اسلام میں تعدد نکاح حکمت ومصلحت اور اعتراضات کا جائزہ ۔ | تحریر : ابو خالد بن ناظر الدین قاسمی

اسلام ایک ایسا مکمل اور جامع دین ہے جو نہ صرف انسانی روح کی تربیت کرتا ہے، بلکہ انسان کی جسمانی، نفسیاتی اور معاشرتی ضروریات کو بھی پورا کرنے کا مکمل نظام فراہم کرتا ہے۔ اسلامی شریعت میں نکاح صرف ایک سماجی بندھن نہیں، بلکہ فطری تقاضوں کا پاکیزہ حل، انسانی عزت و عفت کا محافظ، اور معاشرتی نظم و ضبط کا بنیادی ستون ہے۔
نکاح فطرت کی پکار کا شرعی جواب –
اسلام نے نکاح کو عبادت کا درجہ دیا ہے، اور اسے انسانی زندگی کی فطری ضرورت قرار دیا ہے۔ مرد اور عورت کے مابین تعلقات کو شریعت نے نکاح کے دائرے میں لا کر ان کے جذبات و خواہشات کو پاکیزہ سانچے میں ڈھالا۔ مرد کی فطرت میں عورت کی نسبت خواہشات کا غلبہ عام طور پر زیادہ ہوتا ہے، اور اس کی جنسی اور نفسیاتی ساخت کئی پہلوؤں سے مختلف ہوتی ہے۔
اسلام نے نہ صرف ان فطری تقاضوں کو تسلیم کیا، بلکہ ان کا حل بھی دیا۔ اسی لیے قرآن مجید نے فرمایا: فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ… (النساء: 3)
تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں پسند آئیں، دو دو، تین تین، اور چار چار۔ پھر اگر ڈرو کہ عدل نہ کر سکو گے، تو ایک ہی کافی ہے…
اس آیت میں نہ صرف اجازت کا ذکر ہے، بلکہ اس اجازت کی حکمت اور حدود بھی واضح ہے: عدل شرط ہے، ظلم نہیں۔ اگر عدل ممکن نہ ہو تو صرف ایک بیوی پر اکتفا کیا جائے۔
نکاحِ ثانی مجبوری یا سہارا؟
نکاحِ ثانی محض خواہش پر مبنی نہیں ہوتا، بلکہ کئی مرتبہ یہ کسی معاشرتی یا نفسیاتی مجبوری، یا کسی مظلوم و بے سہارا عورت کے لیے سہارا بننے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ بیوی کی کسی بیماری، عدمِ موافقت، یا دیگر انسانی کمزوریوں کی بنا پر مرد اگر دوسری شادی کرتا ہے، تو یہ نہ صرف اس کا شرعی حق ہے، بلکہ بعض صورتوں میں اس کی اخلاقی ذمہ داری بھی ہو سکتی ہے۔
اسی طرح بیوہ، مطلقہ یا یتیم بچوں کی ماں جیسی عورتوں کو معاشرے میں تنہا چھوڑ دینا، یا انہیں سہارا نہ دینا، ایک بڑی اجتماعی بے حسی کا مظہر ہے۔ نکاحِ ثانی ایسے موقع پر ایک بہترین حل ہے، جس سے نہ صرف ایک عورت کی عزت کی حفاظت ہے بلکہ معاشرتی بگاڑ کو روکنے کا ذریعہ بھی ہے۔
معاشرتی ردعمل جذبات کا غلبہ یا دینی کمزوری؟
آج کا معاشرہ دین کے نام پر جذبات کو معیار بنا بیٹھا ہے۔ جب کوئی مرد شریعت کے مطابق دوسری شادی کرتا ہے تو معاشرہ اسے مجرم کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ خاص طور پر پہلی بیوی کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آتا ہے، جو اکثر ناپختہ سوچ، معاشرتی دباؤ، اور دینی شعور کی کمی کا نتیجہ ہوتا ہے۔
خواتین کا یہ سمجھنا کہ شوہر کی دوسری شادی ان کی توہین یا ان کی محبت کی نفی ہے، یہ تصور بذاتِ خود اسلامی تعلیمات سے دوری کی علامت ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ اگر ایک مرد شریعت کے دائرے میں رہ کر نکاحِ ثانی کرتا ہے تو وہ نہ صرف فتنہ و فساد سے بچ رہا ہے بلکہ ایک عورت کی عفت و عصمت کا محافظ بھی بن رہا ہے؟
اور اگر معاشرہ مرد کو دوسری شادی کے لیے مجرم ٹھہرائے گا، تو کیا وہ چھپ کر غلط راستہ نہیں اپنائے گا؟ کیا ہم نے یہ منظرنامہ نہیں دیکھا کہ ناجائز تعلقات کو اب ‘معاشرتی آزادی’ کے نام پر قبول کیا جا رہا ہے، لیکن نکاحِ ثانی کو طعن و ملامت کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟
خواتین کا مقام اور جذبات کا احترام –
 ہم عورت کے جذبات کو سمجھتے ہیں۔ یقیناً کسی عورت کے لیے یہ آسان نہیں کہ وہ اپنے شوہر کو کسی اور عورت کے ساتھ بانٹے۔ یہ ایک فطری اور مضبوط جذبہ ہے، جسے اسلام تسلیم کرتا ہے۔ مگر ایک مسلمان عورت کی اصل پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے جذبات سے زیادہ اپنے دین کی اطاعت کرے۔
