AB

شہید آوینی اور پاکستانی جمہوریت۔ | ️تحریر عارف بلتستانی

دنیا میں اسلامی جمہوریہ کی اصطلاح کا استعمال سب سے پہلے پاکستان کیلئے کیا گیا۔ یہ شہید آوینی﴿ایک ایرانی محقق﴾ کی تحقیق ہے۔ یوں تو “اسلامی جمہوریت” کی اصطلاح آج کل ہر جگہ زیرِ بحث ہے۔ نوجوانوں کے اذہان میں طرح طرح کے سوالات ہیں۔ اسلامی جمہوریت ہے کیا؟ آیا اسلامی جمہوریت نامی کوئی اصطلاح موجود بھی ہے؟ آیا اسلامی جمہوریت مغرب سے لی گئی ہے؟ آیا اسلام اور مغربی جمہوریت کے مرکب کا نام اسلامی جمہوریت ہے؟ آیا پاکستان میں اسلامی جمہوریت ہے؟ ان سوالوں کو مد نظر رکھ کر قلم اٹھانے کی کوشش کی ہے۔

مجھے اِن سوالات کے حوالے سے شہید آوینی کی یاد آ رہی ہے۔ وہ بڑے معروف آدمی تھے۔ اُن کی وجہ شہرت اُن کی اپنی صلاحیتیں بنیں۔ وہ ایک محقق، لکھاری، نظریہ پرداز، دانشور، فلمساز، ادیب اور اعلیٰ پائے کے نقاد بھی تھے۔ مغرب کی آئیڈیالوجی کی کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد اُس کے ناقد ہوئے۔ ہیروڈوٹس، والٹیئر ، مونٹیسکو، روسو، ڈیوڈ ھیوم، ڈیوڈ ھلڈ، جان لاک، مکیاویلی، آلن دوبنوا، چارلس ڈارون، ویل ڈیورانٹ، سگمنڈ فرائڈ، آگسٹ کانٹ، ماکس وبر، ریچارڈ جیسی شخصیات کے افکار و نظریات پر انہوں نے قلم اٹھایا۔ چنانچہ جمہوریّت کے اسلامی ہونے کا بھی انہوں نے جائزہ لیا۔

شہید آوینی اپنی فارسی کتاب “آغازی بر یک پایان” کے باب “جمہوریت یا اسلامیت” میں لکھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کا استعمال سب سے پہلے پاکستانی حکومت نے 1956ء میں اپنے ملک کے لئے کیا ہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ “اسلامی جمہوریت” انقلاب اسلامی ایران کے سیاسی ثمر کے طور پر کوئی تصور نہیں ہے جو جمہوریت اور اسلام کے ان دو اجزاء کے ملاپ سے حاصل کیا گیا ہو، اور اس لیے اسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہوں کہ آج کی دنیا میں “اسلامیت” ایک مکمل حکومتی نظام کی طرح، معروف نہیں ہے بلکہ لوگ اسےخیالی سمجھتے ہیں، جب کہ “جمہوریت ” کے بارے میں ایسا نہیں ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاسی مستقبل اور جمہوریت کے بارے میں شہید لکھتے ہیں کہ جدید دنیا کے سیاسی تجربات بالخصوص پچھلی تین صدیوں میں مکمل طور پر اس سمت اور وضاحت میں رہے ہیں کہ جمہوری حکومتوں میں عوام کس طرح مودجود رہے ہیں۔ اس بنا پر “اسلامی جمہوریہ” کی ترکیب میں “اسلامیت” کی صفت اس امتزاج کے مفہوم کی وضاحت اور تبیین کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتی۔۔۔ چاہے یا نہ چاہے عملی طور پر جو کچھ ہوگا اس سے حکومت پاکستان جو کہ جمہوریت کی بدترین قسموں میں سے ایک ہے، غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوگی۔” اس حقیقت کے علاوہ کہ “جمہوریت” وہی ” ڈیموکریسی” کے مترادف نہیں ہے اور اس لیے جو لوگ ان اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے اپنے معنی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے بہتر ہے کہ پہلے ان اصطلاحات کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلق پر بات کریں۔

