معاہدۂ لوزان کی تکمیل اور ترکی کی نئے دور میں داخل ہونے کی تیاریاں۔| تحریر: عرشی عباس

معاہدۂ لوزان کے 100سال2023 میں مکمل ہونے والے ہیں، یہ معاہدہ 23 جولائی 1923 میں ترکی اور چند ممالک کو درمیان طے پایا تھا جن میں برطانیہ،اٹلی، فرانس ا ور جاپان شامل تھے اور اس معاہدے کی تو ثیق 24اگست 1924میں ہوئی پہلی جنگ عظیم کے بعد۔توثیق دراصل ایک پرنسپل کی منظوری  ہے اس کے ایجنٹس کے درمیان،جو کہ ان بین الاقوامی ایکٹ کی وضاحت کرتی ہے جس میں کوئی ریاست کسی معاہدے کے پابند ہونے کے لئے اپنی رضامندی ظاہر کرتی ہے۔

 معاہدہ لوزان دراصل ہے کیا؟لوزان کے معاہدے کے تحت جو کہ 1923میں دستخط کئے گئے تھے  مشرقی اناطولیہ جدید دور کے ترکی کا حصہ بن گیالیکن اسکے بدلے میں ترکی کو اپنے قدرتی وسائل سے ہاتھ دھونا پڑایعنی ترکی نے اپنے تیل اور گیس کی دولت سے مالامال عرب سرزمین پر عثمانی دور کے دعوے کو مسترد کر دیا۔لوزان کی کانفرنس کے دوران کئی مذاکرات کئے گئے جس میں اسمیت انونی ترکی کی جانب سے چیف مذاکرات کا ر تھے، اس کے علاوہ اس وقت کے برطانوی سیکریٹری خارجہ لارڈ کرزن اتحادیوں کے چیف مذاکرات کار تھے جب کہ یونان کی جانب سے ایلیتھیریوس وینزیلوس نے مذاکرات کئے تھے۔ان مذاکرات میں کئی مہینے لگے اور بالآخر 20نومبر 1922کو امن کانفرنس کا  آغاز ہوااور اس معاہدے پر آٹھ مہینے کی سخت گفت و شنید کے بعد دستخط کئے گئے تھے۔ اتحادیوں کے وفد میں امریکی ایڈمرل مار ک ایل برسٹل شامل تھے جنہوں نے ریاست ہائے متحدہ کے ہائی کمشنر کے طور پر خدمات انجام دیں  اور ترکی کی کوششوں کی حمایت کی۔

معاہدۂ لوزان دراصل پہلی جنگ عظیم کی فاتح قوتوں نے آپس میں ہی طے کیا تھااوراس معاہدہ پر ان فاتحین کا ساتھ دیتے ہوئے سیکیولرزم کے حامی اور اسلام مخالف مصطفیٰ کمال اتاترک نے دستخط کر کے مہر تصدیق ثبت کردی تھی۔دراصل یہ ہی وہ معاہدہ تھا  جس کے تحت ترکی کو یورپی ممالک  کا 100سالوں تک محکوم بنا دیا گیا تھایعنی پابند کردیا گیا تھا کہ وہ اپنے قدرتی وسائل کو استعمال کرنے کا اہل نہیں ہے۔

اب کیوں کہ  2023 میں اس معاہدے کے سو سال مکمل ہو رہے ہیں تو ترکی ایک بار پھر اپنے اسلامی  دور کے خواب کو تعبیر بنانے کی کوشش میں گامزن ہے۔اپنی کئی تقاریر میں ترکی کے موجودہ صدر  طیب اردگوان  اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں کے اب ترکی کو نئے آئین کی ضرورت ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اب ترکی کو ان تمام پابندیوں سے بھی چھٹکارہ مل جائے گا جنکی بدولت وہ اپنے قدرتی وسائل تیل اور گیس خود نکال سکے گا اور استعمال بھی کر سکے گا۔

ترکی کے صدر طیب اردگوان کاایک خواب سلطنت عثمانیہ کے سنہری دور کے قوانین کو دوبارہ سے لاگو کرنا ہے یعنی ایک عظیم اسلامی ریاست کا قیام آ ج کے دور میں اب ممکن نظر آرہا ہے۔

لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو ترکی کو مختلف جگہوں پر جنگوں میں مصروف کیا جا رہا ہے تاکہ وہ اس سنہری دور کا خواب ایک دیوانے  کے خواب کی طرح بھول جائے جس طرح عثمانیہ دور  میں جنگوں کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے۔

لیکن پھر جس طرح پرانے دور میں کسی ملک کی کامیابی کیلئے اسکا معاشی ترقی کرنا ضروری ہوتا تھا بالکل اسی طر ح ترکی بھی بہت سے ممالک کی اندرونی مدد کرتا نظر آتا ہے۔دنیا کے نقشے پرمشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ،مشرقی بحیرۂ روم اور وسطی ایشیا ء  اسکی سب سے بڑی مثا ل ہیں۔آج شام، لیبیا، اور   ناگو نگاراباغ کے علاقوں میں ترکی کی موجودگی اس بات کی واضح نشانی ہے۔ اور دیکھا جائے تو پہلی جنگ عظیم سے پہلے یہ تمام ممالک عثمانیہ دور میں  ترکی کا ہی حصہ تھے۔

دراصل سلطنت  عثمانیہ600  سال تک جنوبی مشرقی یورپ سے لے کر موجودہ دور کے آسٹریلیا، ہنگری، بلغان،یونان،یوکرین،عراق،شام،اسرائیل،فلسطین اور مصر تک پھیلی ہوئی تھی۔اور پھر 16ویں صدی  میں سلطنت کے اندر مزید علاقوں کا اضافہ ہوتا گیااور یہ تقریبا شمالی افریقہ سے لیکر الجیریااور عرب ممالک تک چلا گیا۔اور آج ایک بار پھر ترک ان تمام ممالک میں اپنا اثر قائم کرتے نظر آرہے ہیں۔

آج  تھنک ٹینک بھی اس بات پر پریشان ہے کہ آیا ترکی کے پاس ایسی کونسی طاقت آگئی ہے جو وہ اتنا پرجوش ہے۔تو جناب یہ طاقت ٓا نہیں گئی بلکہ وہ کہتے ہیں ناکہ قطرہ  قطرہ دریا بنتا ہے تو بالکل اسی طرح  ترکی کے صدر رجب طیب اردگوان جو کہ 2002 سے ترکی کے صدر ہیں انھوں نے اس 2023  کی تیاریاں بھی اسی وقت سے شروع کر دی تھیں اور ترکی کو ایک ایسی طاقت بنا دیا ہے کہ آج ترکی کی جانب غلط نظر اٹھا کر دیکھنا آسان نہیں ہے۔اور اس کے لئے طیب اردگوان نے اپنے ملک کو کالی بھیڑوں  سے پاک کیا ہے جو انکے عسکری نمایندوں کی صورت میں انکے اردگرد تھیں اور جسکی وجہ  سے15 جولائی 2016 ترک مسلح افواج  کے اند موجودر ایک مخالف دھڑے  نے جو کہ پیس ایٹ ہوم کے نام سے منظم تھی اس نے صد ر رجب طیب اردگوان اور ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت کی کوشش کی تھی۔

کیوں کہ وہ پہلے ہی جان چکے تھے کہ انکی اسلامی اصلاحات کی وجہ سے کون لوگ مشکل میں آجائیں گے اور وہ اسکے خلاف قدم اٹھائیں گے۔تو ان کے خلاف کیا اقدامات کرنے ہونگے۔آج ترکی کی سرحد آٹھ ممالک سے جا ملی ہے جن میں یورپی ممالک سب سے اہم ہیں۔کیونکہ صدر نے اپنی سرحدوں کو مضبوط کیا ہے بیرونی طاقتوں کی شورشوں کی وجہ سے لیکن اب بات سوچنے کی یہ ہے کہ اتنی ساری مشکلات  کے باوجود کیا صدر رجب طیب اردگوان  خلافت عثمانیہ کی بحالی کیلئے تیار ہیں؟

کیا وہ اپنے قدرتی وسائل یونان سے دوبارہ حاصل کرسکیں گے؟

یا ہم سب تھرڈ ورلڈ وار کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں؟

Arshi Abbas

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link