قرآن و سنت ہمیں صبر، تقویٰ، وسعتِ ظرف اور ایثار کا سبق دیتے ہیں۔ اگر کسی مرد نے کسی مجبوری یا دینی مقصد سے نکاحِ ثانی کیا ہے تو بیوی کو چاہیے کہ وہ جذبات سے ہٹ کر شریعت کے اصولوں پر غور کرے، اور معاشرتی بگاڑ کو روکنے میں شوہر کا ساتھ دے۔
نکاحِ واحد بھی اعلیٰ مثال ہے- 
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اسلام نے نکاحِ ثانی کو فرض یا افضل قرار نہیں دیا، بلکہ ایک اجازت دی ہے۔ اگر کوئی مرد پوری زندگی ایک ہی بیوی کے ساتھ وفاداری، محبت اور عدل سے گزار دے، تو یہ اس کی عظمت کی علامت ہے۔ وہ اس لیے دوسری شادی نہیں کرتا کہ اس کی پہلی بیوی کافی ہے، اور اس کے اندر جذباتی توازن موجود ہے۔ یہ رویہ بھی قابلِ تحسین ہے۔
 شریعت کو جذبات پر مقدم رکھیں –
اسلامی معاشرے کو اگر پاکیزگی، فطری توازن، اور باہمی عزت و محبت کا گہوارہ بنانا ہے تو ہمیں شریعت کے احکام کو جذبات پر ترجیح دینا ہو گی۔ نکاحِ ثانی پر اعتراض کر کے ہم نہ صرف ایک جائز عمل کو مشکل بنا رہے ہیں بلکہ مردوں کو ناجائز راہوں کی طرف بھی دھکیل رہے ہیں۔
آئیے! ہم وسعتِ قلب کے ساتھ سوچیں، ایمان کی روشنی میں فیصلہ کریں، اور اپنی بہنوں کو بھی سمجھائیں کہ نکاحِ ثانی جرم نہیں، بلکہ بعض حالات میں یہ دین و معاشرے کی حفاظت کا مضبوط قلعہ ہے۔
شادی بنی نوع انسان کی بنیادی اور فطری ضرورت ہے۔ مرد ہو یا عورت، دونوں کی زندگی ایک دوسرے کے بغیر بے رنگ ہے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کے سکون کا باعث ہیں۔ اسی لیے ہر طبقہ انسانی میں نکاح اور شادی کا تصور بصورتِ مختلف پایا جاتا ہے، اور دنیا کے تقریباً تمام مذاہب نے اپنے اپنے اعتبار سے اس کے کچھ اصول وقواعد اور قانون کمی بیشی کے ساتھ وضع کر رکھے ہیں جو ان کی مذہبی کتب میں موجود ہیں۔
اگر کوئی مرد ایک عورت سے اپنی خواہشات کی تکمیل نہیں کر سکتا تو مذہبِ اسلام نے اسے حرام طریقے سے اپنی خواہش کو مٹانے سے منع فرما کر جائز طور پر بیک وقت دو، تین، اور چار شادیاں کر کے اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرنے کی اجازت دی ہے۔
یاد رہے کہ بیک وقت ایک سے زائد شادی کرنے کا حکم اسلام نے صرف مرد کو دیا ہے۔ عورت کے لیے یہ جائز نہیں، بلکہ ایک عورت جس کا کسی سے نکاح ہو گیا ہے، اب وہ دوسرے مرد سے نکاح کرے تو وہ نکاح منعقد ہوگا ہی نہیں۔ اس کے ساتھ بیوی کی طرح رہنا دونوں کے لیے ناجائز وحرام ہے۔ ہاں، اگر شوہر انتقال کر جائے یا طلاق دے دے تو عدت گزار کر دوسرے شخص سے نکاح کرنا عورت کے لیے جائز، بلکہ مستحسن ہے۔
اب چونکہ اسلام میں صرف مردوں کے لئے تعدد ازدواج کی اجازت ہے اس سے متاثر ہو کر عام اور اعلیٰ طبقات کی خواتین کے اذہان میں یہ سوال خلجان پیدا کرتا ہے کہ پھر اسلام عورت کو ایک سے زائد شادی کی اجازت کیوں نہیں دیتا؟ کچھ شیطانی فکر رکھنے والے مخالفینِ اسلام بھی اس بات پر معترض ہوتے ہیں اور اس مسئلہ کا سہارا لے کر اسلام کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں کہ اسلام مرد وعورت کے مابین انصاف نہیں کرتا۔ ان کے خیال میں جب مرد وعورت دونوں ہی برابر ہیں تو مردوں کی مانند عورتوں کو بھی ایک ساتھ چار شادیاں کرنے کی اجازت نہ دینا ان کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی ہے۔ ایسے سوالات پیدا ہونے کا سبب یہی ہے کہ جن مرد وخواتین کا مطالعہ اور سوچ وفکر گہری نہ ہو، جو علمِ دین سے وابستہ نہ ہوں، اور اللہ تعالیٰ کی حکمتوں پر جن کا یقین محض لرزتا ہوا سا ہو، تو ان کے قلوب واذہان میں اس قسم کے سوالات کا ازخود پیدا ہو جانا ایک لازمی سا امر ہے۔
