ڈاکٹر وزیر آغا , بےمثل نقاد ، ادیب ، انشائیہ نگار ، قادرالکلام شاعر اور مدیر اوراق۔ || تحریر:ظفر معین بلے جعفری
ڈاکٹر وزیر آغا پیدائش 18مئی 1922ء ۔۔ انتقال 7 ستمبر2010 ۔ڈاکٹر وزیر آغا اردو ادب بالخصوص تنقید ، انشائیہ اور شاعری کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا عمر میں والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے سے تقریبا آٹھ برس بڑے تھے لیکن ہم نے ہمیشہ انہیں والد گرامی کا حد درجہ احترام کرتے دیکھا۔ ڈاکٹر وزیر آغا اور سید فخرالدین بلے کی داستان رفاقت کا آغاز کب اور کیسے ہوا ، اس حوالے سے کوئی حتمی بات کہنا ہمارے لیے دشوار ہے البتہ ہم نے اپنے ہوش سنبھالنے سے ہی مدیر اوراق ڈاکٹر وزیر آغا ، مدیر فنون احمد ندیم قاسمی ، پروفیسر غلام جیلانی اصغر ، پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی ، ڈاکٹر سید عبداللہ ، ڈاکٹر سلیم اختر ، پروفیسر ڈاکٹر آغا سہیل ، مدیر انشاء جون ایلیاء ، مدیر نقوش محمد طفیل ، مدیر معاصر عطاءالحق قاسمی ، مدیر محفل طفیل ہوشیارپوری ، مدیر اقدار شبنم رومانی ، مدیر افکار صہبا لکھنوی ، مدیر بیاض خالد احمد ، مدیر سیپ نسیم درانی ، مدیران ادب لطیف فیض احمد فیض ، انتظار حسین ، مسعود اشعر ، ناصر زیدی ، ذکاء الرحمن ، کشور ناہید ، مدیراعلی ادب لطیف صدیقہ بیگم ، محترمہ ادا جعفری ، محترمہ بانو قدسیہ ، اشفاق احمد خاں ، ، کلیم عثمانی ، پرتو روہیلہ ، ڈاکٹر وحید قریشی ، عطاء شاد ، مدیراعلی ادبیات مرتضی برلاس ، مدیر اعلی مشرق ضیاء الاسلام انصاری ، وقار انبالوی ، بشری رحمن ، ڈاکٹر اجمل نیازی ، امجد اسلام امجد ، شہزاد احمد ، ڈاکٹر اسلم انصاری ، مدیر انشعاب جاوید اختر بھٹی ، مدیراعلی آفتاب ممتاز طاہر ، مدیر اعلی نوائے وقت مجید نظامی ، مدیراعلی کارواں سید آل احمد ، مدیر اعلی جنگ میر خلیل الرحمن ، مدیر اعلی انکشاف بیدار سرمدی ، مدیراعلی دستگیر سلطان ارشد القادری ، مدیر اعلی گہراب جعفر شیرازی اور دیگر نامور علمی و ادبی شخصیات کو والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے حلقۂ احباب میں نمایاں حیثیت میں دیکھا اور جانا ہے۔
سرگودھا میں قیام کے دوران کہ جب سید فخرالدین بلے محکمۂ اطلاعات و نشریات کے ڈویژنل سربراہ تھے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کی پوسٹنگ بھی سرگودھا ہی میں تھی اور ڈاکٹر انور سدید کی بھی۔ اور ہاں مرتضی برلاس بھی بحثیت ریونیو کمشنر سرگودھا ہی میں تعینات تھے۔ دیگر احباب جن کا بلے ہاؤس اکثر آنا جانا لگا رہتا تھا اور گھر میں منعقد ہونے والی ادبی محافل میں تو یقینی طور پر شریک ہوا کرتے تھے ان میں پروفیسر غلام جیلانی اصغر ، پرویز بزمی ، انجم نیازی ، عبدالقدیر اشک کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ سرگودھا سے رخصت ہونے کا وقت آیا تو سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے اعزاز میں متعدد تقاریب کا اہتمام کیا گیا۔ انجم نیازی کی اقامت گاہ پر بھی ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں ڈاکٹر وزیر آغا ، ڈاکٹر خورشید رضوی ، عبدالقدیر اشک ، ڈاکٹر انور سدید ، مرتضی برلاس ، شہزاد احمد اور انجم نیازی نے سید فخرالدین بلے کی شخصیت اور فن کے حوالے سے شاندار مضامین پڑھے جبکہ پرویز بزمی نے منظوم خراج پیش کیا۔ بلا شبہ ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے مضمون میں سید فخرالدین بلے کی تخلیقی صلاحیتوں کا انتہائی بھر پور انداز میں اعتراف فرماتے ہوئے انہیں تصوف پر ایک اہم اتھارٹی قرار دیا۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے سید فخرالدین بلے کی نظم اور نثر انتہائی پختہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی نظم ہو یا یا نثر وہ نین نقش کی اتنی پختہ ہے کہ اس میں عیب نکالنا محال ہے۔ انہوں نے بلے صاحب کی ادبی اور ثقافتی خدمات کا بھی جائزہ لیا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب نے سید فخرالدین بلے کے فنی کمالات اور شاعری کا انتہائی گہرائی سے ناقدانہ تجزیہ فرماتے ہوئے انہیں ایک باکمال شاعر قرار دیا۔ تقریب کے اختتام پر سید فخرالدین بلے کا کلام ساز و آواز کے ساتھ پیش کیا گیا۔ تمام تو نہیں البتہ سید فخرالدین بلے کی بس ایک ہی غزل یاد آرہی ہے۔ غزل کا مطلع پیش خدمت ہے۔خوبصورت آواز ، خوبصورت موسیقی اور شاہکار غزل
کھل کے گل بن گئی کلی چپ چاپ
اک قیامت گزر گئی ، چپ چاپ
ڈاکٹر وزیر آغا اردو ادب بالخصوص تنقید ، انشائیہ اور شاعری کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی تصانیف کی فہرست طویل ہے جن میں
مجید امجد کی داستان محبت ،
تنقید اور احتساب ،
تنقید اور جدید اردو تنقید ،
دوسرا کنارا ،
اک کتھا انوکھی ،
غالب کا ذوق تماشہ ،
مسرت کی تلاش ،
نظم جدید کی کروٹیں
شام اور سائے ،
دن کا زرد پہاڑ ،
اردو شاعری کا مزاج ،
عبدالرحمن چغتائی کی شخصیت اور فن ،
چمک اٹھی لفظوں کی چھاگل
جیسی شاندار تصانیف قابل ذکر ہیں۔ بےشک یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مجید امجد کی داستان محبت کو سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے اپنے قائم کردہ پبلشنگ ہاؤس معین اکادمی سے بہت اہتمام اور انتہائی شاندار انداز میں شائع کیا تھا۔
ڈاکٹر انور سدید نے اپنے متعدد مضامین میں اپنے اور ڈاکٹر وزیر آغا کے سید فخرالدین بلے ، سید انجم معین بلے ، سید عارف معین بلے ، آنس معین اور ظفر معین بلے کے ساتھ دیرینہ مراسم اور تعلقات کا ذکر فرمایا ہے۔ آنس معین کی وفات جدید غزل کی موت ہے کے عنوان کے تحت ایک مضمون میں ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں کہ
حیرت سےجویوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نےسمندر نہیں دیکھا ۔۔۔۔؟
(آنس معین)
“۔ آنِس معین غزل کا بلند قامت اور توانا شاعر ۔ آنس معین نے اٹھاون سول لائنز کی شام دوستاں آباد میں اپنی پہلی غزل سنائی تو فخرالدین بلے بلطائفِ حیل اٹھ کر ڈارائنگ روم سے باہر چلے گئے اور جب تک آنس غزل سناتا رہا وہ کمرے میں واپس نہیں آئے اور واپس آئے تو یہ نہیں پوچھا کہ آنس کی غزل کیسی تھی اور کیا اس میں شاعری کے امکانات بھی ہیں یا نہیں ؟ ان دنوں آنس شاید ایف اے کا طالب علم تھا اور غزلوں کو پھول کی پتیوں کی طرح نصاب کی کتابوں میں چھپا کر رکھتا تھا ۔خورشید رضوی کی غزل پر آنس نے بے شاختہ انداز میں داد دی تو سجاد نقوی نے یونہی پوچھ لیا۔
”آنس میاں ۔کچھ تم بھی کہتے ہو؟“ اور آنس معین جھوٹ نہیں بول سکاتھا۔شاید بلے پر بھی اسئ روز کھلا تھا کہ صاحبزادے نے من میں جوالا سلگا رکھی ہے اور وہ شاعر بن گیا ہے۔آنس نے غزل سنائی تو ہم سب کو چپ لگ گئی ۔غزل یوں تھی
وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرایا بھی
عجیب شخص ہے اپنا بھی ہے پرایا بھی
یہ انتظار سحر کا تھا یا تمہارا تھا
دیا جلایا بھی میںنے دیا بجھایا بھی
میں چاہتا ہوں ٹھہر جائے چشمِ دریا میں