جو لوگ کہتے ہیں حقیقت میں اسلامی جمہوریت نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ اس کو رد کرتے ہوئے شہید آوینی یوں رقمطراز ہوتے ہیں کہ “اسلامی جمہوریت” کوئی ایسی اصطلاح نہیں ہے جو جمہوریت اور اسلامیت کی ترکیب سے نکلی ہو، اور ایسا تصور شروع سے ہی ایک ناقابل تلافی غلطی پر مبنی ہے۔ “اسلامی جمہوریت” ایک اصطلاح ہے جسے اس کے بانی نے “اسلامی حکومت (جیسا کہ دنیا اسے قبول کرنے کی استطاعت رکھتی ہے) کے لیے وضع کی ہے اور اگرچہ لفظ “اسلامی جمہوریت” کی اصطلاح اس نظام کی حدود و قیود کی وضاحت کرتی ہے۔ آج جیسے ہی “جمہوریت” کی اصطلاح کا سامنا کرتا ہے انسانی ذہن فوراً پارلیمنٹیرینزم اور مختلف قسم کی جمہوری حکومتوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ لیکن جب “اسلامیت” کی اصطلاح کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اسے کوئی واضح اور قطعی تعریف نہیں ملتی، کیونکہ اسلام، حکومتی نظام کے طور پر کسی تاریخی تجربے سے نہیں گزرا ہے۔ اگر صدر اسلام میں گزرا بھی ہے تو مدون نہیں ہے اور جدید دنیا میں اسلامی نظام حکومت کی حیثیت سے متعارف نہیں ہوا ہے۔

آپ لفظ جمہوریت کی تعریف کرنے کے ساتھ اس کے مبہم اور فریب ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ “جمہوریت” “ڈیمو” اور “کریٹس” کا مرکب ہے۔ “ڈیمو”کا مطلب ہے عوام اور “کریٹس” کا مطلب حکومت ہے۔ لیکن اس سوال کا سامنا ہے کہ عوام کون ہے؟ اور ان لوگوں سے جو حکومت کرنے والے ہیں، ان سے کیا مراد ہے؟ اگر اس چیز کو مد نظر رکھے تو “جمہوریت” کی اصطلاح ایک مبہم لفظ اور فریب کے علاؤہ کچھ نہیں بن جائے گا۔

شہید اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ؛ “جمہوریت اور دیگر سیاسی نظاموں میں فرق کی بنیاد بظاہر یہ ہے کہ جمہوریت میں ریاست کے تین بنیادی ادارے یعنی عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ خود مختار ہوتے ہیں نیز جمہوریت میں عوامی نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ موجود ہوتی ہے۔” لیکن ان جمہوری حکومتوں کی بنیاد انسان محوری پر ہے۔ اس میں حاکمیت اور قانون سازی کا مبداء و منشاء انسان کو حاصل ہے۔ یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جہاں سے مغربی اور اسلامی جمہوریت میں واضح فرق معلوم ہوتا ہے۔ ڈھانچے میں دونوں ایک ہے لیکن اسلامی جمہوریت میں حاکمیت اور قانون سازی کا حق صرف خدا وند متعال کی ذات کو ہے۔

 شہید آوینی “نظریہ میثاق اجتماع” جسے “جان لاک اور روسو” نے پیش کیا ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انسانی معاشرہ ایک سماجی معاہدے کی بنیاد پر بنایا گیا جس کا مقصد عوام کے مفادات کا تحفظ ہے۔ آج دنیا کی سیاسی حکومتیں جیسے لبرل ڈیموکریسی، مارکسزم، سوشلزم، نیشنلزم کی بنیاد ہیومنزم پر ہے۔ لیکن ان دو تین صدیوں کے تاریخی تجربے میں “عوام” اور “حاکمیت” کے تصور کی تبیین اور وضاحت کرنے میں مدد نہیں کر سکیں۔

