پاکستان و ہندوستان کو یومِ آزادی مبارک لیکن کشمیر ۔۔۔؟ | یومِ آزادی کے حوالے سے خصوصی تحریر ڈاکٹر نذر حافی
پاکستان کا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے، اور اس کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ پاکستان کے اس موقف کا توڑ کرنے کیلئے بھارت نے کبھی بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ بھارت کی طرف سے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35-A کو منسوخ کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر نا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ یعنی مقبوضہ کشمیر کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کیلئے ایک انتہائی جارحانہ قدم۔ بھارت نے اپنی قدیمی ہٹ دھرمی کے ساتھ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں سکھوں، ہندوؤں اور دیگر غیر کشمیری گروپوں کی آبادکاری پر عمل شروع کر دیا ہے۔ خاص طور پر پنڈت کالونیوں اور سینک کالونیوں کا قیام کشمیریوں کیلئے ایک بڑے خطرے کا الارم ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی حکومت نے ریٹائرڈ فوجیوں کی کشمیر میں آبادکاری اور بھارتی ہندو طلباء کو کشمیر میں مستقل رہائش دینے کی سکیمیں بھی شروع کی ہیں، جس سے کشمیریوں کیلئے کشمیر کا مستقبل ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے؟
بھارت کے جمہوری سماج کو یہ سمجھنا چاہیے کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف کے کشمیریوں کو جنگ کا ایندھن بنانا کسی بھی صورت میں بھارت کیلئے نیک شگون نہیں۔ کیا کشمیر کو اجاڑ کر بھارت امن سے رہ پائے گا؟
کشمیری جنگ نہیں چاہتے۔سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی اپنے ملک میں جنگ نہیں چاہتا۔ بھارت کا کشمیر سے کوئی تہذیبی ، جذباتی یا تاریخی رشتہ نہیں لہذا بھارت کو کشمیر میں جنگ کے شعلے بڑھکانے اور کشمیر کے اجڑنے کا درد بھی نہیں۔
کشمیری جنگ کے بجائے لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف انٹرا کشمیر ٹریڈ اینڈ ٹریول کی بحالی چاہتے ہیں۔ دونوں طرف کے کشمیری ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے کے لیے راہداریوں کو کھولنے اور رشتے داریوں کو قائم کرنے کے خواہشمند ہیں۔ بلاشبہ بھارت کو کشمیریوں کے اس انسانی و فطری مطالبے سے انکار کا خمیازہ ضرور بھگتنا پڑئے گا۔ کیا بھارتی دانشور یہ نہیں جانتے کہ فطرت سے بغاوت کسی مسئلے کا حل نہیں۔
یہ تو صرف کشمیر یوں کی تمنّا ہے کہ حقِ خود ارادیّت ملنے تک مقبوضہ کشمیر میں انسان دوستانہ اقدامات کئے جائیں تا کہ کشمیری عوام سُکھ کا سانس لیں لیکن کشمیر میں انسان دوستانہ اقدامات بھارت کیلئے اہم نہیں۔ ہر کشمیری کیلئے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف مقامی سطح پر روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں، دونوں طرف امپورٹ و ایکسپورٹ کا دروازہ کھلے، عزیزواقارب کا آنا جانا ہو اور ایک دوسرے سے میل جول قائم ہو۔ کشمیریوں سے زیادہ اور کون اس حقیقت کو درک کر سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے ساتھ گلگت بلتستان کے تجارتی راستوں اور مذہبی سیرو سیاحت کا آغاز دونوں خطوں کے عوام کی معاشی خوشحالی کی جانب کتنا بڑا قدم ہے۔ ان علاقوں میں کاروباری تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے جدید اقتصادی حکمت عملیوں کا اطلاق کرنا ضروری ہے جبکہ بھارت کے پاس کشمیریوں کیلئے صرف جنگ و جدال کا ہی نسخہ ہے۔
