DRAC

پاک و ہند جنگیں اور تنازعات۔| تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

سن 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد جنم لینے والے دو خودمختار ریاستیں،  بھارت اور پاکستان  اپنے وجود کے پہلے دن سے ہی نہ صرف سیاسی بلکہ عسکری سطح پر بھی ایک دوسرے کے مدِمقابل آئے۔ تقسیم کے عمل میں بے شمار انسانی جانوں کا ضیاع، ہجرت  اور مذہبی بنیادوں پر تشدد نے دونوں ممالک کے درمیان ایک دیرپا دشمنی کی بنیاد رکھ دی۔ خاص طور پر ریاست جموں و کشمیر کا مسئلہ جو تقسیم ہند کے وقت ایک مسلم اکثریتی مگر ہندو مہاراجہ کی زیر قیادت ریاست تھی، دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کا مستقل محور بن گیا۔

تقسیم کے فوراً بعد کشمیریوں  نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ کشمیر بھارت میں ضم نہ ہو جائے۔ اس صورتحال میں قبائلی لشکر، ہندوستان  کی پشت پناہی سے کشمیر میں داخل ہوئے۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے بھی  اس حملے کے بعد بھارت سے مدد طلب کی اور ریاست کو بھارت میں ضم کر دیا۔ اقوام متحدہ نے قرارداد 47 کے تحت رائے شماری کی تجویز دی مگر آج تک یہ عمل مکمل نہ ہو سکا۔ یہ جنگ نہ صرف جغرافیائی تقسیم بلکہ ایک نظریاتی تصادم کی علامت بن گئی۔

1965 کی جنگ میں پاکستان نے آپریشن جبرالٹر کے تحت کشمیر میں بغاوت کی حمایت کی جس پر بھارت نے بھرپور جوابی حملہ کیا۔ لاہور، سیالکوٹ، اور راجھستان کے محاذ پر خونریز لڑائیاں ہوئیں۔ یہ جنگ ٹینکوں اور توپخانے کے لحاظ سے دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی جنگ مانی جاتی ہے۔ تاشقند معاہدہ کے ذریعے جنگ کا خاتمہ ہوا، مگر دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی مزید گہری ہو گئی۔

1971ء کی جنگ، کشمیر کے بجائے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے سیاسی بحران سے جنم لیتی ہے۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی اکثریتی فتح کے باوجود اقتدار کی منتقلی میں ناکامی  اور آپریشن سرچ لائٹ جیسے  مظالم نے بھارت کو مداخلت پر مجبور کیا۔ دو ہفتوں کی شدید جنگ کے بعد مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج نے بھارتی فوج اور مکتی باہنی کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ 90,000 سے زائد پاکستانی فوجی قیدی بنے، جو پاکستان کی عسکری تاریخ کی سب سے بڑی شکست ہے۔

ہندوستان  کی جانب سے دراندازی کر کے کارگل کے کچھ بلند پہاڑی علاقوں پر قبضہ کیا گیا  جس پر پاکستان  نے عسکری اور سفارتی سطح پر بھرپور ردِ عمل دیا۔ امریکہ اور عالمی دباؤ کے باعث پاکستان کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ یہ جنگ پاکستانی فوج کے اندرونی نظام، حکومتی فیصلہ سازی اور سفارتی ناکامی کی عکاس تھی۔ نواز شریف نے بعد ازاں اس جنگ کو ایک بڑی غلطی قرار دیا۔

رَن آف کچھ تنازع  سن 1965ء میں رونما ہوا،  صحرائی علاقے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان محدود جنگ، جس میں دونوں فریقین نے جزوی کامیابیاں حاصل کیں۔ سیاچن یا  تنازع  1984-2003تک جاری رہا۔ دنیا کے بلند ترین محاذِ جنگ سیاچن   پر جاری تنازع، جہاں بھارت نے آپریشن میغدوت کے ذریعے اہم پہاڑی چوکیوں پر قبضہ کیا تھا۔ اس سرد جنگ نے ہزاروں فوجیوں کی جانیں لے لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیاں هوائی و زمینی جھڑپیں بھی ہوئیں۔1987 کی فوجی مشقیں، 1999 کا اٹلانٹک طیارہ واقعہ، پٹھان کوٹ، اوڑی اور بالاکوٹ جیسے واقعات دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں بار بار اضافہ کرتے رہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیاں تنازع کا مرکز  کشمیر  ہے یا کچھ اور؟ اگرچہ کشمیر اکثر ان جنگوں کی بنیادی وجہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، مگر 1971 کی جنگ بتاتی ہے کہ داخلی سیاسی مسائل، نسلی تقسیم  اور وفاقی ناکامی بھی جنگ کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس میں  سفارتی ناکامیاں شامل ہیں۔  دونوں ممالک اکثر عالمی پلیٹ فارمز پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے رہے۔ کسی مستقل اور دیرپا حل کی طرف پیش رفت نہ ہونا اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کی ناکامی بھی ہے۔ اسٹبلشمنٹ اور دیگر   اداروں کی خودمختاری اور سیاسی مداخلت بھی تنازعات کا باعث ہے۔  خاص طور پر پاکستان میں اسٹبلشمنٹ  کا سیاست میں عمل دخل، خارجہ پالیسی کی سمت متعین کرنے میں نمایاں رہا ہے  جس کے نتیجے میں تنازعات کا عسکری حل بار بار ترجیح بنایا گیا۔ ان تنازعات کی وجہ سے  ملک میں معاشی اور انسانی نقصان بھی ہورہا ہے۔  ان جنگوں نے لاکھوں افراد کی جان لی، معیشت کو نقصان پہنچایا  اور عوام کو مہنگائی، بے یقینی اور انتہاپسندی کا سامنا کرنا پڑا۔

پاک و ہند جنگیں اور تنازعات دراصل ایک تاریخی، جغرافیائی، نظریاتی اور نفسیاتی تصادم کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ جب تک دونوں ممالک ماضی کے بوجھ سے باہر نکل کر حقیقت پسندی اور عوامی فلاح کو ترجیح نہیں دیتے، تب تک جنگیں تو رک سکتی ہیں، مگر کشیدگی کبھی ختم نہیں ہو گی۔ خطے کے پائیدار امن کے لیے دونوں ممالک کو عسکری مقابلہ آرائی کی بجائے معاشی، ثقافتی اور انسانی رشتوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link