لرزتا عکس تمہارا بھی میرا سایہ بھی
بہت مہین تھا پردہ لرزتی پلکوں کا
مجھے چھپایا بھی تونے مجھے دکھایا بھی
اور ہمیں چپ اس لیے لگ گئی کہ آنس کی غزل اس کی عمر کے تجربے سے بہت آگے تھی کچھ دیر بعد جب مہر سکوت ٹوٹی تو وزیر آغا صاحب نے کہا ؛”آنس یہ غزل کاغذ پر لکھ دو۔“آنس یہ سن کر گھبرا سا گیا اور بولا؛”کیوں انکل،کیا وزن میں گڑ بڑ ہو گئی ہے یا کوئی مضمون ٹھیک ادا نہیں ہوا ؟“ وزیر آغا صاحب بولے ؛”یہ غزل اوراق میں چھپے گی ۔“ یہ سنتے ہی جیسے آنس کا سارا خون سمٹ کر اس کے رخساروں میں آگیا اور وہ خوشی سے گلنار ہو گیا۔ آنس معین کی متذکرہ بالا غزل اوراق میں شائع ہوئی تو بہت پسند کی گئی لیکن ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کو اور مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ لمحے کو منجمند کرنے کی طرف جو اشارہ تھا یہ کسی کی گرفت میں نہیں ایا تھا اور آنس کو سب سے زیادہ داد اس شعر پر ملی تھی
بیاض بھر بھی گئی اور پھر بھی سادہ ہے
تمہارے نام کو لکھا بھی اور مٹایا بھی
پھر سید فخرالدین بلے صاحب ملتان چلے گئے اور آنس سے ملاقات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ مجھے فرائضِ منصبی کے سلسلے میں کوٹ ادّو جانے کا اتفاق ہوا تو بلے صاحب کے ساتھ آنس کی غزل سے بھی کبھی کبھار ملاقاتیں ہونے لگیں۔”
سن 1979 میں سرگودھا سے سید فخرالدین بلے کے تبادلے کے موقع پر ان کے ساتھ ایک شام منائی گئی اور اسی شام میں ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنا یہ مضمون پڑھ کر سنایا آپ بھی اس مضمون کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سید فخر الدین بَلّے …. تصوف پرایک اہم اتھارٹی ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر وزیر آغا . سیّد فخرالدین بَلّے دبستانِ اردو کے روح و رواں ہیں۔ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو رہے ہیں۔ مگر آپ یقین فرمائیں کہ ان کے دل کو اندر سے کوئی عارضہ نہیں ہے۔ البتہ عارضہ بصورت بَلّے صاحب اسے باہر سے ضرور لگا ہے۔ اگر آپ کسی ذی روح پر غلیظ دھوئیں کے دود کش مستقل طور پر کھول دیں تو کیا اس کا دم نہیں گھٹنے لگے گا۔ پچھلے تیس برسوں میں بَلّے صاحب نے کل سات لاکھ چھیاسٹھ ہزار پانچ سو گیارہ سگریٹ بحساب ستر سگریٹ یومیہ پئے ہیں اور ان سے نکلنے والی پونے چارمن نکوٹین دلِ نامراد کی نذر کی ہے۔ اب وہ بے چارہ مروت کا مارا احتجاج بزبان پنجابی کرنے سے تو رہا۔ اس نے بس یہ کیا کہ عدم تعاون، بائیکاٹ اور مکمل ہڑتال کی دھمکی دے دی۔ اس پر بَلّے صاحب نے مجبوراً زندگی میں پہلی بار بستر کو کچھ وقت دیا اور اب دل ان کا راضی ہے مگر یہ خود راضی نہیں۔ انہیں شک ہے کہ شاید ان کے دل نے اہلِ سرگودھا سے ساز باز کر کے ان سے غداری کی ہے۔ لہٰذا وہ اس دیار نا ہنجار ہی کو خیر باد کہنے پر اتر آئے ہیں۔
بہر حال حقیقت یہ ہے کہ بَلّے صاحب کے چلے جانے کے بعد دبستان سرگودھا کی کمر ہی ٹوٹ گئی ہے۔ میں اور جیلانی صاحب تو پہلے ہی کمر شکستہ ہیں۔ ہم کیسے اس کی مدد کر سکتے ہیں۔ البتہ ابھی سرگودھا میں کئی دانشور ایسے ضرور ہیں۔ جن سے دبستانِ سرگودھا کو آئندہ بھی تازہ لہو ملنے کا امکان ہے۔ میرے لئے بَلّے صاحب کی ذات اور شخصیت کے دریا کو کوزے میں بند کرنا بہت مشکل ہے۔ وہ اتنے اچھے ہیں اتنے اچھے ہیں کہ بہت ہی اچھے ہیں اور یہی شاید ان کا قصور بھی ہے۔ جب مہاتما گاندھی کو گاڈسے نے گولی کا نشانہ بنایا تو جارج برنارڈ شا نے برملا کہا تھا ۔دیکھا !اس دنیا میں اچھا ہونا کتنا خطرناک ہے۔ کچھ یہی بَلّے صاحب کا حال ہے۔ انہوں نے زمانے سے جو زخم کھائے ہیں۔ اس کی داستان طویل تو ہے لیکن لذیذ ہرگز نہیں۔ البتہ اس میں قطٰاً کوئی کمال نہیں ہے کہ ان چرکوں نے وہی کام کیا ہے، جو گاڈسے کی گولی نے کیا تھا۔ اب غلام جیلانی اصغر چاہیں تو برملا کہہ سکتے ہیں کہ ” بَلّے صاحب‘ میں نہ کہتا تھا کہ اتنا اچھا ہونا اچھا نہیں”۔
