چراغ نبوت کے امین اصحاب رسول اللہ ۔| تحریر: ابو خالد بن ناظر الدین
کائنات کے اُفق پر اگر کوئی طبقہ، حضراتِ انبیاءِ کرام علیہم السلام کے بعد سب سے بلند، مقدس اور برگزیدہ نظر آتا ہے، تو وہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مبارک گروہ ہے۔ یہ وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جنہوں نے براہِ راست آفتابِ رسالت کی کرنوں سے اپنے دل و دماغ کو منور کیا۔ جن پر وحی الٰہی کے فیوض و انوار بغیر کسی حجاب کے براہِ راست چمکے، جنہوں نے دینِ مبین کو خود صاحبِ وحی و قرآن ﷺ سے سیکھا، اس پر عمل کیا، اور اسے اس امت تک ٹھیک ٹھیک اسی صورت میں پہنچایا، جس طرح چشمۂ نبوت سے پھوٹا تھا۔
ان عظیم المرتبت ہستیوں نے خُلقِ عظیم کے پیکرِ کامل ﷺ کی صحبت سے اپنی سیرت و کردار کو سنوارا، اپنے اخلاق و عادات کو آئینۂ محمدی ﷺ میں دیکھ کر نکھارا، اور جب رضائے الٰہی کا معاملہ آیا، تو اپنے مال و جان، عزت و آبرو، وطن و قبیلہ، الغرض سب کچھ اپنے محبوب ﷺ کے قدموں میں نچھاور کر دیا۔ ان کی وفا و اطاعت کی مثالیں تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھی گئیں، اور یہ مثالیں قیامت تک آنے والوں کے لیے درسِ وفا و فداکاری بن گئیں۔
ایسے عظیم المرتبت افراد کے بارے میں قرآنِ حکیم، نبی مکرم ﷺ اور ائمۂ امت کے ارشادات کیا ہیں؟ اس کا اجمالی جائزہ ذیل میں پیش ہے، تاکہ ان مقدس ہستیوں کی قدر و منزلت کا کچھ اندازہ ہو سکے۔
صحابی کی تعریف
صحابی کون ہے؟ اس بارے میں جلیل القدر محدث، حافظ ابن حجر عسقلانیؒ اپنی مشہور کتاب نُزهة النظر بشرح نخبة الفكر میں فرماتے ہیں:”هو من لقي النبي ﷺ مؤمناً به ومات على الإسلام، ولو تخللت ردة في الأصح.” (نزهة النظر، ص: ۱۰۷، مكتبة البشرى، كراچی) صحابی وہ ہے جس نے حالتِ ایمان میں نبی کریم ﷺ سے ملاقات کی ہو، اور اسلام پر ہی وفات پائی ہو، اگرچہ درمیان میں مرتد ہو گیا ہو (لیکن وفات سے قبل توبہ کر کے اسلام کی طرف لوٹ آیا ہو)۔
یہ تعریف اپنے اندر ایسی جامعیت اور دقت رکھتی ہے کہ علماءِ امت کے نزدیک نہایت مقبول و راجح سمجھی جاتی ہے، اور اسے صحابیت کے تعیّن کے لیے ایک معیار کی حیثیت حاصل ہے۔
عظمتِ صحابہؓ قرآنِ کریم کی روشنی میں:
اگر انسان کسی کی عظمت و رفعت کا حقیقی معیار جاننا چاہے تو اس کے لیے سب سے معتبر و مستند میزان خود قرآنِ کریم ہے، جو نہ کسی مبالغے کا شکار ہوتا ہے، نہ کسی جھوٹ یا تعصب کا گزر وہاں سے ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی فضیلت و عظمت پر سب سے بڑی اور روشن مہر خالقِ کائنات کے اس آخری اور ابدی کلام نے ثبت فرمائی ہے، جس کے الفاظ میں نور ہے، اور مضامین میں حقانیت۔ یہ وہ مقدس جماعت ہے، جس کے دلوں کی صفا، کردار کی رفعت، اور قربِ الٰہی کا ذکر خود ربِ ذوالجلال نے اپنے کلامِ پاک میں بار بار فرمایا۔ ان کے چہرے سجدوں کے آثار سے روشن، ان کے دل ایمان سے لبریز، اور ان کی سیرت اللہ کی رضا کے سانچے میں ڈھلی ہوئی نظر آتی ہے۔
ذیل میں قرآنِ حکیم کی چند وہ آیات پیش کی جاتی ہیں جن میں صحابۂ کرامؓ کی شانِ بلند کو آسمانی الفاظ میں بیان کیا گیا ہے
