کامیابیاں سمیٹتی حفص نانی کی کتاب “کامیابی کا نشہ”۔ | تبصرہ: انعام الحسن کاشمیری
زندگی اور گھر سفر او رحضر میں بے شمار ننھی منی باتیں، چھوٹے موٹے واقعات، ورق گُل پر شبنم کے قطروں کی مانند بکھرے، چمکتے اور لپکتے ہوئے ہمہ وقت دکھائی دیتے رہتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ان شبنمی بوندوں کے لمس کو محسوس کریں اور اسے اپنی دل کے نہاں خانوں میں مقید کرنے کی اس طرح سبیل کریں کہ جب چاہا گردن کو خم دے کر اس قیدخانہ میں جھانک کر دیکھ لیا اور جب چاہا ان بوندوں سے کوئی عطر کشید کرکے دوسروں کو بھی اس کے لطف اور حظ میں شریک کرلیا۔ مشاہدہ، گہری نظر، سوچنے سمجھنے ا ورغور وفکر کی صلاحیت ہردوسرے تیسرے فرد میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے لیکن اس سے استفادہ آٹھواں دسواں تو کجا، سوواں ہزارواں فرد بھی نہیں کرپاتا۔ اس کی بنیادی وجہ ایک تو زندگی کی مصروفیات ہیں، دوسرا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس غوروفکر کرنے اور اس کے احاطہ میں دوسروں کو شریک کرنے کا بھلا کیا فائدہ!حالانکہ بہت سے کام ایسے ہیں جو وقتی طور پر بے فائدہ معلوم ہوتے ہیں لیکن آگے چل کر ان کی اہمیت وافادیت اس قدر مسلم ہوجاتی ہے کہ عام وخاص کے لیے اس سے نظریں چرانا ممکن نہیں رہتا۔ بسا اوقات یہ ایک مثال بن کر ابھرتی ہے اور دھیرے دھیرے اس کی چمک، روشنی اور چاشنی بکھرتے ہوئے کتنوں کی آنکھوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔
حفص نانی نے اپنے اطراف بکھری، اپنی زندگی کے دامن سے الجھی، اور اپنے سفرزیست کے ہر گام پر منتظر ننھی منی غیرضروری باتوں، کبھی ہنسانے اور کبھی رلانے والے چھوٹے موٹے واقعات،دنیا کی گہماگہمی کواپنے عمیق مشاہدات کے زیراثر لانے کے جتن میں لکھنے کی طرح ڈالی، تو ممکن ہے اسے انھوں نے وقتی طور پر اپنی ذہنی آسودگی یا اپنے دل کی کسی تمنا کی تسلی وشفی کے لیے تحریر کو بروئے کار لایا ہو لیکن پریس فار پیس پبلی کیشنز کے منتظمین اور ایک لحاظ سے اس کے روح رواں حضرات کے سوشل میڈیا اور آن لائن تحریروں پر گہری نظر کی کاریگری اور دستکاری نے حضص نانی کی ان مختصر لیکن پراثر، گھریلو چلبلی تحریروں کو ”کامیابی کا نشہ“ کی کتابی شکل میں مدون کرکے ایک طرح سے حیات جاودانی عطا کردی ہے۔ اس عمل نے حفض نانی کے قلم کو تقدیس و احترام کے ریشمی پیراہن میں ملبوس کرکے اس کے مقام ومرتبہ کو مزید بلند کردیا ہے۔ آن لائن بکھری کہانیوں کو صفحہ قرطاس پر اتار کر، دیدہ زیب و دلچسپ سرورق کی اوڑھنی اوڑھا کر اور مجلد کتاب کا لباس پہنا کر ان گھریلو تحریروں کو ایک لحاظ سے آرام دہ گاؤتکیوں اور نرم ودبیز قالینوں سے مزین تخلیق گاہوں کی زینت بنادیا ہے۔
