آسٹریلیا کا فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان۔ | تحریر: افضل رضوی

آسٹریلین وزیر اعظم انتھونی البانیزی نے ایک تاریخی تبدیلی کے طور پر اعلان کیا ہے کہ آسٹریلیا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ستمبر 2025 میں فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر باضابطہ تسلیم کرے گا۔ اس طرح آسٹریلیا ان  ممالک کی صف میں شامل ہو گیا ہے جو اسرائیل اور فلسطین کے طویل عرصے سے جاری تنازعہ کے حل کے لیے پرامن دو ریاستی حل کی حمایت کر رہے ہیں۔

البانیزی نے اس فیصلے کو خطے میں “تشدد کے انسداداور امن کی امید بحال کرنے کی ایک پیش رفت” قرار دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تسلیم کرنے کی شرط ہوگی کہ فلسطینی اتھارٹی حکومت میں حماس کو شامل نہ کرے، غیر عسکریت پسندی کی راہ اپنائے، ایک سال کے اندر جمہوری انتخابات کروائے، اور عسکری سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنے والی پالیسیوں کا خاتمہ کرے۔

وزیر اعظم نے کینبرا میں کہا یہ ایک ایسے مستقبل کے بارے میں ہے جہاں اسرائیلی اور فلسطینی امن اور سلامتی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ لوگ خونریزی سے تنگ آ چکے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سفارت کاری کو ایک حقیقی موقع دیا جائے۔

اسرائیلی-فلسطینی تنازعہ موجودہ دور کے سب سے پیچیدہ اور طویل عرصے سے جاری جغرافیائی سیاسی مسائل میں سے ایک ہے، جس کے خطے کی سلامتی اور عالمی سفارت کاری پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ فلسطینی ریاست کے تسلیم کرنے کا معاملہ عالمی سیاست، سیکورٹی خدشات، اور انسانی ہمدردی کے پہلوؤں سے جڑا ہوا ہے۔ آسٹریلیا کا یہ فیصلہ اپنی خارجہ پالیسی میں ایک نیا باب رقم کرنے جارہا ہے، جو سفارتی مشاورت اور دیرپا امن کی کوششوں کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف آسٹریلیا کے سفارتی تعلقات پر اثر انداز ہوگا بلکہ شرق الاوسط میں امن کی کوششوں پر دیگر ممالک کی پالیسیوں پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔

وزیر اعظم البانیزی کا یہ اعلان ایسے وقت میں آیا ہے جب غزہ میں جاری تشدد اور انسانی بحران نے عالمی سطح پر گہری تشویش پیدا کی ہے۔ تسلیم کرنے کو سخت شرائط سے منسلک کر کے، آسٹریلین حکومت ذمہ دارانہ حکمرانی اور پرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے تاکہ مذاکرات اور مفاہمت کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جا سکے۔

یہ اعلان کینبرا اور دیگر مغربی دارالحکومتوں کے درمیان خاموش سفارتی بات چیت کے کئی مہینوں کے بعد سامنے آیا ہے۔ آسٹریلیا، فرانس، کینیڈا، اور برطانیہ جیسے ممالک کے ساتھ شامل ہوگا جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا امکان رکھتے ہیں۔

وزیر خارجہ پینی وونگ نے کہا آسٹریلیا کا فلسطین کو تسلیم کرنا ایک ایسے قابل عمل، جمہوری فلسطینی ریاست کو فروغ دینے کی جانب قدم ہے جو اسرائیل کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کا خواہاں ہے۔ یہ کئی دہائیوں کی ناکام بات چیت کے بعد سفارت کاری کو مضبوط بنانے کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔

ماہرین اس ہم آہنگی کو اسرائیل پر سفارتی دباؤ بڑھانے کی کوشش سمجھتے ہیں تاکہ وہ مذاکرات کی میز پر واپس آئے۔

یہ فیصلہ ملک کے اندر شدید بحث و مباحثے کا باعث بنا ہے۔ لیبر پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ اور حقوق انسانی کے علمبرداروں نے اسے اخلاقی اور حکمت عملی کی ضرورت قرار دیا ہے، جبکہ اپوزیشن کوالیشن نے اسے مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اس سے انتہا پسندوں کی ہمت بڑھے گی۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا آسٹریلیا دہشت گردی کو انعام دے رہا ہے جبکہ غزہ میں یرغمالی صورتحال برقرار ہے۔اس کے جواب میں وزیر اعظم البانیزی نے کہا  نیتن یاہو انسانی بحران کو نظر انداز کر رہا ہے جو محصور علاقے میں جاری ہے۔

سفارتی ماہرین کا ماننا ہے کہ آسٹریلیا کا یہ فیصلہ دیگر ہچکچاہٹ محسوس کرنے والے ممالک کو بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے، جس سے دو ریاستی حل کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔ تاہم، وہ خبردار کرتے ہیں کہ سیاسی اصلاحات اور حقیقی امن عمل کےبغیر، ایسے علامتی اقدامات صرف سفارتی تاریخ کا حصہ بن کر رہ سکتے ہیں اور زمینی حقائق پر کوئی قابلِ دید اثر نہیں ڈال سکیں گے۔

آسٹریلیا کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ بین الاقوامی سفارت کاری میں ایک جرات مندانہ اور معنی خیز قدم ہے۔ یہ کینبرا کی اس عزم کا مظہر ہے کہ وہ شرائط کے تحت امن کو فروغ دے، فلسطینی خود ارادیت کی حمایت کو عملی تقاضوں، حکمرانی، اور سیکورٹی کے پہلوؤں کے ساتھ متوازن رکھے۔

وزیر اعظم البانیز نے اس امید کا اظہار کیا ہماری خواہش ہے کہ ایک ایسا مستقبل ہو جہاں اسرائیلی اور فلسطینی امن اور سلامتی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکیں ، ایک ایسا مستقبل جس کا دنیا کو بہت عرصے سے انتظار ہے۔

اگرچہ اس راستے میں چیلنجز موجود ہیں، آسٹریلیا کا یہ موقف عالمی مباحثے اور کوششوں کو نئے سرے سے متحرک کر سکتا ہے تاکہ دنیا کے سب سے پرانے تنازعات میں سے ایک کا حل ممکن بنایا جا سکے۔ آخر کار، یہ اقدام ایک امید افزا تصور کی عکاسی کرتا ہے، جہاں اسرائیلی اور فلسطینی باہمی شناخت اور انصاف کی بنیاد پر امن و آشتی قائم کر سکیں۔

افضل رضوی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link