کیا ہم قومی مفاد پر متحد ہو کر بدلتے پاکستان کا خواب حقیقت بنا سکتے ہیں، یا یہ بھی ایک کاغذی وعدہ بن کر رہ جائے گا؟ |تحریر: ڈاکٹرافضل رضوی
پاکستان اپنی 78 سالہ تاریخ کے سب سے نازک دور سے گزر رہا ہے۔ سیاست میں محاذ آرائی، معیشت میں غیر یقینی اور اداروں پر عوام کا کمزور ہوتا اعتماد—ایسے میں “میثاقِ استحکامِ پاکستان” ایک موقع ہے کہ ہم ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر قومی مستقبل کا مشترکہ لائحہ عمل طے کریں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ میثاق محض ایک اور سیاسی نعرہ ثابت ہوگا یا پاکستان کے لیے ایک نیا آغاز بنے گا؟‘‘
میثاقِ استحکامِ پاکستان ایک جرات مندانہ قدم ہے، مگر اس کی کامیابی کا دارومدار قیادت کی نیت، صوبوں کی شراکت، اور میڈیا کی بصیرت پر ہے۔ اگر یہ منشور عملی شکل اختیار کر لے تو پاکستان ایک نئے سیاسی، معاشی، اور قومی باب میں داخل ہو سکتا ہے۔ میثاقِ استحکامِ پاکستان کی تجویز ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب وطن عزیز تاریخ نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف بیرونی عناصرسے نبردآزما ہے اور دوسری طرف اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ اگرچہ ماضی قریب میں ہماری مسلح افواج کے جانبازوں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر وطن کا کامیابی سے نہ صرف دفاح کیا بلکہ دشمن کو ناکوں چنے بھی چبوائے۔باوجود اس کے وطن عزیز جس دوراہے پر کھڑا ہے یہاں اسے قومی سوچ ہی نکال سکتی ہے کیونکہ جب تک پوری قوم باہمی رضامندی سے اس وطن کی سمت کا درست تعین نہیں کرے گی تویہ وطن اس کشتی کی مانند، جو بنھور میں گر کا ہچکولے کھاتی ہے اور پھر خدا نا خواستہ اس کی نذر ہو جاتی ہے،ہو جائے گا۔ اللہ نہ کرے کہ ملک ِ پاکستان کو کبھی ایسی صورتِ حال سے گزرنا پڑے!
ایسی کسی ناگہانی کیفیت سے بچنے کے لیے ساری سیاسی قیادت اور قوم کو علامہ اقبالؒ کی اس فکر کے مطابق چلنا ہو گا کہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
نیز بانی پاکستان کے فرمان کو کہ
“ہم سب کو اپنی صفوں میں اتحاد، ایمان اور قربانی کی روح پیدا کرنی ہے۔”
کو پیش نظر رکھ کرمستقبل میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو نا ہو گا تاکہ آنے والی نسلیں ہمیں یاد رکھ سکیں۔
اس حقیقت سے انکار نہٰں کیا جاسکتا کہ پاکستان اپنے قیام کے 78 برس بعد بھی ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں استحکام ایک خواب اور عدم اعتماد ایک حقیقت ہے۔ سیاسی بحران، معاشی بدحالی اور ادارہ جاتی کمزوریوں نے ہمیں بار بار پیچھے دھکیل دیا۔ ایسے میں “میثاقِ استحکامِ پاکستان” کی تجویز سامنے آتی ہے—ایک قومی معاہدہ، ایک وعدہ کہ ہم اپنے ذاتی اور جماعتی مفاد کو ایک طرف رکھ کر ملک کو مستحکم کریں گے۔ مگر سوال یہ ہے: کیا یہ بھی محض ایک اور وعدہ ہوگا یا حقیقت کا روپ دھارے گا؟
دنیا کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پائیدار ترقی صرف دو ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے—سیاسی تسلسل اور پالیسی کا استحکام۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ہر حکومت پچھلی حکومت کے منصوبے ختم کر کے خود کو نیا آغاز سمجھتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف معیشت کو تباہ کرتا ہے بلکہ قوم کے حوصلے کو بھی توڑ دیتا ہے۔
“بدلتا پاکستان” محض نعرہ نہیں، ایک عملی ایجنڈا ہونا چاہیے۔ ایسا پاکستان جہاں ادارے آئین کے تابع ہوں، احتساب سب کے لیے یکساں ہو، معیشت کا پھل عام آدمی تک پہنچے، اور تعلیم و ٹیکنالوجی ترقی کا اصل محرک بنیں۔لیکن سب سے بڑی رکاوٹ وہی پرانی بیماری ہے، سیاسی تقسیم اور باہمی عدم اعتماد، جب تک حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو دشمن سمجھتی رہیں گی، کوئی بھی میثاق محض کاغذ کا ٹکڑا رہے گا۔ پھر بھی، بحران ایک موقع بھی ہوتا ہے۔ آج کا سیاسی و معاشی دباؤ ہمیں ایک نادر موقع فراہم کررہا ہے کہ ہم ماضی سے سیکھیں اور ایک نئے قومی معاہدے پر دستخط کریں جو آئین اور عوام دونوں کے سامنے جوابدہ ہو۔
اگر واقعی ہم ’’بدلتا پاکستان‘‘ چاہتے ہیں تو ہمیں تین قدم فوری اٹھانے ہوں گے۔
اس معاہدے کو پارلیمنٹ سے منظور کر کے آئندہ آنے والی ہر حکومت کو اس کا پابند بنایا جائے:آئینی تحفظ
ادارہ جاتی شمولیت: فوج، عدلیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی سب اس کا حصہ ہوں
عوامی اعتماد:عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ یہ میثاق ان کے مستقبل کی ضمانت ہے، نہ کہ کسی طبقے کا کھیل۔ پاکستان کا سوال یہ نہیں کہ استحکام ممکن ہے یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہماری قیادت اور قوم اس کے لیے قربانی دینے کو تیار ہے؟ اگر ہم آج متحد نہ ہوئے تو آنے والی نسلیں ہمیں اس موقع کو ضائع کرنے پر کبھی معاف نہیں کریں گی۔