ایشیا بحرالکاہل ایک اقتصادی پاور ہاؤس۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

پیرو کے دارالحکومت لیما میں اپیک اقتصادی رہنماؤں کے 31 ویں اجلاس کے دوران ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایشیا بحرالکاہل کا خطہ غیر یقینی صورتحال سے بھری دنیا میں اپنی مزید ترقی کو کیسے برقرار رکھ سکتا ہے؟۔ اس سوال کا جواب چینی صدر شی جن پھنگ نے لیما میں منعقدہ اپیک  بزنس لیڈرز سمٹ سے خطاب میں واضح کیا کہ اقتصادی گلوبلائزیشن سماجی پیداواری قوتوں کی ترقی کے لئے ایک معروضی ضرورت ہے اور سائنسی اور تکنیکی ترقی کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ اقتصادی گلوبلائزیشن کی سمت کی صحیح رہنمائی کرنا اور معاشی گلوبلائزیشن کو فروغ دینے کے لئے مل کر کام کرنا ضروری ہے ۔انہوں نے ا س ضمن میں جدت طرازی پر عمل پیرا ہونے ،  وقت کے ساتھ ہم آہنگ رہنے اور عالمی اقتصادی گورننس کے نظام میں اصلاحات کو فروغ دینے ،  عوام پر مبنی اصول پر عمل کرنے اور غیر متوازن ترقی کے مسئلے کے حل کرنے پر زور دیا۔

کئی دہائیوں سے ایشیا بحرالکاہل ایک اقتصادی پاور ہاؤس رہا ہے، جو تجارت اور سرمایہ کاری کی لبرلائزیشن، کاروباری سہولت کاری اور اقتصادی اور تکنیکی تعاون کے ذریعے ترقی کو آگے بڑھا رہا ہے۔تاہم اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ”ایشیا بحرالکاہل کا معجزہ” آسانی سے وجود میں نہیں آیا ہے۔ یہ مختلف معیشتوں کے درمیان امن، اشتراکیت اور تعاون کے ماحول میں قائم کیا گیا ہے، جن میں سے ہر ایک مشترکہ خوشحالی کے لئے پرعزم ہے.لیکن آج،مختلف تبدیلیوں سے دوچار دنیا قدرے مختلف نظر آتی ہے. بڑھتے ہوئی جغرافیائی سیاسی تناؤ، تحفظ پسندانہ اقدامات کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی رکاوٹوں اور نام نہاد “ڈی کپلنگ” اور “ڈی رسکنگ” کی کوششیں خطے کے استحکام اور خوشحالی پر غیر معمولی دباؤ ڈال رہی ہیں۔

ایسے میں اپیک کو اب ایک اہم فیصلے کا سامنا ہے کہ کیا وہ باہمی تعاون پر مبنی اقتصادی ترقی کے چراغ کے طور پر اپنے کردار پر قائم رہے یا جغرافیائی سیاسی تنازعات یا یہاں تک کہ “نئی سرد جنگ” کے میدان میں داخل ہونے کا خطرہ مول لے۔

اپیک دنیا کی ایک تہائی آبادی، عالمی جی ڈی پی کا 60 فیصد سے زیادہ اور مجموعی تجارت کا تقریباً نصف شیئر رکھتا ہے ،ایسے میں ایشیا بحرالکاہل تقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اسے عالمی معیشت کے لئے اسٹیبلائزر اور بوسٹر کے طور پر کام جاری رکھنا چاہئے۔اپیک کو اس حقیقت کا بخوبی احساس ہے کہ اپنی کامیابیوں کی عکاسی کرتے ہوئے، خطے کی کامیابی کا دارومدار ایک پرامن اور مستحکم ماحول، اور کھلے پن اور انضمام کے مشترکہ عزم پر ہے۔

استحکام کی اس بنیاد نے تیز رفتار اقتصادی ترقی کے لئے سازگار حالات کو پروان چڑھایا ہے۔ امن و استحکام کو برقرار رکھنے کی ٹھوس کوششوں کے ذریعے علاقائی ارکان معیار زندگی کو بہتر بنانے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور غربت میں کمی جیسی ترجیحات پر توجہ مرکوز کرنے میں کامیاب رہے ہیں، جس کے نتیجے میں مضبوط معیشتوں اور زیادہ لچکدار معاشروں کو تقویت ملی ہے۔

اسی طرح اختلافات کا احترام کرتے ہوئے، تنوع کو گلے لگا کر اور مشترکہ مقاصد کے حصول کے ذریعے ایشیا بحرالکاہل کے ارکان نے یہ ثابت کیا ہے کہ مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اتحاد اور تعاون انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔سرحد پار تجارت، سرمایہ کاری اور تکنیکی تعاون کو فروغ دینے کے لئے خطے کی لگن نے ایک متحرک ماحول پیدا کیا ہے جہاں معیشتیں مل کر ترقی کر سکتی ہیں۔ انضمام کے لئے اس کھلے پن نے ممبروں کو ایک دوسرے کی طاقتوں سے فائدہ اٹھانے اور جیت جیت کے نتائج حاصل کرنے کے قابل بنایا ہے۔

اپیک خطے نے کمیونٹی کا ایک مضبوط احساس بھی برقرار رکھا ہے۔ اس کی ماضی کی کامیابیاں تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشترکہ کاوشوں کا ثبوت ہیں جو باہمی اعتماد، اشتراکیت، تعاون اور باہمی فائدے کی بنیاد پر تعمیر کی گئی ہیں۔  تاریخی اعتبار سے بھی ایشیا بحرالکاہل میں اقتصادی تعاون کبھی بھی “زیرو سم گیم” نہیں رہا، بلکہ یہ باہمی کامیابی اور مشترکہ ترقی کا پلیٹ فارم رہا ہے۔

ایشیا بحرالکاہل خطے کی اقتصادی ترقی میں چین کا حصہ 64.2 فیصد ہے۔ عالمی سطح پر دوسری سب سے بڑی معیشت کی حیثیت سے چین نے ایشیا بحرالکاہل اقتصادی تعاون  کی معیشتوں کے درمیان پائیدار ترقی اور مشترکہ خوشحالی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ علاقائی رابطوں کی وکالت سے لے کر جدت طرازی، کھلے پن اور ماحول دوست ترقی پر زور دینے تک ،چین کی تجاویز اور اقدامات سے ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں تعاون کومزید مضبوط بنایا جارہا ہے۔ چین کے مشترکہ مستقبل کی حامل ایشیا بحرالکاہل کمیونٹی کے لئے وژن نے 21 اپیک رکن معیشتوں کے مابین گہرے تعاون کی ضرورت کو بھی عمدگی سے اجاگر کیا ہے۔

آج ،پیرو میں جمع اپیک رہنماوں سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ایک مربوط، کھلے خطے کی تعمیر کے لئے اپنے عزم کی تجدید کریں گے جو تصادم پر تعاون کو ترجیح دیتا ہے۔ویسے بھی اپیک عالمی اقتصادی ترقی کا ایک اہم انجن  ہے جس کی  وجہ نہ صرف خطے میں طویل مدتی امن و استحکام  ہے بلکہ چین سمیت دیگر اپیک ممالک کا  اہم کردار بھی ہے۔

SAK

شاہد افراز خان کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link