(1) ﴿ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا… ﴾ (الفتح: 29) محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں، وہ کفار پر سخت اور آپس میں نہایت رحم دل ہیں۔ تم انہیں دیکھو گے کہ رکوع و سجود میں مصروف رہتے ہیں، وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی ہیں۔
یہ آیت صحابہؓ کی اجتماعی صفات کا ایک نہایت جامع و درخشندہ مرقع ہے۔ ان کی خشیت، اطاعت، باہمی شفقت، اور رضا الٰہی کی لگن کو قرآن نے اجاگر کر کے، گویا ان کی عملی زندگی کو قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے آئینہ بنا دیا۔
(2) ﴿ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ﴾ (التوبہ: 100)۔ مہاجرین و انصار میں سے جو سب سے پہلے ایمان لائے، اور جو لوگ نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کرتے رہے، اللہ ان سب سے راضی ہوا، اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
یہ آیت نہ صرف صحابہؓ کی عظمت پر مہرِ تصدیق ہے، بلکہ ان سے محبت رکھنے اور ان کی اتباع کرنے والوں کے لیے بھی ابدی کامیابی کی بشارت ہے۔ رضائے الٰہی ایک ایسی دولت ہے جس کے سامنے دنیا کی تمام نعمتیں ہیچ ہیں، اور صحابہؓ کو یہ دولت بلاواسطہ عطا ہوئی۔
(3) ﴿ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ﴾ (المجادلہ: 22)۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو لکھ دیا ہے، اور اپنی طرف سے روحانی تائید و نصرت عطا کی ہے۔ کیا اس سے بڑھ کر کوئی سندِ شرف ہو سکتی ہے کہ ایمان کو دلوں پر ثبت کر دینے کا کام خود اللہ کرے؟ یہ اللہ کی خاص عنایت ہے جو ان عظیم لوگوں کو حاصل ہوئی، جنہوں نے ہر آزمائش میں ثبات کا مظاہرہ کیا۔
(4) ﴿ أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى ۚ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ ﴾ (الحجرات: 3) یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے خوب جانچ پرکھ کر منتخب کر لیا ہے، ان کے لیے مغفرت ہے، اور عظیم اجر۔ یہاں امتحانِ الٰہی کا ذکر اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ ان کے دل عام دل نہ تھے، بلکہ وہ خاص انتخاب کے ذریعے چنے گئے، جن میں تقویٰ، اخلاص اور وفاداری کا جوہر بھرا گیا۔ یہ محض چند آیات ہیں، ورنہ قرآن کا ایک بڑا حصہ صحابہؓ کی عظمت، فداکاری، قربانی اور خلوصِ ایمانی پر شاہد ہے۔ جن ہستیوں کے بارے میں خالقِ ازل نے خود فرمایا کہ “میں ان سے راضی ہوں” — ان کی محبت ایمان کا جزو، اور ان کی توہین نفاق کی علامت بن گئی۔
صحابہ کرامؓ صرف تاریخی شخصیات نہیں، بلکہ وہ آئینے ہیں جن میں ہم اپنے ایمان کو پرکھ سکتے ہیں، وہ چراغ ہیں جن سے ہدایت کا راستہ روشن ہوتا ہے، اور وہ درخت ہیں جن کی جڑیں رسالت کے قلب میں پیوست اور شاخیں تا قیامت پھیلی ہوئی ہیں۔
عظمتِ صحابہؓ احادیث و آثار کی روشنی میں۔
