ڈیڑھ ارب آبادی والا چین ، تعلیم کی شرح بڑھانے میں کیسے کامیاب ہوا۔؟ | تحریر : سارا افضل ، بیجنگ
یکم اکتوبر ۱۹۴۹ کو جب عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد رکھی گئی تو اس کی ۸۰ فیصد آبادی ناخواندہ تھی اور اسکول جانے کی عمر کے ۲۰ فیصد سے زیادہ بچے اسکولوں میں داخل نہیں ہوتے تھے لیکن ۲۰۲۰ تک چین کی ۹۷ اعشاریہ ۱۵ فی صد آبادی خواندہ تھی ۔ ایشیا پیسیفک خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں چین کا تناسبِ خواندگی قدرے بلند ہے ۔ تقریباً ڈیڑھ ارب آبادی والے ملک میں تعلیمی شرح میں ہونےوالی اس غیر معمولی ترقی کے پیچھے چینی حکومت کی 70 سالہ کوشش ہے جو تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جدید طریقوں سے استفادہ کرنے ، مربوط منصوبہ بندی اور اس شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کے ذریعے حاصل کی گئی ہے ۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے باقاعدہ قانون سازی کی گئی کیونکہ اس وقت چین میں غربت کی شرح بھی بہت زیادہ تھی اس لیے خاص طور پر غربت زدہ علاقوں میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے باقاعدہ قوانین بنائے گئے گئی اور اس سلسلے میں۱۹۸۶ میں چین نے لازمی تعلیم سے متعلق جو قانون نافذ کیا اس کے تحت سب کے لیے نو سالہ لازمی تعلیم مفت فراہم کی جانے لگی۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے غربت سے متاثرہ علاقوں میں تعلیم کو بہتر بنانے کے مشن پر زور دیا جس کے بعد ” ہر بچہ تعلیم حاصل کر سکے گا” کے تصور کو حقیقت بننے میں صرف ۲۲ سال لگے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا کہ اس کے بعد اس شعبےمیں مزید سہولت یا بہتری کا سلسلہ رک گیا بلکہ ۲۰۰۸ میں چین نے ٹیوشن اور متفرق فیسوں کو ختم کر دیا اور پورے چین میں اسکول جانے والے تمام بچوں کے لیے نو سال کی مفت لازمی تعلیم عام کر دی گئی۔
مزید برآں، نہ صرف چین کی مقامی حکومتیں اسکولوں کی تعمیر میں مصروف رہیں بلکہ خواندہ افراد نے رضاکارانہ طور پر بچوں خصوصاً مالی طور پر کمزور گھرانوں کے بچوں کے لیے اعلی تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کی اور ان کے بنیادی تعلیم کے بعد آگے پڑھنے اور اعلی تعلیم حاصل کرنے کے خواب کو پورا کرنے میں اپنی جانب سے ہر ممکن اعانت کی ۔ چین میں ایسی کئی روشن مثالیں ہیں کہ جہاں اساتذہ نے اپنے شہروں کے آرام کو چھوڑ کر دور دراز علاقوں میں جا کر بچوں خصوصاً بچیوں کو مفت تعلیم دی کیونکہ اسکولز قائم ہو گئے تھے مگر اس وقت شرحِ خواندگی اتنی نہیں تھی کہ ملک بھر کے ہر اسکول میں ہر مضمون کے ماہر اساتذہ کو بھرتی کیا جاسکے لہذا کچھ اساتذہ رضاکارانہ طور پر ان اسکولز میں طلبہ کی تعلیم کے سفر کو جاری رکھنے میں انہیں مدد دیتے اور اعلی تعلیم کے حصول کی خاطر شہروں میں جا کر پڑھنے کے لیے ان دور افتادہ علاقوں میں رہنے والے والدین کو قائل بھی کرتے تھے ۔
اساتذہ کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ، ۲۰۰۶ میں ، وزارت تعلیم اور وزارت خزانہ کی مالی اعانت سے ، دیہی اسکولوں میں پڑھانے کے لئے بڑے پیمانے پر نئے اساتذہ کو شامل کرنے کے لئے “خصوصی پوسٹ پروجیکٹ” شروع ہوا۔ ۲۰۰۶ سے ۲۰۱۹ تک، گاؤں کے پرائمری اسکولوں میں یونیورسٹی گریجویٹ اساتذہ کی شرح ۵ فیصد سے بڑھ کر ۴۹ فیصد ہوگئی ، جس میں ۴ لاکھ ۲۰ ہزار سے زیادہ “خصوصی پوسٹ ٹیچرز” ایک ہزار سے زیادہ غیر ترقی یافتہ شہروں میں موجود ۳۰ ہزار اسکولوں میں اپنی خدمات فراہم کرنے لگے ۔
انٹرنیٹ کی تیز رفتار ترقی اور فائیو جی کی چین میں ہر علاقے تک دستیابی کے باعث حالیہ برسوں میں، آن لائن تعلیم نے مساوی تعلیم کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے . وزارت تعلیم کی جانب سے غربت سے متاثرہ علاقوں میں اسکول کی تعلیم میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی حوصلہ افزائی کی گئی تاکہ موثر تعلیم سے غربت کے خاتمے کو یقینی بنایا جا سکے۔ ملک کے تقریبا ہر کونے کا احاطہ کرنے والے زیادہ سے زیادہ بیس اسٹیشنز کے ساتھ ، دیہی علاقوں کے طلبہ بھی آن لائن کلاس روم میں اپنے شہری ساتھیوں کے ساتھ ہی یکساں معیار کی بہترین تعلیم حاصل کر سکتے ہیں ۔
سب کے لئے معیاری تعلیم فراہم کرنے کے تصور کو حقیقت بنانے اور چینی نشاۃ ثانیہ کے خواب کی تعبیر کے لیے چین نے اپنی نوجوان نسل پر سرمایہ کاری کرنے اور ہر شعبے میں انہیں آگے بڑھنے کے لیے لیے ہر ممکن سہولت فراہم کرنے میں کوئی کسر نہین اٹھا رکھی اور یہ اس لیے تاکہ آنے والے وقت میں ایک ترقی یافتہ اور مثالی چین کی باگ ڈور باصلاحیت ، ذہین ، روشن خیال اور ہنر مند چینیوں کے ہاتھ میں ہو۔