رشتوں کو اُستوار رکھیے۔ | تحریر: سحر شعیل
سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں
“یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی“
اس آیت مبارکہ سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کودیگر مخلوقات پر فوقیت دی گئی ہے اور یہ برتری نہ صرف ظاہری طور پر ہے بلکہ روحانی طور پر بھی ہے۔ انسان کی ظاہری شکل و شباہت میں بھی وہ تمام مخلوق سے برتر ہے اور عقل، سمجھ، شعور کے حوالے سے بھی وہ دوسری مخلوقات سے اعلیٰ ہے۔ ابن آدم کو اعلیٰ مقام عطا کرنے کے بعد تمام نعمتیں بھی اعلیٰ ترین عطا کی گئیں جن میں ایک نعمت رشتے ناطے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روئے زمین پر انسان کی واحد زنجیر یہ رشتے ہی ہیں۔
رشتے سماجی تعلقات کو مضبوط بناتے ہیں۔ یہ ہماری پہچان بناتے ہیں۔ معاشرے میں رہنا سکھاتے ہیں اور زندگی کو خوبصورت بناتے ہیں۔ یہی رشتے ہماری طاقت ہوتے ہیں اور یہی ہماری کمزوری بھی کیوں کہ ہم کبھی انھیں کھونا نہیں چاہتے۔ یہی رشتے مصیبتوں میں ہمیں مشکلات کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیتے اور ہمارا سہارا بنتے ہیں۔
دیکھا جائے تو رشتے یعنی تعلق دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک خون کے رشتے جو طے شدہ ہیں۔ ہر انسان ان سے جڑا ہے، جیسے کہ والدین، اولاد، بہن، بھائی اور اس طرح کے باقی خاندانی رشتے۔ ان کے لئے سب کے جذبات ایک سے ہوتے ہیں چاہے کوئی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ والدین، اولاد، اور بہن بھائیوں کے لئے محبت ایک سی ہوگی۔ ان کی تکلیف سے ہر دل میں ایک سی تڑپ ہوگی۔ انسان ان رشتوں سے بھاگ نہیں سکتا۔ تمام عمر انھیں ساتھ لے کر چلتا ہے۔ عین ممکن ہے کبھی زندگی میں اپنا آپ بھلا کر ان رشتوں کو برقرار بھی رکھنا پڑ سکتا ہے۔
رشتوں کی دوسری قسم بھی ان مول ہے۔ یہ رشتے دل کے رشتے ہوتے ہیں۔ احساس اور خلوص کے ہوتے ہیں۔ مروت کے ہوتے ہیں اور جذبات کے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ یہ رشتے بےنام ہوتے ہیں، مگر پھر بھی دل و جان سے نبھائے جاتے ہیں۔ دنیا میں وفا کی بڑی سے بڑی مثالیں انہی دل کے رشتوں سے ملتی ہیں۔ زندگی میں یہی دل کے رشتے ہمیں جینا سکھاتے ہیں۔ یہی رشتے پاؤں کی زنجیر بھی بن جاتے ہیں۔ جس طرح خون کے رشتوں سے تعلق نہیں توڑا جاسکتا اسی طرح دل کے رشتوں سے دامن چھڑانا بھی ناممکنات میں سے ہے۔
جون ایلیا نے اس بارے میں خوب کہا ہے
اب جو رشتوں میں بندھا ہوں تو کھلا ہے مجھ پر
کب پرند اڑ نہیں پاتے ہیں پروں کے ہوتے
رشتے انسان کو قید کر لیتے ہیں۔ تمام عمر وہ ان کی قید سے نکل نہیں پاتا۔ کبھی خون کے رشتے آزماتے ہیں تو کبھی دل کے رشتے آزمائش میں ڈال دیتے ہیں۔ دل کے رشتے شاید تمام رشتوں سے بر تر ہوتے ہیں۔ یہ بے نام اور گمنام رشتے زندگی کا اصل حسن ہیں۔
