نادیہ حسن کی تصنیف “نیلا قالین”۔ | تبصرہ: قانتہ رابعہ

ایک باوقار اور موثر شخصیت بننے میں بچپن کا عرصہ بہت کارآمد ہوتا ہے ۔بچہ جو دیکھتا ہے جو سیکھتا ہے وہی لاشعوری طور پر بڑے ہو کر اس کی شخصیت کا جزو بن جاتا ہے۔

بچے کیا سوچتے ہیں ؟انہیں کیسا ہونا چاہئیے ؟کیسا نہیں ہونا چاہئیے ؟۔انہیں مستقبل میں کارآمد شہری بنانے کے لئے بچپن میں انہیں مطالعہ کی طرف راغب کرنا بہت ضروری ہے۔بچوں کے لئے وہ کتب جو انہیں مثبت سوچنا سکھائیں۔ توانا اور  بھرپور حقیقی زندگی جینے کا ڈھنگ بتائیں۔ اردگرد رہنے والوں سے ان کے کیسے تعلقات ہوں یہ جنوں بھوتوں  اور پریوں شہزادوں کی کہانیوں سے نہیں عام لوگوں کے عام مسائل پر مبنی کہانیوں سے پتہ چلتا ہے ۔بچہ تخیل کی بجائے حقیقت پسند بنتا ہے۔

ایسی ہی سادہ ، دلچسپ اور تجسس سے بھر پور روزمرہ زندگی کی کہانیوں پر مشتمل کتاب ” نیلا قالین ،، ہے۔ محترمہ نادیہ حسن کی تئیس کہانیوں پر مشتمل اس کتاب میں ایک بھی کہانی ایسی نہیں جسے قاری  غیر دلچسپ یا ناممکن کہہ کر بیچ میں چھوڑ دے۔

مصنفہ کی تمام کہانیاں مثبت انجام، چھوٹے فقروں  اور دلچسپ پلاٹ پر  تحریر کی گئی ہیں۔ ان کہانیوں کے مرکزی خیال بدیسی ادب سے ماخوذ نہیں بلکہ خالصتا ان کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔ نادیہ حسن کا قلم سبک رفتار اور لکھنے کا انداز منجھے ہوئے قلمکار کا ہے۔ ان کی تمام کہانیوں کا آغاز اچھوتے اور چونکا دینے والے انداز سے ہوتا ہےجیسا کہ:
” چھان بورے والا ٹیں ڈبے والا”
” بس یار میرا دل وہاں جانے کو نہیں چاہتا ” ( ایک رات)
، وغیرہ وغیرہ” تڑاخ ” زوردار تھپڑ میرے نازک گال پر پڑا” (نیلا قالین )

ان کی تمام کہانیوں میں پڑھنے والے کے لئے سبق موجود ہے ایسا سبق جو آگے بڑھنے میں مدد دے۔ آپ انہیں موٹیویشنل کہانیاں بھی کہہ سکتے ہیں جیسے ” شکر قندی” ؛ چھان بورے والا”۔ کچھ کہانیاں ننھے منے بچوں کو جاسوس بننے پر ابھارتی ہیں جیسے  ایک بڑھیا کی کہانی۔”

کچھ کہانیاں ایسی ہیں جن کے مرکزی مضمون بچوں کے لئے بڑے ہیں۔ یہ اگر تھوڑا سا انداز بدل کر بڑوں کے لئے لکھی جاتیں تو زیادہ بہتر ہوتا جیسا کہ ” ایک سال بعد ” ” ایک رات ” ” دو دکانیں ” وغیرہ۔ گو ان میں بھی بچوں کے لئے دلچسپی اور سبق موجود ہے۔

کچھ کہانیاں بہت ہلکے پھلکے انداز میں بچوں کو بہت بڑے اور مشکل کاموں کی طرف متوجہ کرتی ہیں جیسے ” دیہاتی پولیس۔ اسی کتاب کے آخر میں موبائل استعمال کرنے کا ہدایت نامہ بھی موجود ہے۔ مجموعی طور پر یہ اچھی کتاب ہے جس کے لئے میں پریس فار پیس پبلی کیشنز، مصنفہ اور جناب پروفیسر ظفر اقبال کو مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ بے شک بچوں کے لئے اصلاحی اور صاف ستھری کتابوں میں یہ خوبصورت اضافہ ہے۔”

QR
قانتہ رابعہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link