قرآنِ حکیم کے بعد اگر کسی چیز کو شریعت میں قطعی دلیل اور حجت کا درجہ حاصل ہے، تو وہ احادیثِ نبویہ ہیں، جو آفتابِ نبوت ﷺ کی زبانی ارشاد ہونے والے وہ گوہرِ نایاب ہیں جن میں نہ صرف احکامِ الٰہی کی تفصیل ہے، بلکہ صحابۂ کرامؓ کی شان و عظمت کا درخشندہ بیان بھی موجود ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ، جو شارحِ قرآن، مفسرِ کامل اور معلمِ انسانیت ہیں، آپ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں جا بجا اپنے ان رفیقانِ باصفا کے مناقب بیان فرمائے، ان کی تعریف و تحسین فرمائی، اور آنے والوں کو ان کی قدر و منزلت کا درس دیا۔ ذیل میں چند ایسی احادیث و آثار پیش کیے جاتے ہیں، جو صحابہ کرامؓ کے بلند مقام کی روشن دلیل ہیں: (1)«لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي أَوْ رَأَى مَنْ رَآنِي» (ترمذی، باب ما جاء فی فضل من رأى النبی ﷺ، ج ۲، ص ۲۲۵)
وہ مسلمان جو مجھے دیکھے، یا اُس شخص کو دیکھے جس نے مجھے دیکھا (یعنی صحابی یا تابعی)، اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔
کیا یہ اعزاز معمولی بات ہے کہ صرف ایک نظرِ نبوی کی نسبت انسان کو جہنم سے محفوظ کر دے؟ یہ حدیث ان عظیم ہستیوں کے مرتبے کو واضح کرتی ہے جنہوں نے خود نبی ﷺ کی زیارت کی، یا ان کے نورانی صحبت یافتہ صحابہؓ کو پایا۔
(2) صحابہؓ: امت کے بہترین افراد۔ «أَكْرِمُوا أَصْحَابِي، فَإِنَّهُمْ خِيَارُكُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ» (مشکاة المصابیح، باب مناقب الصحابہ، ص ۵۵۴)
میرے صحابہ کا اعزاز و اکرام کیا کرو، کیونکہ وہ تم میں سب سے بہتر ہیں، پھر ان کے بعد والے، پھر ان کے بعد والے۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے تین بہترین نسلوں کا ذکر فرمایا، جن کی قیادت خود صحابہ کرامؓ کرتے ہیں۔ یہ تربیت یافتگانِ نبوت نہ صرف امت کے بہترین طبقے ہیں، بلکہ ان کے ادب و احترام کو ایمان کا تقاضا قرار دیا گیا ہے۔
(3) جلیل القدر صحابی حضرت سعید بن زیدؓ قسم کھا کر فرماتے ہیں: «وَاللهِ لَغُبَارٌ يُصِيبُ وَجْهَ رَجُلٍ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي سَفَرٍ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ وَلَوْ عُمِّرَ عُمْرَ نُوحٍ» (جمع الفوائد، ج ۲، ص ۲۰۱، بحوالہ مقالاتِ حبیب، ج ۱، ص ۲۳۰) اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی شخص کے چہرے پر پڑنے والا غبار، تم میں سے کسی کے عمرِ نوح جتنے اعمال سے بہتر ہے۔ یہی وہ روحِ صحابیت ہے جو زمان و مکان کی تمام فضیلتوں پر غالب آتی ہے۔ نبی کی صحبت ایک ایسا مقام ہے جس کے سامنے صدیوں کی تنہا عبادت بھی ماند پڑ جاتی ہے۔
صحابہ کا انتخاب ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت کردہ ایک اثر میں صحابۂ کرامؓ کے قلوب کی قدر و منزلت یوں بیان کی گئی: «إِنَّ اللهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ ﷺ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِهِ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ، يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ.» (الشرح الدرر المضیة، ج ۲، ص ۲۸۰، بحوالہ: مقامِ صحابہ، ص ۴۸)۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں کے دلوں پر نگاہ ڈالی تو محمد ﷺ کا دل سب سے بہتر پایا، پس انہیں اپنی رسالت کے لیے منتخب فرمایا۔ پھر باقی تمام قلوب میں سے صحابہ کے دلوں کو سب سے بہتر پایا، چنانچہ انہیں نبی کی رفاقت اور دین کی نصرت کے لیے چن لیا۔