رشتوں کو نبھانا دراصل ایک ہنر ہے جو تجربے کی بنیاد پر حاصل ہوتا ہے۔ رشتوں کو نبھانے میں ہی انسان کی صحیح پرکھ بھی ہوتی ہے۔ انسان فطری طور پر دوسرے سے مختلف ہے اور مزاج اور طبیعتوں میں یہ تضادبسا اوقات رشتوں کی راہ میں حائل ہو جاتا ہے۔ اسی تضاد کی بدولت انسان میں نظریاتی اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ سوچ اور مزاج کا مختلف ہونا جو تضاد پیدا کرتا ہے وہی رشتوں میں دراڈ کا سبب بھی بنتا ہے۔ یہاں ہماری غلطی یہ ہوتی ہے کہ ہم رشتوں سے زیادہ اپنی انا کو اہمیت دیتے ہیں اور بعض معاملات میں دل سے مان بھی لیتے ہیں کہ دوسرا فریق درست ہے مگر اپنی انا کی تسکین کے لئے زبان سے اقرار نہیں کرتے۔ یوں رویے اور لفظ رشتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
یہاں ایک اور چیز کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو رشتوں کو نبھانے میں رکاوٹ بنتی ہے وہ ہے ہمارا انفرادی رویہ اور رشتوں میں بد دیانتی۔ رشتوں میں بد دیانتی سے مراد یہ ہے کہ ہم زبان سے اقرار کریں اور دل میں اس کے منافی جذبات ہوں۔ مثال کے طور پر آج کل ہم جس لفظ کا استعمال رشتوں میں سب سے زیادہ کرتے ہیں وہ ہیں بھائی، دوست ہر دوسرا شخص بھائی ہے دوست ہے مگر کیا ہم واقعی انھیں بھائیوں یا دوستوں کا درجہ دیتے ہیں؟؟منہ پر بھائی کہنے کے بعد اپنے مفاد کو بھائی سے پہلے رکھتے ہیں۔ سامنے دوستی کا دم بھرتے ہیں اور اس رشتے کے تقدس کی دھجیاں بکھیرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ہر جگہ تعلق اور رشتوں کی آڑ میں اپنا مطلب نکالنا ہماری اجتماعی برائی بن گئی ہے۔ رشتے پھول کلیوں کی مانند ہوتے ہیں اور خود غرضی اور بناوٹی رویوں کی دھوپ ان کی تازگی کو کملا دیتی ہے۔ رشتوں میں بد دیانتی ان کو پاکیزہ نہیں رہنے دیتی اور انسانیت کی معراج کو بھی ٹھیس پہنچاتی ہے۔
رشتوں میں ایمان داری کرنا بہت ضروری ہے۔ زبان سے اقرار کر لینا لازمی ہے۔ دل میں ہر رشتے کا احترام ہونا لازمی ہے اور اپنے عمل سے رشتوں کی پاکیزگی کا خیال رکھنا ناگزیر ہے۔ اگر ہم یہ سب کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ ہم نے ہر رشتے کو نبھا لیا۔ رشتوں کو نبھانے کے لئے بعض اوقات جھکنا پڑتا ہے اور رویوں میں لچک پیدا کرنی پڑتی ہے ورنہ بہت سے خوب صورت تعلقات انا کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ رشتوں کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے والوں کو اس کی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے اور نتیجے کے طور پر وہ زندگی میں تنہا رہ جاتا ہے۔ اپنی ذات پر یقین اور اعتماد گنوا دیتا ہے۔ ایسا شخص شاید زندگی میں بظاہر کامیاب نظر اتا ہو مگر وہ قلبی راحت سے دور ہی رہتا ہے۔
لہذا ضروری ہے کہ زبان سے پکارے گئے ہر رشتے کو اس کے مقام پر رکھا جائے اور ان میں خیانت نہ کی جائے۔ تاکہ بشریت کو اس کی معراج تک پہنچایا جا سکے ۔