوط بناتا ہے۔ ایک پرامن معاشرہ ہی ترقی، خوشحالی اور انصاف کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ جب افراد کے درمیان رواداری، برداشت اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام ہوتا ہے تو معاشرتی تعلقات میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ امن کے بغیر معاشرہ بدامنی، خوف، اور انتشار کا شکار ہو جاتا ہے، جس سے نہ صرف افراد کی زندگی متاثر ہوتی ہے بلکہ قومی ترقی بھی رک جاتی ہے۔

عالمی امن ایک ایسا خواب ہے جسے انسانیت حقیقت کا روپ دینا چاہتی ہے۔فردِ واحد کی ذہنی بے چینی اور فکری اضطراب جب  خاندانی اور معاشرتی حدوں سے باہر نکلتا ہے تو عالمی سطح پر بے سکونی پھیلاتا ہے۔آج دنیا سائنسی ترقی کے آسمانوں کو چھو رہی ہے مگر انسان کے ذہنی انتشار نے آج دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔جنگ، نفرت، انتہا پسندی، تعصب اور دہشت گردی جیسے عناصر انسانیت کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ ہر ملک اپنے مفادات کے لیے طاقت کا استعمال کرتا ہے، جس سے عالمی توازن بگڑتا جا رہا ہے۔ ایسے ماحول میں عالمی امن کی ضرورت اور اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہونے لگی ہے۔اقوامِ عالم کا فرض ہے کہ وہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر انسانیت کی فلاح کے لئے عالمی امن کی کوشش کریں۔امن کی عدم موجودگی  صرف جانوں کے ضیاع کا سبب نہیں بنتی بلکہ اس سے  نفرت ، شدت پسندی ، دہشت گردی  ، اخلاقی پستی  اور استحصال جیسی برائیاں پروان چڑھتی ہیں ۔آج عالمی سطح پر   فلسطین میں  حالیہ غیر انسانی سلوک اس بات کا ثبوت ہے کہ امن قائم  ہونے میں ہی نسلوں کی بقا ہے۔اسرائیلی جارحیت دراصل انفرادی اور پھر اجتماعی  ذہنی بد امنی کی مثال ہے۔جس طرح ایک فرد کا فکری انتشار اجتماعی بگاڑ  تک جاتا ہے اسی طرح ایک فرد کا سدھار  بھی اجتماعی درستی کا پیش خیمہ بنتا ہے۔اس وقت  دنیا کو جس امن کی اشد ضرورت ہے اس کے لئے ہر ایک فرد کو کوشاں رہنا ہو گا تو ہی قطرہ قطرہ مل کر دریا بنے گا اور کائنات ارضی کا ہر گوشہ امن سے بھر جائے گا۔

جہاں تک اردو شاعر ی کا تعلق ہے تو امن ،اطمینانِ قلب،تسلی،سکون،آسودگی،ہم آہنگی اور  سلامتی  یہ سب الفاظ اردو شاعری کا خاصہ رہے ہیں۔ اردوشعرا نے امن کو ایک روشنی ، ایک امید اور ایک عالمگیر جذبے سے عبارت کیا ہے۔

جگر مراد آبادی پیغامِ امن کو کچھ یوں بیان کرتے ہی کہ

کیا تعجب کہ مری روح رواں تک پہنچے

پہلے کوئی مرے نغموں کی زباں تک پہنچے

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

آئیے امن کی شمع جلاتے ہیں جس پر نفرتوں کے پتنگے لپک کر آئیں اور امن و آشتی کی حرارت سے جل جائیں اور دم توڑ دیں۔

جنگ و جدل کی فصیلیں جتنی مرضی اونچی کھڑی کر لی جائیں ، محبت اور امن کی چوٹ سے ان میں دراڑ آ ہی جاتی ہے۔

اللہ رب العزت کی بنائی ہوئی اس حسین کائنات کا حسن امن قائم رہنے سے ہی برقرار رہ سکتا ہے اور اس کے ہر کسی کی انفرادی کاوش بھی قابلِ قدر ہے۔

میرے یہ الفاظ میرے حصے کی کوشش ہیں ۔آئیے آپ بھی اپنا حصہ ڈالیے۔

 

سحر شعیل کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link