اس اثر سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہؓ کا انتخاب کوئی انسانی فیصلہ نہ تھا، بلکہ خود ربِّ جلیل کا انتخاب تھا۔ ان کے دل پاک تھے، اخلاص سے بھرے ہوئے، اور دینِ اسلام کے لیے مکمل طور پر وقف تھے۔
احادیث و آثار کی یہ جھلکیاں ہمیں صحابہ کرامؓ کے اس مقام و مرتبہ سے روشناس کراتی ہیں جسے نہ زمانہ مٹا سکتا ہے، نہ تعصب دھندلا سکتا ہے۔ یہ وہ نفوسِ مقدسہ ہیں جنہیں نبی آخر الزماں ﷺ کی صحبت ملی، جن کے دل اللہ نے منتخب فرمائے، اور جن کے عمل ایمان کا معیار قرار پائے۔
ان کی محبت ایمان ہے، ان کی توہین نفاق ہے، اور ان کے نقشِ قدم پر چلنا ہدایت کی ضمانت ہے۔
صحابۂ کرامؓ کے متعلق اہلِ سنّت کا عقیدہ۔
اہلِ سنّت والجماعت کا وہ درخشندہ قافلہ، جس نے کتاب و سنت کو فہمِ صحابہؓ کی روشنی میں سمجھا، ہمیشہ سے اس بات پر متفق رہا ہے کہ صحابۂ کرامؓ ایمان، صدق، عدالت، دیانت اور اتباعِ نبوی ﷺ کا بلند ترین معیار ہیں۔ ان کی ذاتیں پاکیزہ، ان کے دل صاف، اور ان کے اعمال خیر کی بنیاد ہیں۔ علمائے اہلِ سنت نے ہر دور میں اس اصولِ اعتقادی کو واضح کیا ہے کہ صحابہ کرامؓ کی تنقیص، طعن یا توہین ایمان کے منافی ہے، اور ان کا احترام و تزکیہ واجب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکابر محققین نے اپنے عقائدی متون میں صحابہ کے مقام کو اصولِ دین میں شمار کیا ہے۔
محقق ابن ہُمامؒ “المسامرہ” میں لکھتے ہیں: “واعتقادُ أهلِ السنةِ والجماعةِ تَزْكِيَةُ جميعِ الصَّحابةِ وُجُوبًا بإثباتِ العدالةِ لكلِّ منهم، والكفُّ عن الطعنِ فيهم، والثناءُ عليهم.” (المسامرة، ص: ۱۳۲) اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ تمام صحابہؓ کا تزکیہ کرنا واجب ہے، ان سب کے لیے عدالت ثابت ماننا ضروری ہے، ان پر طعن سے زبان روکنا اور ان کی تعریف و تحسین کرنا واجبِ ایمان ہے۔
علامہ ابن تیمیہؒ “شرح عقیدہ واسطیہ” میں فرماتے ہیں: “ومن أصول أهل السنة سلامةُ قلوبهم وألسنتهم لأصحاب رسول الله ﷺ.” (شرح العقيدة الواسطية، ص: ۴۰۳)
اہلِ سنت کے اصولوں میں سے ہے کہ وہ صحابۂ رسول ﷺ کے بارے میں اپنے دلوں اور زبانوں کو صاف رکھتے ہیں۔
یہ دونوں عبارتیں اس بنیادی اصول کی یاد دہانی کراتی ہیں کہ اہلِ ایمان کے دل صحابہؓ کے لیے بغض و نفرت سے پاک اور زبانیں ان کے ذکرِ خیر سے معطر ہونی چاہئیں۔
صحابہؓ: معیارِ حق و صداقت۔
رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابہ نہ صرف دین کے اولین حامل و ناقل ہیں، بلکہ وہ معیارِ حق بھی ہیں۔ ان کی ایمانی کیفیت، فہمِ دین، اور اتباعِ رسول ﷺ، بعد والوں کے لیے میزانِ ہدایت ہے۔ قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں بارہا اس حقیقت کی تصریح کی گئی ہے۔
قرآنِ کریم گواہ ہے: ﴿ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ﴾ (البقرۃ: 137)۔ اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم (یعنی صحابہؓ) ایمان لائے ہو، تو وہ یقیناً راہِ راست پر آ گئے۔ یہ آیت صحابہؓ کے ایمان کو ہدایت کا معیار قرار دے رہی ہے۔ صحابہ کا ایمان محض ایک تجربہ نہ تھا، بلکہ وہی آئینۂ حق تھا جس میں بعد والے اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ ﴿ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ ﴾ (البقرہ: 13) ایمان لاؤ جیسے دوسرے (یعنی صحابہؓ) ایمان لائے ہیں۔
