NH

آزاد کشمیر کی ڈیموگرافی کو لاحق خطرات۔ | تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

مقبوضہ کشمیر کے مقابلے میں آزاد کشمیر  واقعتاً آزاد ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں حکومت پر تنقید یا احتجاج صرف جرم ہی نہیں بلکہ غداری کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ  آزاد کشمیر میں طلبا، صحافی، اور سیاسی کارکن ریاستی پالیسیوں کے خلاف لکھنے، تنقید کرنے اور جلسے منعقد کر نے میں آزاد ہیں۔اسی طرح فوجی موجودگی کی نوعیت بھی یکسر مختلف ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی نقل و حرکت کو کنٹرول کرنے کیلئے  ہر گلی کوچے، اسکول، اسپتال اور مسجد کے باہر بندوق بردار کھڑے  رہتےہیں۔قابض فورسز کیلئے  ہر کشمیری مشکوک، جاسوس اور  دہشت گرد ہے۔ اس کے برعکس آزاد کشمیر میں تعینات فوجیوں اور عام کشمیریوں کے درمیان   بھائی چارے اور محبّت کی فضا ہے۔ خاص جگہوں پر عسکری موجودگی غیر محسوس ہے، اور شہری زندگی نسبتاً معمول پر چلتی ہے۔

ایک اور اہم پہلو انٹرنیٹ اور مواصلاتی آزادی کا ہے۔ مقبوضہ کشمیر دنیا کا وہ بدقسمت خطہ ہے جہاں انٹرنیٹ کی بندش کو ریاستی پالیسی کا درجہ حاصل ہے۔ وہاں عوامی رابطہ ایک جرم بن چکا ہے۔ اس کے برعکس، آزاد کشمیر میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر عام آدمی بلا خوف و خطر اپنے مسائل بیان کرنے میں آزاد ہے، اس آزادی کے ذریعے آزاد کشمیر کے  نوجوان مسلسل جدیدتعلیم اور شعور کی  نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔
آزاد کشمیر کا عدالتی نظام بھی یہاں کے عوام کے نزدیک معتبر ہے۔ آزاد کشمیر کا اپنا سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ موجود ہے، جہاں شہری آئینی تحفظ کا مطالبہ کرتے نظر آتےہیں۔ جبکہ مقبوضہ کشمیر میں آئینی تحفظات 2019 میں آرٹیکل 370 اور 35A کے خاتمے کے ساتھ ہی  مکمل طور پر دفن ہو چکے ہیں۔میڈیا کی آزادی کا حال بھی دونوں طرف مختلف ہے۔ آزاد کشمیر میں اگرچہ تنقید کی حدیں موجود ہیں، لیکن صحافیوں کو غائب نہیں کیا جاتا، اور نہ ہی ان پر انسداد دہشت گردی جیسے سخت قوانین کا اطلاق ہوتا ہے، جیسا کہ مقبوضہ کشمیر میں عام ہے۔

سول سوسائٹی کا کردار آزاد کشمیر میں بہت تسلّی بخش ہے۔ مقامی و بین الاقوامی این جی اوز، تعلیمی اور فلاحی تنظیمیں، اور کمیونٹی گروپس تعلیم، صحت اور انسانی حقوق پر کام کرتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ایسے اداروں کو یا تو بند کر دیا گیا ہے یا ان پر ایسی کڑی نگرانی مسلط ہے کہ وہ بے جان ہو چکے ہیں۔

آزاد کشمیر میں  رواداری نیز مذہبی اور ثقافتی آزادی بھی موجود ہے۔ اگرچہ ماضی میں مجاہدین کے جتھے بنا کر عام آدمی کی زندگی  کو خطرے میں ڈال دیا گیا تھا، اس کے علاوہ عباسپور اور مظفرآباد میں کالعدم تنظیموں کی طرف سے ٹارگٹ کلنگ و قتل و غارت کی کارروائیاں بھی کی گئیں  تاہم اس کے باوجود  مساجد آباد ہیں، مذہبی تہوار بغیر کرفیو کے منائے جا تے ہیں، اور کشمیری زبانوں، خاص طور پر پہاڑی، گوجری اور کشمیری کو عوامی سطح پر بولنے پر کوئی قدغن نہیں۔

لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف تعلیم کی صورتحال بھی مختلف ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اسکولوں پر تالے، طلبا پر تشدد، اور اساتذہ کی گرفتاریاں ایک المیہ بن چکی ہیں۔ آزاد کشمیر میں، باوجود انتظامی مسائل کے، تعلیمی ادارے  بہترین انداز میں چل رہے ہیں اور نوجوان نسل تعلیمی سرگرمیوں میں مشغول ہے۔

اسی طرح  آزاد کشمیر میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں اور منظم عسکری جبر جیسی وہ ہولناکیاں موجود نہیں جن کا سامنا مقبوضہ کشمیر کے عوام کو کرنا پڑتا ہے۔اگرچہ آزاد کشمیر میں آزادی کی صورتحال تسلّی بخش ہے تاہم  اس کے باوجود  حکومت پاکستان اور آزادکشمیر حکومت کو کچھ نکات کی طرف فوری توجہ دینی چاہیے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی اپنی سیاسی ساکھ کافی خراب ہو چکی ہے اور اس کے اثرات آزادکشمیر میں بھی قابلِ مشاہدہ ہیں۔ پاکستان کی طرح آزاد کشمیر میں بھی سیاسی  وڈیروں کی مداخلت، اقتدار پر مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری، اور مقتدر برادریوں کی دھونس ایک عام سی بات  ہے۔ اس سب کے باوجود آزاد کشمیر میں سکھ کا  سانس لینے،  انسانی حقوق کی علمبرداری،ہر فورم پر  سچ بولنے، معیاری تعلیم حاصل کرنے، اور نقل و حرکت کی جو آزادی موجود ہے وہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔

بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے خطے کی آبادیاتی، ثقافتی اور سیاسی ساخت کو  بتدریج بدلنے کی کوشش مسلسل جا رہی ہے۔بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں آئینی حیثیت کی منسوخی اور نئے ڈومیسائل قوانین کے نفاذ کے بعد ریاستی پالیسی نے واضح طور پر آبادیاتی تبدیلی کو ریاستی ہدف بنا لیا ہے۔ لاکھوں غیر مقامی افراد کو بھارت سے لا کر  کشمیر میں بسانے کی پالیسی اور مقامی مسلم اکثریت کی زمینوں، ملازمتوں اور شہریت کے حقوق پر قدغن دراصل اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور چوتھے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان دنوں یہ اقدام ایک منظم عمل کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کا مقصد صرف سیاسی قبضہ نہیں بلکہ ثقافتی اور تہذیبی تسلط بھی ہے۔

مقبوضہ  کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیاں، گرفتاریوں، ماورائے عدالت کارروائیوں، اور میڈیا کی سنسرشپ سے واضح ہے کہ بھارت کی ریاست اب اس خطے کو جغرافیائی وحدت کے بجائے ہندوتوا کے قومی بیانیے کو نافذ کرنے کیلئے استعمال کر رہی ہے۔

تاہم یہ کشمیریوں کیلئے آزاد کشمیر میں بھی کچھ تشویشناک تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان، میں بھی سیاسی، انتظامی اور آبادیاتی سطح پر ایسے اقدامات دیکھنے کو ملتے ہیں جو کشمیری شناخت اور کشمیری تہذیب و ثقافت سے متصادم ہیں۔ آزاد کشمیر میں غیر ریاستی افراد کو زمینوں کی فروخت، شناختی کارڈز کا اجرا، اور مقامی صنعت و حرفت کو تعلیمی و سرکاری ڈھانچوں سے نکال دینے کی پالیسیاں ایک ایسے خاموش مگر باقاعدہ منصوبے کا حصہ معلوم ہوتی ہیں جس کا مقصد اس خطے کو مکمل طور پر مرکزی ریاستی کنٹرول کے تابع بنانا ہے۔