ادب کے لئے بَلّے صاحب کی لگن اور لگاﺅ مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ قدرت نے انہیں اعلیٰ ذوقِ نظر ہی عطا نہیں کیا۔ دل کی بات کو لفظوں میں ڈھالنے کا گُر بھی سکھایا ہے۔ ان کی نثر اتنی پختہ ‘ نین نقش کی اتنی صحیح اور لفظوں کے انتخاب کے معاملے میں اس قدر سخت مزاج ہے کہ کسی فقرے پر تو کجا ان کے استعمال کردہ لفظ پر بھی انگلی رکھنا بہت مشکل ہے۔ اس پر مستزاد ان کا وسیع مطالعہ ہے۔ انہوں نے کتابوں کو خود پر لادا نہیں بلکہ انہیں ہضم کیا ہے اور پھر ان کے مطالبہ کو اپنی سوچ سے ہم آہنگ کر کے بڑے خوبصورت انداز میں لفظوں کے حوالے کر دیا ہے۔ تصوف کے موضوع پر ان کی نظر اتنی گہری ہے کہ آپ بلا تکلف انہیں اس سلسلے میں ایک اہم اتھارٹی قرار دے سکتے ہیں۔ بَلّے صاحب شاعر بھی بہت اچھے ہیں۔ شاعری کے بھی ان کے ہاں دونوں رنگ ملتے ہیں۔ کلاسیکی بھی اور جدید بھی۔ پچھلے دنوں مجھے ان کی بیاض دیکھنے کا اتفاق ہوا تو میں ان کے رنگ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ لیکن میں چونکہ جدیدیت کاوالا و شیدا ہوں۔ اس لئے میں ان کی جدید رنگ کی غزلوں پر سر دُھنتا رہا۔ ابھی تک میں ان کی غزلوں کے سحر سے باہر نہیں آ سکا۔ میں نے ان سے درخواست کی ہے کہ وہ جی کڑا کرکے اس رنگ میں مزید غزلیں کہہ ڈالیں۔ امید ہے کہ وہ میری اس فرمائش کو پورا کریں گے۔ ایک بار جب غلام جیلانی اصغر صاحب کا سرگودھا سے تبادلہ ہوا تو میں نے یہی مصرعہ پڑھا تھا کہ بہ سلامت روی و باز آئی مگر اُ س وقت باز آئی سے میری مراد تھی کہ باز آجائیں۔ اب اگر بَلّے صاحب کے معاملے میں بھی احباب اس مفہوم کو قبول کرنے پربضد ہوں تو میں کہوں گا ۔ قبلہ سگریٹ پینے سے باز آ جاﺅ۔
سرگودھا سے ملتان منتقلی کے بعد بھی ڈاکٹر وزیر آغا اور دیگر احباب سے مسلسل رابطہ قائم رہا۔ ڈاکٹر انور سدید تو کوٹ ادو میں پوسٹنگ ہونے کے باعث اکثر و بیشتر ہی سید فخرالدین بلے سے ملنے آ جایا کرتے تھے۔ بسا اوقات تو ہر مہینے بھی لیکن ڈاکٹر وزیر آغا بمشکل چار پانچ مرتبہ ہی ملنے کے لیے بنفس نفیس تشریف لائے ہوں گے۔ ان چھ والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب ، سید انجم معین بلے صاحب ، سید عارف معین بلے صاحب ، آنس معین صاحب سے ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کی فون پر اکثر گفتگو ہوا کرتی تھی۔ البتہ خط و کتابت صرف والد گرامی سید فخرالدین بلے اور برادر محترم آنس معین سے ہوا کرتی تھی۔ سید فخرالدین بلے اور آنس معین کے نام مکتوبات میں ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کا سہہ ماہی اوراق لاہور کے لیے تازہ کلام بھجوانے کا مطالبہ لازمی شامل ہوا کرتا تھا۔ یہ سلسلہ کم و بیش چھ یا سات برس ہی جاری رہا ہوگا کہ فروری کی پانچویں تاریخ انیس سو چھیاسی کو آنس معین کی جواں مرگی کے المناک حادثے نے تو تمام اہل خانہ ہی کیا تمام وابستگان بلے فیملی کو دہلا کر رکھ دیا۔ آنس معین کی المناک موت اور اس کے بلے فیملی پر اثرات کا جائزہ لینے کے لیے علیحدہ سے کسی تحریر میں بیان کیا جائے گا۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کو ایک مفصل تعزیتی خط بھی لکھا اور متعدد بار فون پر بھی تعزیت فرمائی۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے تعزیتی خط کے جواب میں سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے جوابی مکتوب ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کو ارسال فرمایا۔ بعد ازاں ڈاکٹر وزیر آغا نے سہہ ماہی اوراق لاہور میں گوشۂ آنس معین بہت اہتمام سے شائع کیا۔ اس خصوصی گوشے میں سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کے نام جوابی خط ، ڈاکٹر وزیر آغا ، پروفیسر انور جمال اور ڈاکٹر انور سدید کے مضامین کے علاوہ آنس معین کا منتخب کلام ، آنس معین کا اپنے والدین کے نام آخری خط اور آنس معین کی فل پیج تصویر بھی اہتمام سے شائع کی گئی تھی۔
شاعر کرب آنس معین کے غم زدہ والدِ گرامی سید فخرالدین بلے کا ڈاکٹر وزیر آغا کے نام جوابی مکتوب
اسلم خان بلڈنگ ،
چوک نواں شہر. ملتان
۔16مٸی1986
ڈاکٹر وزیر آغا صاحب مکرم ! تحیات و السلام علیکم
آپ کا مکتوب ملا درماندۂ فرصت ہونے کے سبب تاخیر سے جواب دینے کے لیے معذرت خواہ ہوں. یوں بھی آنس کی غیر معمولی موت سے گھر کے سب افراد ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، بکھر گئے ہیں۔ اور خود کو سنبھالنے، سمیٹنے اوراس غم کے ساتھ جینے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
اپنی اولاد سبھی کو پیاری ہوتی ہے جب کہ آنس فی الحقیقت بہت ہی پیارا بچہ تھا۔ عہدِ طفلی میں کھیل کے دوران یا کھلونوں اور ٹافیوں وغیرہ پر بچے جھگڑ بھی پڑتے ہیں، لیکن آنس کو ہم نے اس زمانے میں بھی بھائیوں، بہنوں یا کسی اور سے کبھی جھگڑتے نہیں دیکھا۔ وہ کم آمیز ضرور تھا مگر عموما مسکراتا رہتا تھا۔ سب اس سے بہت پیار کرتے تھے اور وہ بھی سب سے بہت محبت کرتا تھا۔ دھبہ توبڑی چیز ہے وہ اپنے لباس پر معمولی سی شکن تک برداشت نہیں کرتا تھا. حیرت ہے کہ جو کسی غیر کو بھی دکھی نہیں دیکھ سکتا تھا اپنوں کو اتنا بڑا غم کیسے دے گیا۔ اس کی کوئی ایموشنل پروبلم بھی نہیں تھی۔ شادی کے لیے لڑکی کے انتخاب کا معاملہ بھی اس نے یہ کہہ کر گھر والوں پر چھوڑ دیا تھا کہ اس کی نظر میں سب سے بہتر لڑکی وہ ہوگی جو کنبے میں بہتر طور پر ایڈجسٹ ہوسکے۔ اس کی نہ کسی سے کوئی چپقلش تھی اور نہ ہی گھر یا باہر کا کوئی ایسا مسئلہ جو کسی الجھن کا سبب بنتا۔ بینک میں جہاں وہ کام کرتا تھا، چھوٹے بڑے سب اس کی شرافت اور صلاحیت کے معترف تھے۔ حال ہی میں اس نے فارن ایکس چینج کی تربیت میں امتیاز حاصل کیا تھا اور اس کی فارن پوسٹنگ متوقع تھی۔ ان حالات میں خود کشی جیسا اقدام بعید از قیاس نہیں تو کیا ہے؟
جس دن یہ سانحہ پیش آیا میں اسلام آباد میں تھا اور آنس کی والدہ کراچی گئی ہوئی تھیں۔ گھر پر اس کی چھوٹی بہن اور دو بھائی عارف اور ظفر تھےجن کے ساتھ وہ رات گئے تک ہنستا بولتا رہا۔ اگلے دن وہ گھر سے خوش و خرم گیا اور خون میں ڈوبا ہوا آیا۔ اس کی موت کے متعلق ہماری کل معلومات وہ خط ہے جو اس نے اس اقدام سے ایک دن پہلے لکھا تھا۔ اور اس کی جیب سے برآمد ہوا. اس خط کی نقل آپ کو بھیج رہا ہوں جس سے بس اتنا ہی پتا چلتا ہے کہ اس نے زندگی کا “آخری ورق” پڑھنے کی عجلت میں جان دے دی۔
