چین-کرغزستان-ازبکستان ریلوے ، ایک وژن جو حقیقت بننے جا رہا ہے۔ | تحریر : سارا افضل
شنگھائی تعاون تنظیم کے ستمبر ۲۰۲۲ کے سربراہ اجلاس میں چین-کرغزستان-ازبکستان ریلوے(سی کے یو) کی تعمیر کے منصوبے پر تعاون کا معاہدہ تقریبا 20 سال کے مذاکرات کے بعد طویل عرصے سے متوقع ریلوے لائن کی ترقی میں ایک نیا سنگ میل تھا۔ اس وقت اس کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ سی کے یو معاہدہ اس سال کے شنگھائی تعاون تنظیم سربراہ اجلاس کے اہم ترین نتائج میں سے ایک ہے۔ اس میں کثیر الجہتی پلیٹ فارم پر مبنی ایک مکمل تعاون کی جھلک پیش کی گئی ہے، جس میں سیکورٹی سے لے کر بنیادی ڈھانچے اور علاقائی اقتصادی تعاون تک سب شامل ہیں۔
۷ جون ۲۰۲۴ کو بیجنگ میں چین-کرغزستان-ازبکستان ریلوے منصوبے کے بین الحکومتی معاہدے پر دستخط کر دیئے گئے اور اس موقع پر تینوں ممالک کے صدور نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کرتے ہوئے مبارکباد بھی دی۔چینی صدر شی جن پھنگ نےکہا کہ یہ ریلوے چین اور وسطی ایشیا کے درمیان رابطے کا ایک اسٹریٹجک منصوبہ اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت تینوں ممالک کی تعاون کی کوششوں کا ایک تاریخی منصوبہ ہے۔اس بین الحکومتی معاہدے پر دستخط منصوبے کی تعمیر کے لئے ایک ٹھوس قانونی بنیاد فراہم کریں گے ، ریلوے کو ایک وژن سے حقیقت میں تبدیل کرنے نیز دنیا کے سامنے تعاون کو فروغ دینے اور مشترکہ ترقی کے حصول کی خاطر تینوں ممالک کے پختہ عزم کی عملی مثال بنے گا ۔شی جن پنگ نے کا کہنا تھا کہ چین تینوں ممالک اور ان کے عوام کو فائدہ پہنچانے اور خطے کی اقتصادی و سماجی ترقی کو فروغ دینے کے لیے کرغزستان اور ازبکستان کے ساتھ مل کر جلد از جلد اس منصوبےاور اس اسٹریٹجک کوریڈور کی تعمیر کے لیے بالکل تیار ہے۔
بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی مشترکہ تعمیر میں یہ ریلوے تینوں ممالک کا ایک فلیگ شپ منصوبہ ہے جو تکمیل کے بعد ایشیا کو یورپ اور خلیج فارس کے ممالک سے جوڑنے والا ایک نقل و حمل کاایک نیا راستہ بن جائے گا جس سے نہ صرف اس راستے کے ساتھ بلکہ مجموعی طور پر خطے کے ممالک کے مابین رابطے کو فروغ دینے اور اقتصادی اور تجارتی تبادلوں کو مضبوط بنانے میں بے حد مدد ملے گی اس ریلوے منصوبے سے چین اور یورپ کے درمیان ایک اندرون ملک ایک جنوبی راہداری کا آغاز ہوتا ہے جو مستقبل میں مشرق وسطیٰ تک پھیل سکتی ہے، جس سے روس اور قازقستان سے گزرنے والے موجودہ “نارتھ باؤنڈ” روٹ میں اضافہ ہوا ہے جس پر چین-یورپ مال بردار ٹرینیں اس وقت سفر کررہی ہیں اور مشترکہ طور پر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو روٹ کے ساتھ ایک نیا اسٹریٹجک یوریشیا لاجسٹک نیٹ ورک تشکیل دے رہی ہیں۔
نقل و حمل کے مرکز کے قیام سے کرغزستان اور ازبکستان کے ساتھ ساتھ بی آر آئی روٹ سے منسلک دیگر وسط ایشیائی ممالک کی معیشتوں میں مدد ملے گی۔ مبصرین کے مطابق، اس سے شمال مغربی چین کے سنکیانگ اویگور خود مختار خطے کے رابطے کو بھی فروغ ملے گا، جس کی سرحدیں قازقستان، کرغیزستان اور تاجکستان سمیت متعدد وسط ایشیائی ممالک سے ملتی ہیں اور اس کے کھلنے سے اقتصادی ترقی میں سہولت ملتی ہے۔ یہ ریلوے چین اور وسط ایشیائی ممالک کے مابین سب سے چھوٹا زمینی چینل بن جائے گا اور جنوبی ایشیا اور مشرق وسطی کے ممالک کی بڑی منڈیوں کو کھولے گا۔اس سے چین کے ساتھ تعاون کو مزید وسعت دینے ،خطے کے ممالک کے مابین دوستانہ تعلقات کو گہرا کرنے اور تمام ممالک کے طویل مدتی مفادات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔ مستقبل میں یہ روٹ ٹرانس افغان کوریڈور کے ذریعے جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی وسیع منڈیوں میں داخل ہونے کی سہولت مہیا کرےگا۔
اس منصوبے کے مکمل ہو کر فعال ہونے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی اثرات نئے کاروباری اداروں اور ہزاروں ملازمتوں کے سامنے آنے ، باہمی تجارت کے حجم کو دوگنا کرنے ، صنعتی تعاون میں توسیع ، سرمایہ کاری میں اضافہ اور سب سے اہم لوگوں کے معیار زندگی میں اضافے میں ظاہر ہوں گے۔چونکہ یہ ریلوے چین کو وسطی ایشیا سے ملانے والا مختصر ترین زمینی راستہ بن جائے گا اس لیے ٹرانزٹ کے اوقات میں بھی نمایاں کمی آئے گی اور علاقائی تجارت کو فروغ ملے گا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ کارگو کی نقل و حمل کا سالانہ حجم 15 ملین ٹن تک پہنچ سکتا ہےاور صارفین کوحتمی ترسیل کا وقت کم ہو کر سات دن رہ جائے گا۔ بلاشبہ اس اہم بنیادی انفراسٹرکچر منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز ایک تاریخی واقعہ ہے جو اس وسیع خطے میں اقتصادی اور نقل و حمل کے روابط کو مضبوط بناتے ہوئے ایک بہترین مستقبل کی تشکیل میں مددگار ہوگا۔
Very interesting points you have remarked,
thank you for putting up.