شہید اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ” یہ مسَلَّم ہے کہ اسلامی حکومت کی تشکیل کے لیے ہمارے پاس کوئی عملی اور تاریخی تجربہ موجود نہیں ہے۔ سوائے صدر اسلام میں مدینہ حکومت کے، وہ بھی مدون نہیں ہے۔” (یہ یاد رہے کہ انقلاب اسلامی ایران سے پہلے تحریک آزادی ہند میں مسلمانوں نے اسلام کے نام پر ایک الگ وطن معرض وجود میں لایا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان نام رکھا ہے۔ شہید آوینی حکومت اسلامی کی ضرورت کے بارے میں آیت اللہ خمینی کی کتاب “حکومت اسلامی” سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں۔

“موجودہ طرز کی حکومتوں سے اسلامی حکومتوں کا طرز جدا ہے۔ اسلامی حکومت کا طریقہ نہ تو استعدادی ہوتا ہے۔حکومت اسلامی مطلقہ بھی نہیں ہےبلکہ مشروط ہے، لیکن مشروطہ سے جو عقلاً معنی متعارف ہیں، اس معنی سے مشروط مراد نہیں ہے کہ جس میں قانون اکثریت کی رائے کا تابع ہوا کرتا ہے۔ بلکہ مشروط سے مراد یہ ہے کہ حکومت کرنے والے افراد قرآن و حدیث کے شرائط کے پابند ہونگے۔ یعنی قوانین اسلام کے پابند ہوں۔ اس لحاظ سے حکومت اسلامی در حقیقت لوگوں پر الہی حکومت کا نام ہے۔

اسلامی حکومت اور مشروطہ سلطنتی جمہوری میں یہی بنیادی فرق ہے کہ لوگوں کے یا بادشاہ کے نمایندے قانون بناتے ہیں اور اسلام میں وضع قانون کا حق صرف خداوند عالم کو ہے۔ تنہا شارع مقدس وضع قانون کا حق رکھتا ہے۔ کسی اور کو یہ حق نہیں ہے اور نہ کوئی قانون حکم شارع کے بغیر نا فذ العمل ہو سکتا ہے۔ اسلام کے سارے قوانین مسلمانوں کے پسندیدہ ہیں اور مسلمان اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے حکومت کا کام آسان ہے۔ مشروطہ سلطنتی یا جمہوری کے مخالف کہ ان کے نمایندے اکثر اپنی من پسند چیز کو قانون کا نام دے کر لوگوں پر نافذ کر دیتے ہیں ۔ اسلام کی حکومت در حقیقت قانون کی حکومت ہے اس حکومت میں حاکمیت کا انحصار خدا پر ہے۔ خدا کا حکم تمام افراد اور تمام حکومتوں پر یکساں لاگو ہے۔ تمام افراد حتی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس قانون کے تابع ہیں یہ وہی قانون ہے جو خدا کی طرف سے نازل ہوا اور نبی کی زبان سے بیان ہوا ۔ (خمینی، حکومت اسلامی، ص 30)

شہید آوینی اس کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ” اگرچہ عوامی بیعت یا انتخابات سے ولایت (حکومت کرنے) کی صلاحیت ثابت نہیں ہو سکتی، البتہ یہ ہے کہ جب تک عوامی سطح پر اتفاق رائے نہ ہو حکومت عملی شکل اختیار نہیں کرسکتی۔” یعنی اسلامی جمہوریت میں مشروعیت کے ساتھ مقبولیت بھی شرطِ لازم ہے۔ شہید لکھتے ہیں کہ، شیخ الرئیس (ابو علی سینا) کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ آپ اپنی کتاب “شفا” کے باب “خلافت” میں لکھتے ہیں کہ حکمرانی کے لیے حاکمیت اور خودمختاری کا حق پیغمبر خدا کے جانشین کا ہے۔ یہ لوگوں کی بیعت اور معاہدے سے متاثر نہیں ہوتا ہے، لیکن بیعت مشروط ہے، جب تک اس کا ادراک نہ ہو جائے، ظاہری حکومت اور خلافت حقیقی نہیں ہو گی۔”