یہاں بھی”الناس”سے مراد اولین اہلِ ایمان، یعنی صحابہ کرامؓ ہیں، جن کا اندازِ ایمان معیارِ صداقت قرار پایا۔
فرامینِ نبوی ﷺ سے وضاحت۔ رسولِ اکرم ﷺ نے نہ صرف صحابہ کی صحبت کو معیارِ فضیلت قرار دیا، بلکہ ان کی اقتدا کو نجات کا ذریعہ بھی فرمایا۔ حدیث: أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ، فَبِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمْ اهْتَدَيْتُمْ۔ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے، ہدایت پاؤ گے۔
یہ حدیث اس امر پر صریح دلیل ہے کہ صحابہ کی ہر سمت ہدایت کی روشنی ہے۔ ان کی راہ، راہِ رسول ﷺ ہے، اور ان کے طرزِ عمل میں ضلالت کا کوئی گزر نہیں۔
قال رسول الله ﷺ: «كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا وَاحِدَةً». قَالُوا: مَن هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي» (ترمذی، باب افتراق الأمۃ، ج: 2، ص: 93)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کے تمام فرقے جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے۔ عرض کیا گیا: وہ کون سا ہے؟ فرمایا: وہ گروہ جو میرے طریقے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہوگا۔ یہ حدیث صحابہؓ کی اقتداء کو نجات کا معیار قرار دے رہی ہے، اور اس سے ہٹنے والے گروہوں کے انجام کو واضح کر رہی ہے۔
اہلِ سنّت کا عقیدہ نہ مبالغہ پر مبنی ہے، نہ تقلیدی جوش پر، بلکہ یہ قرآن، حدیث اور اجماعِ امت کی بنیاد پر قائم ہے کہ: تمام صحابہؓ عادل و موثق ہیں۔ ان پر طعن و تشنیع ایمان کے خلاف ہے۔ ان کی اقتداء میں ہدایت، اور ان کی مخالفت میں ضلالت ہے۔ اس عقیدے کی پاسداری ایمان کی علامت، اور انحراف گمراہی کی علامت ہے۔
مشاجراتِ صحابہؓ اور اہلِ سنت کا مؤقف۔
تاریخِ اسلام کے بعض ابواب ایسے بھی آئے، جن میں صحابۂ کرامؓ کے مابین اختلاف رائے اس قدر بڑھا کہ نوبت قتال تک پہنچ گئی۔ ان واقعات کو اہلِ علم نے ہمیشہ انتہائی ادب، احتیاط اور فہم و بصیرت کے ساتھ دیکھا اور ان پر “مشاجراتِ صحابہؓ” کا عنوان رکھا — جو اس حقیقت کا اعلان ہے کہ ہم ان مبارک ہستیوں کے درمیان پیش آنے والے اختلافات کو معمولی، سطحی یا عیب پر مبنی جھگڑے نہیں سمجھتے، بلکہ انہیں اجتہادی اختلافات مانتے ہیں، جن کا محرک محض رضائے الٰہی اور حق کی تلاش تھا۔ ایسے نازک اور باریک مسئلے پر امت کا طریقۂ کار ہمیشہ سے خاموشی، احترام اور ان حضرات کے لیے دعا رہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے کہ ائمہ دین، محدثین اور اولیاء کرام نے اس بابت کیا طرزِ فکر اپنایا:
(1) ۔ علامہ قرطبی رحمہ اللہ ان واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: “یہ جائز نہیں کہ کسی صحابی کی طرف قطعی اور یقینی طور پر خطا منسوب کی جائے، کیونکہ ان حضرات نے اجتہاد سے کام لیا اور ان کا مقصود صرف اللہ کی رضا تھا۔ ہم پر لازم ہے کہ ان کے اختلافات میں سکوت اختیار کریں اور ہمیشہ ان کا ذکر خیر کے ساتھ کریں، کیونکہ صحابیت ایک عظیم مرتبہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا اور خبر دی کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے اور انہیں معاف فرما چکا ہے۔” (تفسیر قرطبی، ج: 16، ص: 322)۔ یہ کلمات ایمان کی سلامتی اور عقیدے کی پاکیزگی کا اعلان ہیں۔ جو زبان رسول اللہ ﷺ کی رضا سے آشنا ہستیوں کے بارے میں بدگمانی میں کھلے، وہ زبان ایمان کی لطافت سے ناواقف ہے۔