المیہ یہ ہے کہ ہم اس کی تخلیقات اور باتوں کو محض شاعری سمجھتے رہے۔ اس کے بھائی بہنیں اور احباب دانشور کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ اس کی چھوٹی بہن اس سے اکثر کہتی تھی کہ آنس بھائی آپ کی شاعری میں تو بس اندر اور باہر کے آدمی میں جنگ ہی ہوتی رہتی ہے۔ البتہ سرگودھا میں سب سے پہلے آپ نے آنس کی سوچ کو غیر معمولی اور اس کے لہجے اور اشعار کو چونکا دینے والا کہا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ اس کے بعض اشعار سے تو مجھے خوف آتا ہے۔ اسی طرح کوئی پانچ برس پہلے اس کے شعر سن کر جوش صاحب اور فیض صاحب نے جہاں بے پناہ داد دی تھی وہاں اس تشویش کا اظہار بھی کیا تھا کہ اس کی سوچ اور لہجہ نہ صرف بڑا انوکھا بلکہ جھنجھوڑ دینے والا ہے۔ کاش اس وقت ہم نے اس کے فکری رویے کی طرف دھیان دیا ہوتا اور جس داخلی کرب میں وہ مبتلا ہو گیا تھا اس سے نجات کی کوئی راہ نکالی ہوتی تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
آنس نے شاعری کا آغاز 1977 میں کیا اور نو برسوں میں ڈھائی سو سے زیادہ غزلیں اور ڈھیروں نظمیں کہیں جن میں حقیقت ذات و کائنات کی دریافت اور معرفت و اماں کی یافت کےلیے ظاہر و باطن کی کشمکش کا وہ تسلسل نمایاں ہے جو بالآخر اس کی موت پر منتج ہوا۔ یوں تو وہ سب سے خندہ پیشانی سے ملتا تھا لیکن جن سے ملتا تھا ان سے ایک فاصلہ بھی برقرار رکھتا تھا۔ وہ اپنا کلام چھپوانے، سنانے اور مشاعروں میں شرکت سے گریز کرتا تھا کیونکہ اس کے خیال میں شعر فہمی ہر شاعر کو بھی نصیب نہیں ہوتی۔ کبھی کبھار اس نے اپنی غزلیں اور نظمیں اوراق میں اشاعت کے لیے ضرور بھیجیں ہیں یا کسی کے اصرار پر بعض اخبارات و جرائد کو دی ہیں۔ لیکن کہتا وہ یہی تھا کہ ”کوئی غزل یا نظم چھپ بھی گئی تو کیا ہوگا؟“ بہر حال اربابِ شعر و دانش کی ایک قابلِ لحاظ تعداد ایک مدت سے اس کی مداح ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ اپنے عہد کا مصطفی زیدی تھا اور بعض کا خیال ہے کہ اسے اپنے دور کا شکیب جلالی سمجھا جائے جب کہ بعض احباب کا کہنا ہے کہ دراصل شکیب اپنے زمانے کا آنس معین تھا۔ جب کہ فی الحقیقت آنس کے کرب کی علت، نوعیت اور کیفیت قطعی مختلف تھی۔ آپ نے درست لکھا ہے کہ بظاہر وہ اتنا پُرسکون تھا کہ اس بات کا وہم و گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ اس کے اندر اتنا بڑا طوفان کھول رہا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سب سے پہلے آپ ہی اس کے اشعار اور لہجے سے چونکے تھے اور آپ نے ہمیں بھی خبردار کیا تھا اور اب آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ آنس کے اشعار میں بالکل شکیب جلالی والا کرب ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے کرب اور اس سے جھلکنے والے خوف کی نشاندہی بھی سب سے پہلے آپ ہی نے کی تھی اور اب اس کی سوچوں کے متلاطم دھاروں اور لہجے کی گھمبیرتا کی روشنی میں اس کی تخلیقات کی علت و حکمت اور اثر آفرینی کی دریافت میں بھی آپ سے بہتر رہنمائی کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ امید ہے آپ اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود آنس کے لیے کچھ وقت ضرور نکالیں گے اور اسے پوری طرح جاننے اور قریب سے دیکھنے کا سامان کریں گے
والسلام
طالبِ دعا
سید فخرالدین بلے
۔16مئی1986