دین اور سیاست کی عینیت کے بارے میں متعجبانہ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کچھ لوگ دین کے فقہی احکام اور انفرادیت ہونے پر زور تو دیتے ہوئے کہتے ہیں دین کا انسان کے ساتھ ذاتی اور انفرادی مسئلہ ہے اس کا اجتماع سے کوئی تعلق نہیں ہے اور دین میں سیاسی و سماجی معاملات کے بارے میں ایک دم سکوت کا روہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایسا جیسا سیاست کا دین سے کوئی تعلق ہی نہ ہو جبکہ دین عین سیاست اور سیاست عین دین ہے۔ جسطرح مذہب میں عبادی معاملات ہے۔ اسی طرح اجتماعی، معاشی، سماجی، اخلاقی اور سیاسی معاملات بھی دین کا حصہ ہے۔ کیونکہ دین اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔

اسی بیانئے کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے نومبر 1945ء میں پشاور میں اپنے خطاب میں کہا تھا ” آپ نے سپاس نامے میں مجھ سے پوچھا ہے کہ کون سا قانون ہو گا۔ مجھے آپ کے سوال پر سخت افسوس ہے۔ مسلمانوں کا ایک خدا، ایک رسول اور ایک کتاب ہے  یہی مسلمانوں کا قانون ہے اور بس۔ وہی اسلام پاکستان کے قانون کی بنیاد ہوگا اور پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہوگا۔ پاکستان کا آئین قرار داد مقاصد کی روشنی میں اقتدار اعلی کا مالک خالق دو جہاں ہے۔ نیز یہاں کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہو سکتی۔

لیکن بدقسمتی سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور انکے ہمراہیوں کے بعد پاکستانی حکمران نے پاکستانی سیاست کو اسلام کے بجائے دوبارہ ہیومنزم اور لبرل ڈیموکریسی کے طرز پر سیاست کا آغاز کیا۔ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے شہید آوینی اپنی کتاب “آئینہ جادو” کے باب “گزارشی شراب زدہ دربارهٔ سینمای پاکستان” میں لکھتے ہیں کہ ” پاکستانی دوسروں سے زیادہ اور بہت بڑے دھوکے کا شکار ہوا ہے اور یہ سوچنے لگا ہے کہ اسلام کو جمہوریت سے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ذوالفقار علی بھٹو نے کہتے ہیں کہ “اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے اور عوام طاقت کا سر چشمہ ہے۔” شہید مزید لکھتے ہیں کہ پاکستان میں شریعت اور سیاست کا تعلق اتنا گہرا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے مخالف نواز شریف جیسے سیاست دان لامحالہ طور پر اپنے چہرے اسلام کے پردے کے پیچھے چھپا کر رکھتے ہیں اور پاکستان میں اپنی سماجی مقبولیت کی تحفظ کے لیے “اتحاد بین المسلمین” کے شعار استعمال کرتے ہیں۔

ہم نے اپنے “شہید آوینی اور پاکستانی سینما” نامی کالم میں شہید کی کتاب “آئینہ جادو” سے یہ اقتباس پیش کیا تھا جس میں آپ لکھتے ہیں کہ “اگر چہ پاکستان نے آزادی حاصل کر لی ہے لیکن پاکستانیوں نے ابھی تک (فکری، معاشی، سیاسی و ثقافتی) آزادی حاصل نہیں کی ہے ۔ انہوں نے پاکستان میں سماجی دانشوروں کے فقدان کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ “پاکستان میں ’’دانشور طبقہ‘‘ ابھی تک ایک ’’ طاقتور سماجی گروہ‘‘ کے طور پر سامنے نہیں آیا۔

آخر میں ہماری بھی یہی رائے ہے کہ جب تک سماج میں دانشوروں کو اُن کا جائز مقام نہیں دیا جائے گا ، عوام میں بھی فکری استقلال نہیں آئے گا اور ملک بھی حقیقی معنوںمیں خود مختار نہیں ہو پائے گا۔اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی مشکل حقیقی معنوں میں کسی دانشورو طبقے کا موجود نہ ہونا ہے۔ بغیر کسی معیار کے ہر آدمی ڈاکٹر، پروفیسر، عالم دین ۔۔۔بنا ہوا ہے۔یہی حال ہماری پاکستانی جمہوریت کا بھی ہے، انسانی حقوق، انسانی آزادی اور جمہوری شعور کے بغیر ہم ایک جمہوری ملک میں رہ رہے ہیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link