مجھے دبئی جانا ہے۔ | تحریر: اقبال حسین اقبال
یہ زیادہ پرانی بات نہیں محض دو سال پہلے کا تذکرہ ہے۔مجھے دنیور سے گلگت کی طرف جانا تھا۔دن کے کسی پہر دنیور چوک پر کھڑا گاڑی کا انتظار کر رہا تھا۔دریں اثنا ایک نیلی رنگت کی گاڑی رکی۔گاڑی ایک نوجوان لڑکا چلاتا تھا انھوں نے مجھے گاڑی میں بٹھایا۔بندہ بڑا خوش گفتار تھا۔انھوں نے بتایا کہ میں پچھلے سات ماہ سے دبئی میں تھا وہیں کام کرتا تھا پانچ دن پہلے ہی میں دبئی سے گلگت آیا ہوں۔میں نے استفسار کیا لوگ دبئی جانے کے لیے بڑی کوششیں کرتے ہیں اور جانے کے بعد سالہا سال تک وطن واپس نہیں آتے ہیں مگر آپ کو اتنی جلدی واپس آنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟انھوں نے سر ہلایا، لمبی سانس لی اور دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا بڑے بھولے ہیں وہ لوگ جو گلگت جیسی جنت کے پارے کو چھوڑ کر جہنم کے کنارے خوشی تلاش کرنے چلے جاتے ہیں۔مجھے بھی یہی دھن دبئی لے کر گئی تھی۔جب میں دبئی پہنچا تو میرے خوابوں کا شیش محل ٹوٹ گیا۔میں کسی کمپنی میں بارہ بارہ گھنٹے کام کرتا تھا۔گرمی کی شدت ہوتی تھی۔ہم سرد علاقوں کے لوگ ہیں۔وہ گرمی مجھے جہنم کی گرمی معلوم ہوتی تھی۔کمپنی مالک نے مجھے ایک روپیہ نہیں دیا۔چھے ماہ گزر گئے تو میں نے چند درہم مانگے۔مالک کو بہت گرمی چڑھی اور میری تذلیل کیا۔تم پاکستانی کسی کام کے نہیں ہو۔ایک پائی کا کام نہیں ہوتا ہے تمہیں تو صرف مانگنا آتا ہے۔اس کی تذلیل آمیز گفتگو نے میرے دل کو بہت رنج پہنچایا۔
میرا جسم صدمے سے چُور چُور ہو چکا تھا۔ میں کمرے میں آکر بہت رویا۔اسی لمحے میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے واپس پاکستان جانا چاہیے۔میں ایک ہفتے کے بعد واپس اسلام آباد ائیر پورٹ پر اترا اور پاکستان کی پاک سرزمین پر سجدہ ریز ہوا۔میں بار بار مٹی کو چومتا تھا۔مجھے ایسا لگتا تھا جسے برسوں پہلے بچھڑا بیٹا اپنی ماں سے لپٹ سے کر رو رہا ہو۔میری یہ کیفیت دیدنی تھی۔جب سر اٹھا کے دیکھا تو لوگوں کا جم غفیر میرے آپس پاس کھڑا تھا۔میں نے وہیں قسم کھائی کہ میں پاکستان کی پاک سرزمیں کو چھوڑ کو دوبارہ کہیں نہیں جاؤں گا۔جو سکون جو عزت اور جو محبتیں پاکستان میں ہیں وہ دنیا کے کسی خطے میں نہیں۔وہ اداس لہجے میں باتیں کرتا جا رہا تھا اور میں خاموشی سے سنتا جارہا تھا۔یونہی ہماری منزل قریب آگئی۔
دنیور سے گلگت کا سفر بہت مختصر تھا مگر یہ مختصر سفر مجھے زندگی کا بڑا سبق دے گیا۔آج دیکھیں تو ہمارے بہت سے نوجوان پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک میں روزگار تلاش کرنا چاہتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم باہر جائیں گے تو ہمیں بالکل بھی کام نہیں کرنا پڑے گا اور الہ دین کا چراغ جلا کر امیر ہو جائیں گے تو بیٹا آپ کا یہ خیال بالکل شیخ چلی کے خیال جیسا ہے۔آپ دنیا میں جہاں بھی جائیں آپ کو کام کرنا پڑے گا۔آپ کو باس (افسر) کی باتیں سننا پڑیں گی۔آپ کو بھوک پیاس برداشت کرنا پڑے گا۔ورنہ روٹیاں درختوں پر نہیں پھلتی ہیں۔آسائشیں تلاش کرنے والا انسان مشکلات کی ایک لُو بھی برداشت نہیں کر سکتا ہے۔آپ دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں آپ کو کامیاب ہونے کے لیے ایک ہی فارمولے پر عمل کرنا پڑے گا اپنی ٹیلنٹ کی پہچان، مستقل مزاجی اور کام کام بس کام ۔۔۔ اس کے علاوہ کوئی موٹیویشنل سپیکر، کوئی بزنس مین یا کوئی تیسری قوت آپ کو کامیاب نہیں کرا سکتی ہے۔ (نگاہِ شاہین)