پریس فار پیس پبلی کیشنز کی تازہ اشاعت حفص نانی کے قلم سے نکلی گھریلو اور چلبلی تحریروں پر مشتمل کتاب ”کامیابی کا نشہ“ ہے۔ ایک سوساٹھ صفحات پر 32کہانیاں سمیٹی گئی ہیں۔ ہر کہانی پڑھ کر اندازہ ہوتاہے کہ یہ سب کچھ تو ہماری اپنی زندگی میں نہ صرف بیت چکا ہے بلکہ اس کا مشاہدہ ہم اب بھی ہرگزرتے دن ایک تسلسل کے ساتھ کررہے ہیں۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ حفص نانی نے ان کو اپنی قوت مشاہدہ کے بل بوتے پر تحریر کا روپ دے کر اس میں کہیں مسکرانے اور کہیں رلانے والے رنگ بھر کر تصویر کی صورت ہمارے سامنے پیش کردیے ہیں۔ ہر تحریر کا موضوع بذات خود اس قدر دلچسپ ہے کہ وہ ازخود قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالیتاہے۔ ایک تحریر پڑھ لینے کے بعد دوسری تحریر کے مطالعے کی تحریک ابھرتی ہے اور پھر یہ تحریک آخری سٹیشن کی جانب گامزن سبک خرام ریل کی طرح ایک پٹڑی پر رواں دواں رہتی ہے۔ سفر سے لطف اٹھانے والے مسافروں کی خواہش ہوتی ہے کہ آخری سٹیشن کبھی نہ آئے اور یہی خواہش ”کامیابی کا نشہ“کے مطالعہ میں بھی اپنی پوری توانائی اور جولانی کے ساتھ موجود ہے۔ یہ حفص نانی کے قلم کی بڑی کامیابی ہے کہ انھو ں نے ”کامیابی کا نشہ“ تخلیق کرکے قاری کو اپنی تحریروں کے نشے میں بدمست و بدحال کردیا ہے۔ کونپلوں کی طرح کھلتی، شگوفوں کی طرح بکھرتی اور گُلوں کی طرح مہکتی ان ننھی منی تحریروں کا پس منظر اگرچہ حفص نانی کا اپنا سفرِ زیست اور اپنے ذاتی تجربات ہیں لیکن انھوں نے بڑی کامیابی اور چابکدستی کے ساتھ ہمیں بھی اپنے اس مشاہدہ میں پوری طرح شریک کرلیا ہے۔
پیش لفظ میں حفص نانی نے جس عمدہ انداز میں اپنا خیال قلم بند کیا ہے، اس کی خوب تعریف و توصیف بجا ہے۔ اگرچہ یہ انداز بڑے لکھاری جیسا نہیں، لیکن الفاظ کی بنت اور جملوں کی روانی صاف بتادیتی ہے کہ حفص نانی کا قلم لکھنے، اور تخلیق کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتاہے۔ پہلی کہانی ”توہین“ کے عنوان سے ہے۔ یہ بینک میں کھاتہ کھلوائے جانے کے دوران اردو میں دستخط کے لیے مجبور کرنے کی روداد پرمشتمل ہے۔ گہرے مشاہدے نے اس روزمرہ معمول کو بڑا خا ص انداز عطا کردیا ہے۔ اردو سے نفرت، انگریزی کا احساس کمتری، غلامانہ ذہنیت، بینک افسروں کے مغرورانہ رویوں، عام شہریوں سے تضحیک آمیز سلوک اور اس سلوک پر صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کو دبانے کے طرز عمل کو آشکار کرتی یہ کہانی ہرفردکی کہانی ہے۔ کسی بھی بڑے کہانی کار کی طرح حفص نانی نے بھی اس کو پرویا اور پھر دانے کے ساتھ ساتھ جڑے دانے سے بھری لڑی کی طرح سمو کر ہمارے سامنے پیش کرنے کی بڑی کامیاب کاوش کی ہے۔ یہی عمل ہر کہانی میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے۔
مجموعی طور پر ہر کہانی، پوری کتاب پیش لفظ سے اختتام تک پڑھے جانے اور سراہے جانے کے قابل ہے۔ یہ پریس فار پیس پبلی کیشنز کی بڑی عمدہ اشاعت ہے۔ یہ ادارہ نوآموز لکھاریوں کی عمدہ کتابیں ایک تسلسل کے ساتھ چھاپ رہاہے۔ اس طرح یہ ادب کی دوہری خدمت کرنے میں شب وروز مصروف عمل ہے۔ دھیرے دھیرے ادارے کے کریڈٹ پر بڑی شاندار کتابوں کی فہرست تیزی کے ساتھ ابھرتی چلی جارہی ہے۔ یہ بھی ادارے کی بڑی کامیابی ہے