(2) حضرت امام شافعیؒ جیسے جلیل القدر امام، جو فہمِ دین، فقہ اور تقویٰ میں مینارِ نور ہیں، مشاجراتِ صحابہ پر گفتگو کے متعلق نہایت جامع اور فیصلہ کن کلمہ ارشاد فرماتے ہیں: “یہ وہ خون ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں کو پاک رکھا ہے، تو ہمیں بھی اپنی زبانوں کو ان سے پاک رکھنا چاہیے۔” (شرح المواقف، روایت 15، بحوالہ: مقامِ صحابہ، ص: 98)۔ کیا خوبصورت تعبیر ہے! جن واقعات میں ہمارا کوئی حصہ نہیں، جن میں نہ ہم گواہ تھے، نہ فریق، ان پر زبان درازی کرنا گویا خود اپنے ایمان کو آلودہ کرنا ہے۔
(3) ۔ تابعین کے امام، عارف بااللہ حضرت حسن بصریؒ سے جب قتالِ صحابہ کے بارے میں سوال کیا گیا، تو آپ نے نہایت دانا اور محتاط انداز میں جواب دیا: “یہ وہ معاملہ ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ موجود تھے اور ہم غیر حاضر۔ وہ حقیقت کو ہم سے بہتر جانتے تھے۔ جس امر پر وہ متفق ہو گئے، ہم نے اسے اختیار کیا، اور جس میں ان کا اختلاف ہوا، ہم نے سکوت اختیار کیا۔”
(4)۔ حکیم الامت، مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اس نازک مسئلے کو سمجھانے کے لیے ایک نہایت پراثر تمثیل بیان فرمائی: “اگر کسی شاہی محل میں بادشاہ کے شہزادوں کے درمیان کسی بات پر نزاع یا لڑائی ہو جائے، تو کیا محل کا کوئی خاکروب، بھنگی یا چمار اس جھگڑے میں زبان کھول سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! اگر وہ تبصرہ کرے گا، تو پکڑا جائے گا، سزا پائے گا۔ کیونکہ یہ معاملہ اس کے دائرے سے باہر ہے۔ یہی حال صحابہ کرامؓ کا ہے، وہ رسولِ اکرم ﷺ کے شہزادے ہیں، ان کے باہمی اختلافات کے بیچ میں بولنے کا حق نہ تمہیں ہے، نہ مجھے۔” آپ نے مزید فرمایا: “اگر کسی نے اس جرأت کا ارتکاب کیا تو یقیناً وہ پکڑا جائے گا، اور اس کی زبان یا گردن کاٹی جائے گی۔
غرض صحابہ کرامؓ کے مشاجرات ہمارے فہم سے بالاتر ہیں، اور ان میں زبان کھولنا درحقیقت اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ اہلِ سنت کا عقیدہ یہی ہے کہ: ہم صحابہؓ کے ان اختلافات پر سکوت اختیار کرتے ہیں ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور ان سب کو عدل، تقویٰ اور نیتِ صادقہ پر قائم مانتے ہیں۔ یہی طریقہ ایمان والوں کا ہے، اور یہی اہلِ سنت والجماعت کی پہچان ہے۔
گستاخِ صحابہؓ—موجبِ لعنت و مردود العقیدہ۔
جن پاکباز ہستیوں کے چہروں پر سجود کی روشنی تھی، جن کے دل ایمان کی تجلیات سے معمور تھے، جن کے نفس وحی کے سایہ میں پروان چڑھے، اور جن کی تربیت خود نبیِ معصوم ﷺ نے فرمائی— اگر کسی بدنصیب کی زبان اُن کے خلاف دراز ہو، تو وہ بجا طور پر ملعون و مردود ہے۔ صحابۂ کرامؓ کی عظمت نہ صرف قرآن و حدیث سے ثابت ہے، بلکہ اجماعِ امت، فطرتِ سلیم، اور عقیدۂ سلف بھی ان کی عدالت و حرمت پر گواہ ہیں۔ ایسے مقدس نفوس کی شان میں تنقیص درحقیقت نبی کی توہین اور دین کے ستونوں پر ضرب ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کے دشمنوں کو پہچاننے کا پیمانہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: «إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَسُبُّونَ أَصْحَابِي فَقُولُوا: لَعْنَةُ اللهِ عَلَى شَرِّكُمْ» (ترمذی، باب ما جاء في فضل من رأى النبی ﷺ، ج: ۲، ص: ۲۲۵)۔ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں، تو ان سے کہو: تم میں جو برا ہے، اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ مطلب یہ ہے کہ صحابہ کو سبّ و شتم کرنے والے ہی بدتر اور لعنت کے مستحق ہیں، کیونکہ نبی نے خود ان سے محبت، ادب اور اقتدا کا حکم دیا ہے۔
مشہور محدث امام ابوزرعہ رازیؒ نے گستاخِ صحابہ کی باطنی خباثت کو بے نقاب کرتے ہوئے فرمایا: “جب تم دیکھو کہ کوئی شخص صحابہ کی تنقیص کر رہا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے۔ کیونکہ ہمارے نزدیک قرآن حق ہے، نبی ﷺ حق ہیں، اور قرآن و سنت ہمیں انہی صحابہ نے پہنچایا ہے۔ پس جو ان گواہوں کو مجروح کرنا چاہتا ہے، وہ اصل میں دین کی بنیاد کو ڈھانا چاہتا ہے، اس لیے وہ خود رد کیے جانے کے لائق ہے۔” (الکفایہ، باب ما جاء في تعديل الله ورسوله، ص: ۴۹، دائرۃ المعارف العثمانیہ)۔ یہ الفاظ اُن تمام فتنہ پرور عناصر کے لیے دلیلِ قاطعہ ہیں جو صحابہ کی عظمت پر شبہات ڈال کر امت کا اعتماد متزلزل کرنا چاہتے ہیں۔
حضرت امام احمد بن حنبلؒ، اپنے شاگرد المیمونی سے فرماتے ہیں: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ حضرت معاویہؓ کی برائی کرتے ہیں؟ ہم تو اللہ سے عافیت مانگتے ہیں۔ پھر فرمایا: اگر تم کسی شخص کو دیکھو جو صحابہ کا ذکر برائی سے کرتا ہے، تو اس کے اسلام کو مشکوک سمجھو۔” (مقامِ صحابہ، ص: ۲۳)
مقامِ صحابہ: فہم کا معیار، ایمان کا ستون۔
حضرات صحابۂ کرامؓ وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جن کی عدالت پر قرآن گواہ ہے، جن کی عظمت پر احادیث متواتر ہیں، اور جن کی فہم و فراست امت کے لیے چراغِ راہ ہے۔ امت کا سب سے بڑا ولی، مجدد، قطب یا عارف بھی ان کے مقام کو نہیں پا سکتا۔ ان کی محبت… اللہ و رسول کی محبت ہے۔ ان سے بغض… اللہ و رسول سے بغض ہے۔ ان پر تنقیص… دین کے ستونوں کو گرانا ہے۔ ان پر خاموشی… ایمان کی علامت ہے۔
ان دنوں کچھ لوگ تحقیقی جرأت کے نام پر، صحابہؓ کے مشاجرات کو اچھال کر، امت میں نئی تفریق کے بیج بو رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زبان کا چابک چلا کر میدانِ تحقیق کے شہسوار بن جائیں گے، مگر یاد رکھیں: جس بات پر جمہورِ امت نے سکوت اختیار کیا، جس پر ائمۂ دین خاموش رہے اور جس پر اللہ کے نبی ﷺ نے لعنت کا حکم دیا—اس پر زبان کھول کر کوئی نجات نہیں بلکہ ہلاکت کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
اے مسلمانو! زبان کو روکیے،دل کو ادب سے بھر لیجیے،اور ان عظیم المرتبت ہستیوں کی محبت کو اپنا سرمایۂ نجات بنائیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا نام تحقیق پسند بننے کے چکر میں لعنت یافتہ گستاخوں کے فہرست میں درج ہو جائے۔
اللَّهُمَّ اجعلْنا من المُحبينَ للصحابة، الساكتينَ عن مشاجراتِهم، العاملينَ بسُنَّتهم، السائرينَ على آثارهم، آمين.