چی گویرا دُور است۔|| تحریر: سید محبوب احمد چشتی


اشرافیہ پرمہربانی شہرقائد کی عوام پربجلی کے بلوں ،مہنگائی کے ذریعے معاشی دہشت گردی کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کو حکومت کہاجاتا ہے سینئر صحافی صدر کراچی یونین آف جرنلٹس فہیم صدیقی نے اپنے وی لاگ میں اس بات کا تذکرہ کیا جس کے مطابق اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستانی اشرافیہ کو 17ارب ڈالرز کی مختلف مراعات ملتی ہیں یعنی  ڈالر 300کا ہو تو 21سو ارب روپے بنتے ہیں( الامان الاحفیظ ) ان سب کے باوجود وی آئی پیز کی مفت وی آئی پی سہولیات ان سب کا خمیازہ عوام اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر ادا کررہی ہے۔

شاید اسی دن کے لیے ایک انقلابی چی گویرانے کہا تھا نظام کے خلاف آواز اٹھانے سے نظام کو کوئی فرق نہیں پڑتا یقین مانو سرکش حکمران کسی چیز سے اتنا نہیں ڈرتے جس قدر وہ قوم کی بیداری سے ڈرتے ہیں جس طرح سے پاکستانی سیاست کی چالبازیاں جاری  ہیں تو دوسری جانب یہ بھی یقین ہوتا جارہا ہے کہ احتجاجی مظاہروں سے شہر کراچی کے مستقل رہنے والوں کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا خلوص نیت کے فقدان اور مفاداتی طرزفکر نے شہرقائد کی سیاست کو خودغرض بنادیا ہے قیادت کے اصل فقدان نے بے یقینی کی صورتحال پیدا کردی ہے۔

شہرقائدکو سوائے تختہ مشق بنانے اور نااہلی پر مشتمل تجربات مسلسل نے جتنا نقصان  پہونچایا اسکا اندازہ اس بات سے لگا جاسکتا ہے کہ کراچی بڑے میگا روجیکٹس ،صحت کی بنیادی سہولیات سمیت بلدیاتی مسائل حل نہیں ہوسکے  ہیں مظاہروں اور بیان بازیوں سے سب سے بڑے فائدے ان سب نے اٹھائے ہیں جو یہ سب مظاہرے واحتجاج کرتے ہیں لیکن میں نہ مانوں کی طرزفکر ان سب کی روایت بن گئی ہے مہنگائی پر مظاہرہ مہنگائی بڑھ جاتی ہے بجلی کے خلاف مظاہر ہ اسکے ریٹ میں اضافہ ، اسڑیٹ کرائم میں اضافہ کے خلاف تشویش کی سیاسی جماعتوں کو ہوتی ہے اسکے بعد اسڑیٹ کرائم میں اضافہ ہوجاتاہے آئی ایم ایف کے غلام بنانے والے یہ ارباب اختیار اس سوئی ہوئی قوم کے سامنے بھاشن بازیوں کے ذریعے سب کچھ لوٹ کرچلے جاتے ہیں لیکن مجال ہے جو اس قوم کو ذرابھر احساس ہوکہ حق اور بھیک میں کیا فرق ہوتا ہے سیاسی جماعتوں کا بہترین مشغلہ بھاشن بازی کے سواکچھ نہیں ہے کیوں کہ بھاشن بازی بھرپور منافقت سےہی انکے گھر چلتے ہیں نوکری تو کرنہیں سکتے لیکن بھاشن بازی سے مال پانی مل رہاہے تو کون احساس کرےگاعوام کا درد ان کے منہ سے الفاظوں کی صورت میں جونکلتا ہے وہ صرف پیٹ بھرے کی مستی ہوتی ہے ۔

ستر (70) سال سے زائد گذر نے کے بعد بھی تمام سیاسی جماعتوں کے پاس اس ملک کے لیئے ترقی کا ویژن نہیں ہے ایک دوسرے کے خلاف نظرآنے والی یہ سیاسی جماعتیں واشرافیہ اندرون خانہ ایک دوسرے کے مفاداتی پارٹنر ہوتے ہیں اسی وجہ سے ہمارا پیارا وطن آئی ایم ایف کے چنگل سے آج تک آزاد نہیں ہوسکا اور آئی ایم ایف کی عیارانہ پالیسی یہی ہے کہ اس ملک کی ہوس ذدہ ارباب کو اسکی قوم کے نام خوب قرضہ دو کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس ملک کے یہ ارباب اختیار اپنے وطن سے مخلص نہیں ہیں قوم کی فلاح وبہود اور ترقی کے نام پر یہ قرضہ لینے والے ارباب اختیارپہلے اپنے اثاثے بناتے ہیں پھر بھیک میں اس قوم کو مہنگائی ،لوڈشیڈنگ ،بے پناہ مسائل دیکر اگلی حکومت کا انتظار کرتے ہیں ترقی دینے کے نام پر یہ ارباب اختیار اس ملک کو ترقی دور کی بات ہے قوم کے منہ کا نوالہ بھی چھین لیتے ہیں اس ملک کو کسی ایسے کردار کی ضرورت ہے جو لفظ قربانی کو سمجھتا ہو ا قوم کی قربانیوں کو سمجھ سکے کہ کس طرح پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنی سفید پوشی کو کس کس کفن میں لپیٹ کر قبروں میں سورہی ہے لیکن کچھ زندہ لاشیں ایسی بھی ہیں جو روزصج اس امید پر گھر سے نکلتی ہیں کہ شام تک وہ  چندٹکروں کا انتظام کرکے اپنے زندہ ہونے کا یقین خود کو دلاسکیں کیونکہ انکو ایک صدا صرف سنائی دیتی ہے ہے کہ چی گویرادور است اس صورتحال میں کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے عوامی مسائل کو حل کرنے کی بات ،مہنگائی پرتشویش کا اظہار ایک مکمل ڈرامہ محسوس ہوتا ہے کیونکہ حکومتوں میں رہتے ہوئے اس قسم کی ڈرامہ بازی سے ذہنی اذیت اور غم وغصے کرنے کے علاوہ  اورکچھ دل نہیں چاہتا ہے کیونکہ انقلابی طرز فکر اور کراچی ایک دوسرے کی متضاد ہیں 

SMAC
سید محبوب احمد چشتی

سید محبوب احمد چشتی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link