اوراق میں گوشۂ آنس معین کی اشاعت کے بعد سہہ ماہی فنون میں پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری کا مقالہ آنس معین ایک عبوری ایک لافانی شاعر کے عنوان کے تحت شائع ہوا۔ طفیل ہوشیار پوری نے ماہنامہ محفل لاہور میں ، جعفر شیرازی نے گہراب میں ، بیدار سرمدی نے پندرہ روزہ انکشاف لاہور میں اور ڈاکٹر فوق کریمی نے ترجمان علی گڑھ بھارت میں آنس معین فہمی کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے شاندار اور جاندار گوشے شائع کیے گئے۔ لیکن طفیل ہوشیارپوری اور ڈاکٹر انور سدید نے آنس معین کی تفہیم کا عمل مسلسل جاری رکھا اور متعدد مضامین اور مقالات قلم بند کیے۔ طفیل ہوشیارپوری نے برصغیر پاک و ہند کے ممتاز ناقدین اور ادبا کی نگارشات پر مشتمل ماہنامہ محفل لاہور کا ضخیم اور بھرپور آنس معین نمبر شائع کیا۔ بعدازاں آنس معین کی چھٹی برسی کے موقع پر ڈاکٹر قمر رئیس ، رام لال جی ، پروفیسر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی اور اظہار احمد پر مشتمل مجلس ادارت نے ماہنامہ معلم اردو لکھنؤ کا آنس معین نمبر شائع گیا۔
سید فخرالدین بلے کی لاہور منتقلی کے ساتھ ہی قافلہ کے پڑاؤ بھی لاہور منتقل ہوگئے۔ اس سے قبل ڈاکٹر وزیر آغا ہر مہینے کی دس یا پندرہ تاریخ کے بعد لاہور آیا کرتے تھے لیکن سید فخرالدین بلے اور انکی قائم کردہ ادبی تنظیم کی سرگرمیاں لاہور منتقل ہونے کے بعد جب ہر ماہ کی یکم تاریخ کو سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ پر قافلہ کا پڑاؤ ڈالا جانے لگا تو ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی اپنی لاہور آمد کا شیڈویل قافلہ پڑاؤ کے مطابق کرلیا اور اسکا مفصل ذکر ڈاکٹر انور سدید کے متعدد مضامین اور تجزیوں میں بھی ملتا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر وزیر آغا کی قافلہ کے ہر ماہانہ پڑاؤ میں شرکت یقینی ہوا کرتی تھی۔
ہفت روزہ آواز جرس لاہور کے مدیراعلی سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے ڈاکٹر وزیر آغا کی فرمائش اور خواہش پر آواز جرس کا مجید امجد نمبر شائع فرمایا۔ ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا صاحب نے سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی اس کاوش کے لیے ہر ممکن قلمی تعاون بھی فرمایا اور بعد ازاں مجید امجد کے حوالے سے آواز جرس کی اشاعت خاص کو ایک تاریخی دستاویز قرار دیا اور اسے بےحد سراہآ۔ چیف سیکریٹری پنجاب کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے ممتاز شاعر ، ادیب اور کالم نگار جاوید احمد قریشی صاحب نے بھی اس تاریخی دستاویز میں اپنا قلمی تعاون پیش فرمایا اور سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی قافلہ سالار کی حیثیت سے ادب پروری کے حوالے سے قافلہ کے مجید امجد پڑاؤ میں کھل کر بلے صاحب کی خدمات کے حوالے سے اظہار خیال فرماتے ہوئے مجید امجد سے اپنے اور سید فخرالدین بللے کے مراسم کا بھی ذکر کیا۔ جاوید احمد قریشی نے سید فخرالدین بلے کے ہمراہ مجید امجد سے ان متعدد ملاقاتوں کا بھی ذکر کیا کہ جب وہ ڈپٹی کمشنر ساہیوال اور سید فخرالدین بلے محکمۂ اطلاعات و نشریات ، تعلقات عامہ ملتان ڈویژن کے سربراہ تھے۔ سید فخرالدین بلے بین الاقوامی شہرت کی حامل ادبی تنظیم کے بانی اور قافلہ سالار تھے۔ ہمسایہ ملک بھارت سے قافلہ کی خصوصی دعوت پر آنے والے ممتاز اسکالرز ، شعراء ، ادباء ، معروف تخلیق کار کہ جیسے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ، کنور مہندر سنگھ بیدی ، پروفیسر جگن ناتھ آزاد ، جوگندر پال ، رام لعل جی ، ڈاکٹر فوق کریمی ، ڈاکٹر ارمان نجمی ، اخترالایمان ، خمار بارہ بنکوی ، راجندر ملہوترا ، سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ڈاکٹر سید حامد اور دیگر بہت سوں کے اعزاز میں قافلہ نے خصوصی پڑاؤ ڈالے اور ان بہت سی قابل قدر شخصیات کے فنی سفر اور ادبی زندگی کے حوالے سے آواز جرس میں خصوصی طور پر صفحات مختص کیے گئے۔ پاکستان کی بھی ممتاز علمی و ادبی شخصیات کی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا گیا ان میں آواز جرس کے احمد ندیم قاسمی نمبر ، ڈاکٹر وزیر آغا نمبر ، جاوید احمد قریشی نمبر ، آنس معین ، جگن ناتھ آزاد نمبر ، طفیل ہوشیارپوری نمبر ، جون ایلیاء نمبر ، مرتضی برلاس نمبر ، مجید امجد نمبر ، فیض احمد فیض نمبر ، جوش ملیح آبادی نمبر ، جعفر شیرازی نمبر ، پرتو روہیلہ نمبر ، ڈاکٹر انور سدید نمبر قابل ذکر ہیں۔ ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے جاوید احمد قریشی صاحب سے باہمی مشورے کے بعد ہماری ڈیوٹی لگائی تھی کہ ہم جناب حسن رضا گردیزی صاحب سے وقت لے کر ملتان جائیں اور مجید امجد نمبر کے لیے ان سے خصوصی مکالمہ کریں۔ جناب حسن رضا گردیزی صاحب سے جو ہم نے انٹرویو لیا اسے مجید امجد نمبر میں اہتمام سے شامل اشاعت کیا گیا۔
جب ڈاکٹر وزیر آغا نے ایک قافلہ کے پڑاؤ میں شرکت کے دوران قافلہ سالار سید فخرالدین بلے اور شرکائے قافلہ پڑاؤ کو یہ خوش خبری سنائی کہ ان کی کتاب مجید امجد کی داستان محبت مکمل ہوگئی ہے اور اس کا مسودہ تیار ہوگیا ہے تو سید فخرالدین بلے نے اپنے قائم کردہ اشاعتی ادارے معین اکادمی لاہور سے اسے شائع کرنے کا اعلان فرما کر ڈاکٹر وزیر آغا کی خوشی کو دو بالا کردیا۔ پھر بہت جلد معین اکادمی لاہور کے زیر اہتمام شاندار انداز میں ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب مجید امجد کی داستان محبت منظر عام پر لائی گئی۔ معین اکادمی لاہور کے اس اقدام کو بہت سراہا گیا تھا۔ معین اکادمی لاہور کے زیراہتمام اس سے قبل مرتضی برلاس انکل کے شعری مجموعے تیشۂ کرب کا ڈیلکس ایڈیشن اور افتخار ایلی کے افسانوں کا مجموعہ بولتی بوندیں زیور طباعت سے آراستہ ہوکر بہت مقبول ہوچکے تھے۔
محترم و مکرم احمد ندیم قاسمی صاحب نے قبلہ سید فخرالدین بلے اور ہماری فرمائش پر آواز جرس کے مجید امجد نمبر کے لیے اپنا خصوصی مضمون عطا فرمایا۔ ملتان سے منیر فاطمی نے مجید امجد کے خطوط ارسال کیے۔ جعفر شیرازی نے اپنا مضمون مجید اور میں داستان رفاقت بہت تاخیر سے بھیجا لہذا وہ مجید امجد کی اس اشاعت خاص میں شامل نہ کیا جا سکا۔ طاہر نقوی سے آواز جرس کے مجید امجد نمبر کا سرورق تیار کروایا گیا۔ جاوید احمد قریشی صاحب سے اس اشاعت خاص کے لیے ایک پینل انٹرویو بھی کیا۔
دو ہزار نو میں مدیر اعلی ادب لطیف لاہور نے ایک پروجیکٹ کے سلسلے میں لاہور بلوایا۔ ہمارا قیام بھی محترمہ صدیقہ بیگم کے ہاں ہی رہا اور اس دوران متعدد شخصیات سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ ہم محترمہ صدیقہ بیگم صاحبہ کے ہمراہ ہی شہزاد احمد صاحب کے مجلس کے دفتر اور بعد ازاں ڈاکٹر وزیر آغا سے ان کی سرور روڈ لاہور کینٹ میذن واقع رہائش گاہ پر جا کر طویل ملاقاتیں کیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا گھنٹوں سید فخرالدین بلے کی ادبی خدمات کا بیان فرماتے رہے اور سید فخرالدین بلے سے اپنی طویل رفاقت کے حوالے سے حسین یادوں اور باتوں کو اپنے مخصوص اور خوبصورت انداز میں بیان فرماتے رہے۔