تعویز والے عامل بابا۔ | تحریر : اقبال حسین اقبال
آپ چھلت بی بی سی چوک سے جنوب کی سمت جائیں تو تھوڑی ہی فاصلے پر ایک عامل بابا رہتا ہے۔کافی عرصے سے ان کے بڑے چرچے ہیں۔اکثر ان کے دربار میں قرب جوار سے خواتین بالخصوص غیر شادی شدہ عمر رسیدہ عورتوں کا جم غفیر لگا رہتا ہے۔بابے کا تعویز مجرب ہو نہ ہو مگر ان کا دھندا خوب چمکتا ضرور ہے۔
ایک دفعہ میرے دوست کے گھر میں ساس بہو کا تنازع چل رہا تھا۔وہ اس عالمی مسئلے سے تنگ آکر مجھ سے رابطہ کیا اور کسی تعویز والے عامل کے بارے میں دریافت کیا۔میں نے اسے سمجھایا کہ دنیا کے بڑے بڑے ماہرین نفسیات اور سائنس دان اس مسئلے کا حل نکالنے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔عامل بابا کیا جادو کر سکتا ہے۔خود عامل بابا کے گھریلو حالات ناقابل بیان ہیں۔اکثر عامل باباؤں کی کوئی اولاد نیک بخت نہیں ہوتی ہے۔انتہائی گھامڑ اور پرلے درجے کے بے نمازی لوگ ہوتے ہیں لہٰذا عامل کے پاس جانا بے سود ہے۔دوست بضد تھا بہرحال میں اسے لے کر بابا کے دربار میں چلا گیا۔
جب ہم دروازے پر پہنچے تو حسب روایت پانچ عورتیں موجود تھیں۔عامل ہمیں پہچان گیا اور معاملے کو سمجھتے ہوئے ایک کورے کاغذ پر جلدی جلدی سے چار لکیریں کھینچا اور لمبی موچھوں کے ساتھ ایک بھوت (جن) کا نقشہ بنا کر خواتین کے سُپرد کر دیا اور اُنھیں فوراً رخصت کیا۔ہم یہ ماجرا بڑی انہماک سے دیکھ رہے تھے۔عامل فوراً ہماری طرف متوجہ ہوا کیونکہ اسے جلدی سے دوسرا مرغ (دوست) کو بھی حلال کرنا تھا اور بتایا خواتین حساس ہونے کے ساتھ ساتھ عقل کی ضعیف بھی ہوتیں ہیں۔یہ عامل کی جھوٹی باتوں کو بھی حرف آخر سمجھتی ہیں۔یہ پانچوں خواتین پچھلے ایک گھنٹے سے میرا دماغ خراب کر رہی تھیں اور اب جاتے ہوئے پستانوں میں ہاتھ رگڑ رگڑ کر تیس (30) روہے دے گئیں ہیں۔اسی لیے میں نے بھی بڑی ہوشیاری سے جن (بھوت) کا نقشہ بنا کر دیا ہے اور ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ آپ پر آپ کی ساس نے جادو کروایا ہے۔اب ان بے وقوف عورتوں کا معاملہ سلجھنے کے بجائے روز الجھتا جائے گا اور ہمارا کام بلا تعطل چلتا رہے گا۔
عامل کی یہ باتیں سُن کر بے ساختہ میری ہنسی نکل آئی اور میں منھ پر ہاتھ رکھ زور زور سے قہقہے لگانے لگا۔دوست کی لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ کھلنے لگی۔اب دوست پر جعلی عامل کی حقیقت آشکار ہو گئی تھی۔اسے کنفرم ہو گیا تھا کہ بابا کمینہ ہونے کے ساتھ ساتھ ٹھہرکی بھی ہے۔بہرحال انھوں نے دوست کا حال سنا اور حسب روایت تعویز بنا کر دے دیا۔اس دن دوست بہت ساری تحائف لے کر آیا تھا لہٰذا بابا کی رال کچھ زیادہ ٹپکنے لگنی اور دوست کو آئندہ پھر سے آنے کی نصیحت بھی کی۔دوست رخصت ہوا ایک مہینے کے بعد میں نے دوست سے رابطہ کیا اور گھریلوے حالات کے بارے میں دریافت کیا تو دوست ہسنتے ہوئے کہنے لگا اب صورت حال پہلے سے زیادہ خطرناک ہے۔
ہمارے گاؤں میں اکثر عاملوں سے اسے باقاعدہ کاروبار بنایا ہوا ہے۔ان کے دربار میں شوہر کو مٹھی میں کرانے والی خواتین، محبوب کو قدموں میں لانے والے عاشق، نافرمان اولا کو تابع کرانے والے والدین، ساس کو قابو کرانے والی بہویں، جادو ٹونے سے نجات، کاروبار میں برکت، اچھی نوکری کی حصول، اولاد نرینہ کی خواہش مند جوڑے، مند پسند رشتے کی آرزو غرض ہر قسم کے مسائل میں جکڑے افراد کا رش لگا رہتا ہے اور یہ عامل بابا چٹکیوں میں مسائل ختم کرنے کے کھوکھلے دعوے کر کے دو دو ہاتھوں سے مجبور افراد کو خوب لوٹ رہے ہیں۔میں لوگوں کی ذہنی پستی کو دیکھ حیرت زرہ ہوں کہ یہ لوگ محنت کرنے اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے کے بجائے جعلی عاملوں پر بھروسا کرتے ہیں اور اپنی مال و عزت کو لٹا دیتے ہیں۔