تعلیمی میدان میں بھی دونوں طرف کے کشمیریوں کے لیے آمدورفت کی گنجائش موجود ہے۔ اگر دونوں طرف کے تعلیمی اداروں کے درمیان روابط استوار ہوں تو یہ عمل نہ صرف تعلیمی معیار کو بہتر بنائے گا بلکہ نوجوان نسل کے لیے سوچنے، سیکھنے اور مشاہدات کے نئے امکانات کے دروازے بھی کھولے گا۔ پاکستان اور بھارت کی حکومتیں اگر دونوں طرف کی کشمیری جامعات میں تعلیمی تعاون کو فروغ دیں تو دونوں ممالک کے درمیان طلباء کے تبادلے اور تحقیقاتی منصوبوں کے ذریعے ایک نیا علمی دور شروع ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف سماجی و معاشی فوائد حاصل ہوں گے بلکہ دونوں طرف کے لوگوں کے درمیان قُربتیں بھی بڑھیں گی۔
کشمیر میں سیروسیاحت کو بھی ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیری پنڈتوں کو شاردہ پیٹھ تک رسائی دینے کی بہت اہم ہے۔ تاہم اس تجویز کو عملی کرنے کیلئے کشمیری مسلمانوں کو بھی درگاہ حضرت بل، چرار شریف اور دیگر مقدس مقامات کی زیارات کی اجازت دینی چاہیے۔ اس سے نہ صرف کشمیر کی مذہبی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا بلکہ کشمیر کی سیاحت کی صنعت کو بھی نیا زاویہ ملے گا۔ سیروسیاحت دونوں طرف کے کشمیریوں کے لیے نہ صرف روحانی سکون کا باعث بنے گی بلکہ کشمیر کی معیشت کو عالمی سطح پر ایک نئی پہچان ملے گی۔ عالمی سیاحوں کو کشمیر کی ثقافت، تاریخ، اور قدرتی خوبصورتی کی سیر کرانے سے مقامی معیشت کو بھی زبردست فائدہ پہنچے گا۔
اسی طرح کھیلوں کا شعبہ بھی کشمیریوں کے مابین خوشگوار آمدورفت کا ایک طاقتور ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ اگر دونوں طرف کے کھلاڑیوں کو قانونی طور پر مشترکہ کھیلوں کے پروگراموں میں حصہ لینے کا موقع ملے، تو یہ نہ صرف ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرے گا بلکہ دونوں طرف کے عوام کے درمیان مثبت تعلقات اور یکجہتی بھی پیدا کرے گا۔ کھیلوں کے ذریعے امن اور تعاون کا پیغام ہر ایک کے دل میں پہنچ سکتا ہے۔
یہ سب مثبت اقدامات تب ہی ممکن ہیں جب بھارت کے عوام اور دانشور اپنے پالیسی ساز اداروں کو حقیقت کا راستہ اپنانے پر مجبور کریں۔بدقسمتی سے بھارت کی جارحانہ حکمت عملی کے باعث دونوں طرف کے کشمیری عوام کے بنیادی انسانی حقوق مسلسل ستتر برس سےپامال ہورہے ہیں۔بھارت کی طرف سے کشمیر میں نہتے عوام کے خلاف جنگی نوعیت کے اقدامات اور عسکری طاقت کا بے جا استعمال اس علاقے کے معاشی اور سماجی استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
بھارت امن کی راہ اختیار کرے اور کشمیر کو سیاسی طور پر ایک پرامن اور سفارتی حل کی طرف لے جائے تو اس سے تعمیر و ترقی کا ایک نیا دور جنم لے گا۔بھارت کی کشمیر پالیسی نے ﴿جس میں جارحانہ فوجی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ کشمیر میں غیر قانونی تبدیلیاں اور آبادکاری کی نئی پالیسیوں کا آغاز کرنا شامل ہے﴾ کشمیر کی سیاست اور سماج میں ایک شدید ردِّ عمل کو جنم دیا ہے۔ ایک ایسا ردِّعمل جو لاوے کی مانند زیرِ زمین خاموش مگر متحرک ہے۔
ان اقدامات سے بھارت کا مقصد تو کشمیر میں بھارت کی گرفت کو مستحکم کرنا اور کشمیری عوام کو بھارت کے اندر ضم کرنا ہے لیکن بھارت کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ وہ کسی بھی صورت میں مقبوضہ کشمیر کو ہضم اور کشمیریوں کو اپنے اندر ضم نہیں کر سکتا۔ لہذا بھارت کیلئے مناسب یہی ہے کہ موجودہ دور میں کشمیریوں پر مزید مظالم کر کے اپنے مستقبل کو اور زیادہ تلخ بنانے کے بجائے لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف کے لوگوں کے مابین کاروبار، تعلیم، سیروسیاحت، اور دوطرفہ تعلقات کے فروغ کیلئے راستہ ہموار کرے۔ ہماری دانست میں بھارت کیلئے آج یہ سنہری موقع ہے کہ وہ جارحیّت اور قبضے کی تاریکی سے نکل کر اعترافِ جُرم کی شمع جلائے ، نیز مقبوضہ وادی میں نہتّے عوام کے مدِّمقابل ہٹ دھرمی کےمظاہرے کے بجائے انسان دوستی اور انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنائے تاکہ پورے جنوبی ایشیا کا مستقبل روشن ہو سکے۔