یہ عمل صرف آبادیاتی نہیں بلکہ سیاسی نوعیت کا بھی ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں نظریاتی سیاست کا زوال، کلائنٹ پترونج  سیاسی طاقت یا اثرورسوخ رکھنے والے افراد  اپنے سہولتکاروں کو ذاتی فوائد، مراعات اور وسائل فراہم کرتے ہیں،مثلاً نوکریاں، سرکاری ٹھیکے یا پروٹوکول وغیرہ اور بدلے میں ان سے سیاسی وفاداری، ووٹ یا حمایت حاصل کرتے ہیں﴾کی سیاست کا فروغ، اور مقتدرہ کے منظورِ نظر افراد کی حکمرانی نے جمہوری  شعور کو محدود کر دیا ہے۔ ایسے میں جو بھی آواز حقِ خودارادیت، شفاف حکمرانی یا  عوامی حقوق کیلئے بلند ہوتی ہے اس پر کان دھرنے کے بجائے  اسے ریاست مخالف  کہہ دیا جاتا ہے۔ یہی وہ طرزِ حکمرانی ہے جو مقبوضہ کشمیر میں بھارت اختیار کرتا ہے، اور یہی انداز آزاد کشمیر کے حکمران بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ سیاسی کارکنوں، سول سوسائٹی، اور میڈیا کو ریاستی مفادات کے بجائے حکمرانوں کے مفادات  بیان کرنے تک محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔یہ عمل صرف عوامی شناخت یا  برادریوں کی سیاست تک محدود نہیں بلکہ معیشت اور وسائل کے استحصال کی صورت میں بھی سامنے آ رہا ہے۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بینکاری، سرمایہ کاری،  پن بجلی، معدنیات، اور سیاحت کے منصوبوں پر غیر مقامی یا وفاقی اداروں کا قبضہ اور مقامی آبادی کو مشاورت یا شراکت سے محروم رکھنا، اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکمرانوں کی مفاد پرستی  نے ان علاقوں کے عوام  کو محض مزدور بنا دیا ہے  نہ کہ سیاسی اور معاشی شراکت دار۔

آزاد کشمیر کے عام لوگوں کی جانب سے کبھی کبھار اس بارے میں جو ردّعمل سامنے آتا ہے  وہ نہایت سطحی اور غیر مؤثر ہوتاہے۔ آزاد کشمیر میں رائج برادریوں کا سیاسی  نظام صرف طاقتور سیاسی گھرانوں  کے مفادات کی حفاظت کرتا ہے، نہ کہ مقامی و پسماندہ  لوگوں و  برادریوں  کے حقوق کی۔

یہ امر خوش آئند ہے کہ موجودہ حالات میں کشمیری عوام کے اندر ایک نیا سیاسی شعور ابھر رہا ہے، جو مساوات کی بنیاد پر  سارے  کشمیریوں کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کشمیر کے دونوں جانب کے حکومتی ڈھانچے ایسے افراد پر مشتمل ہیں جو اپنے اپنے خاندانوں کے  مفادات کے محافظ ہیں اور کشمیری عوام کی حقیقی امنگوں سے کوسوں دور ہیں۔

اس پورے سیاسی منظرنامے میں جو پہلو سب سے زیادہ خطرناک ہے وہ آبادیاتی ساخت کی تبدیلی ہے۔ چاہے وہ بھارت کے تحت غیر کشمیریوں کو بسانے کی صورت میں ہو یا پاکستان کے تحت غیر ریاستی لوگوں کی تعداد کو بڑھا کر مقامی آبادی کو تعداد و تجارت ، ملازمتوں و سیاسی حوالے سے سے  کمزور کرنا ہے۔ آبادی کے تناسب میں یہ تبدیلی  ایک ایسے تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی وجود کو مٹانے کی کوشش ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔ کشمیری زبانیں، رسم و رواج، رہن سہن، اور قدرتی وسائل اب بتدریج معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ آج یہ خطرہ جتنا مقبوضہ کشمیر کو لاحق ہے اتنا ہی آزاد کشمیر کو بھی۔

ان تمام پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرنا ناگزیر ہو گیا ہے کہ کشمیر کا تنازع اب محض جغرافیائی حدود یا ریاستی بالادستی کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک قوم کے تاریخی وجود، اس کی تہذیبی بقا، سیاسی خودمختاری، اور انسانی حقوق کی جدوجہد کا مسئلہ ہے۔ آزاد کشمیر میں موجود غیر ریاستی  سہولتکار عناصر یہ نہیں چاہتے کہ  کشمیری عوام کو  قومی دھارے میں رکھا جائے، اور کشمیریوں کی قومی  شناخت، اور حقِ خودارادیت کو بنیاد بنا کر پاکستان و آزاد کشمیر کے درمیان جدید تعلقات کو فروغ دیا جائے۔ سہولتکاروں کو صرف  اپنے مفادات سے غرض ہے ، انہیں پاکستان یا آزاد کشمیر سے یا آزاد کشمیر کی تبدیل ہوتی ڈیموگرافی سے  کوئی مطلب نہیں۔

نذر حافی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link