لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔ | تحریر: عرشی عباس

بنگلہ دیش میں حالیہ ہونے والی انارکی نے یہ بات واضح کر دی کہ ظلم ایک حد تک ہی برداشت کیا جا سکتا ہے۔ ڈھاکہ میں پہلی جولائی کو ہونے والے طلباء و طالبات کے احتجاج نے بالآخر سالہا سال سے ان کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف بغاوت کا علم بلند کر ہی دیا دراصل یہ احتجاج اس کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہوا جس کے تحت سول سروسز کی زیادہ تر نوکریاں ایک عرصے س ایک خاص گروپ کو دی جارہی تھیں(جس میں1971 کی جنگ میں پاکستان کے خلاف لڑنے والے فوجیوں کے بچے بھی شامل تھے)اور عام افراد میرٹ پہ ہونے کے باوجود ان نوکریوں سے محروم کر دئے جاتے اور یہ آواز  ہائی کورٹ کے 5 جون کے اس فیصلہ کے بعد اٹھی جس میں انھوں نے 2018میں ختم ہونے والے کوٹہ سسٹم کو بحال کر دیا تھا۔

یہ کوئی  پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا بلکہ اس سے پہلے بھی اس پر طلبہ تنظیموں نے آوز اٹھاٸی تھی جس کی وجہ سے اس پر2018 میں پابندی لگا دی گئی  تھی یہ احتجاج اسی طرح جاری تھا اور اس کی ابتدا   پرائم منسٹر حسینہ واجد کے ایک تقریری بیان کے بعد ہوٸی جس میں انھوں نے میرٹ کے خلاف کھڑے ہونے والے مظاہرین کو پاکستان کا ساتھ دینے والا  یعنی ”رضاکار“قرار دیا تھا۔1971 کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینے والوں کو یہی کہ کر پکارا جاتا تھا لیکن اس بار اسی ایک جملہ نے تمام طلباء میں اشتعال پیداکر دیا اور سب نے ایک زبان ہو کر نعرہ لگایا تم کون میں کون رضاکار رضاکار۔۔۔۔ہم نے مانگا ادھیکار مگر تم نے بنا دیا ”رضاکار رضاکار“۔

بنگلہ دیش کے دارلحکومت ڈھاکہ میں ہونے والے اس سرکاری ملازمتوں کے کوٹے کی سیاست کے خلاف مظاہرے وزیر اعظم حسینہ واجد کی حکومت کے پندرہ سالوں کی بدترین بدامنی دکھاٸی دے رہی ہے۔ جس میں ملک کے64اضلاع اس کا نشانہ بنے ہیں اور یہی نہیں بلکہ ان تمام حالات کے پیش نظر 200 سے زاٸد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ ملک میں انتشار کی بدولت 500 سے زاٸد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش میں عام ریلیوں پر پابندی لگا دی گٸی ہے۔

اگر ان تمام حلات کے تناظر میں دیکھا جائے  تو کم و بیش اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی تباہی کے اسی دہانے پہ کھڑا نظر آتا ہے کیوں کہ یہاں بھی کچھ ایسے ہی حالات میرٹ کے حوالے سے نظر آ رہے ہیں۔ ایک عرصے سے یہاں بھی میرٹ کے نام پر اشرافیہ کو ہی فائدہ  دیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے اب وہ وقت دور نہیں کہ طلباء تنظیمیں ایک بار پھر اپنے حقوق کے لٸیے سر اٹھالیں اور 80 او 90کی دھاٸ میں جس طرح طلباء ایک ساتھ اٹھ کھڑے ہوۓ تھے دوبارہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر باہر نکل آٸیں۔ یہاں بھی عام عوام سرکاری نوکریوں کے انتظار میں بیٹھی ہوتی ہے اور پھر اچانک سرکاری نوکریاں اخباروں میں اشتہار کی صورت میں اس کی زینت تو بنتی ہیں لیکن میرٹ پر اترتے صرف اقتدار اعلی کے پسندیدہ افراد ہیں ہونہار طالبعلم تو رکشہ چلاتا ہے یا پھر کسی اتوار بازار میں اسٹال لگاتا ہے یہی نہیں اب تو ہمارا روشن مستقبل ملک چھو ڑ کر یورپ کی جانب رخ کرنے لگا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق بیروزگاری اور مہنگائی سے تنگ آکر یہی پڑھا لکھا ہمارا مستقبل دوسرے ملکوں میں اپنا روشن مستقبل تلاشنے کی خاطر باہر ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔  پاسپورٹ ڈائریکٹوریٹ کے ایک سروے  کے مطابق 2021 سے بیرون ملک جانے کے لٸیے پاسپورٹ بنوانے والوں کی تعداد 20 ہزار سے بڑھ کر 30ہزار روزانہ تک پہنچ چکی تھی۔

اعدادو شمار کے لحاظ سے دیکھا جاٸے تو صرف 2022 میں سات لاکھ پینسٹھ ہزار(7,65,000) افرادپاکستان چھوڑ کر دیگر ممالک کی جانب چلے گئے ہیں جن میں آئی ٹی کے ماہر, ڈاکٹرز اور انجینئرز کی بہت بڑی تعداد شامل ہے۔ اور اب تو یہ تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

لیکن اب بھی ایک امید باقی ہے کیونکہ حالیہ واٸس آف امریکہ  یوتھ سروے کے مطابق جب 18 سے 35 سال کی عمر کے نوجوانوں کے ایک گروپ سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ بیرون ملک جانا چاہتے ہیں تو ان کا جواب نفی میں تھا ہر چار میں سے تین کاجواب یہی تھا کہ وہ پاکستان میں رہنا چاہتا ہے۔ صرف 23% نوجوانوں نے ملک سے باہر جانے کا ارادہ ظاہر کیا اور ان کا تعلق 18سے24 سال کی عمر کے گروپ سے تھا جو کہ روزگار کی خاطر ملک چھوڑنا چاہتے تھے۔

اگر اسی طرح ملک نظیر پاکستان میں بھی میرٹ کی دھجیاں اڑاٸی جاتی رہیں تو پھر وہ وقت دور نہیں کہ پاکستان کے بچے بھی تعلیم گاہوں سے نکل کر اپنے حق کی خاطر روڈوں پر نکل آئیں۔

عرشی عباس
عرشی عباس

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link