ان شریر ذہنوں میں ان سوالوں کے جنم لینے سے کوئی روک بھی نہیں سکتا، لیکن اسلام چاہتا ہے کہ عقلی طور پر پیدا ہونے والے شکوک واعتراضات کا جواب دیا جائے تاکہ ایسے فتنوں کا رد کرنے سے یا تو فتنہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے یا لوگ مکمل طور پر مطمئن ہو جائیں۔
سب سے پہلے یہ کہ مسلمان عورتوں کو تو اس طرح کا سوال کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ جب وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ چکی ہیں تو اب انہیں اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی حکم مصلحت سے خالی نہیں ہوتا، بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہر حکم حکمتوں سے بھرا ہے۔ ہماری سمجھ اس کی حکمت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ ہمارا رب جب بھی ہمیں کوئی حکم دیتا ہے تو اسے اس کی تمام باریکیوں کا پہلے ہی سے علم ہوتا ہے۔
اللہ پاک خود ارشاد فرماتا ہے: اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ [الملك: 14]
ترجمہ: کیا وہ نہ جانے جس نے پیدا کیا، اور وہی ہے ہر باریکی جانتا، خبردار۔
اسلام میں عورت کو ایک وقت میں ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے، اس کی چند وجوہات ہیں جنہیں اسلامی فقہ اور معاشرتی اقدار میں بیان کیا گیا ہے۔ معترضین کے لیے چند عقلی وجوہات یہاں پیش کی جاتی ہیں –
نسب کی شناخت:
عورت کو ایک ساتھ چار شادیوں کی اجازت نہ دینے کی ایک وجہ نسب کا بگڑنا ہے، جو کہ بذاتِ خود کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اسلامی اور معاشرتی قوانین میں اولاد کے نسب کا مسئلہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جس عورت کے چار شوہر ہوں، پھر ایک بچہ پیدا ہو تو بجا طور پر سوال پیدا ہوگا کہ یہ بچہ کس کا ہے؟ ابوّت کی نسبت کس کی طرف کی جائے؟ نسب کی شناخت دشوار ہو جائے گی۔ بچے کے حقیقی والد کا تعین مشکل ہو جائے گا، جس سے نسب کا تعین پیچیدہ ہو جائے گا۔ باپ کا پتا نہ چل پانا اس بچے کے لیے باعثِ شرم وعار ہوگا۔
سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے زمانے میں کچھ عورتوں نے اتفاق کر کے چار چرب زبان عورتوں کا اپنا نمائندہ منتخب کیا کہ وہ جا کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے دریافت کریں کہ امیر المومنین! جب ایک وقت میں ایک مرد چار عورتیں رکھ سکتا ہے تو ایک عورت چار مرد کیوں نہیں رکھ سکتی؟ اسلام ایک عادل مذہب ہے، کیا عورتوں پر ظلم نہیں کرتا؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ان کی شرارت کو بھانپ لیا اور زبانی کلامی جواب دینے کے بجائے ایک صاف شیشی منگوائی اور چار عورتوں کو الگ الگ پانی دے کر فرمایا: اپنا اپنا پانی اس میں ڈالو۔ جب وہ حکم مان چکیں اور پانی ڈال دیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: اپنا اپنا پانی پہچانو۔ انہوں نے اچنبھے سے کہا: یا امیر المومنین! پانی کی ہیئت تو ایک ہی طرح ہے اور اس کی ماہیت بھی ایک، تو اس کا پہچاننا کیوں کر ممکن ہوگا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پس یہیں ٹھہر جاؤ، مادہ منویہ کی ہیئت بھی ایک ہی طرح کی ہوتی ہے اور اس کی ماہیئت بھی۔ ایسا نہیں ہے کہ کالے مرد کا مادہ تولید کالا اور گورے مرد کا مادہ سفید ہو۔ جس طرح ایک شیشی میں اپنے اپنے پانیوں کی شناخت کرنا محال ہے، اسی طرح جب ایک رحم کے اندر متعدد آدمیوں کی منی جمع ہوگی، جس سے استقراء حمل ہوگا، پھر جب بچہ پیدا ہوگا تو اس کی پہچان بھی ناممکن اور اس کی نسبت کا تعین محال ہو جائے گا۔ بات معقول تھی تو سب عورتوں کی سمجھ میں آ گئی اور وہ خوش خوش لوٹ گئیں۔
پرورش اور تعلیم وتربیت کا ذمہ:
جب بچے کے باپ کی شناخت ہی نہیں ہو سکے گی تو کون اس کی کفالت کرے گا؟ اس بچے کے اخراجات کی ذمہ داری کس کے ذمے آئے گی؟ یہاں سوال بچے کے اخراجات اور پرورش کا ہے تو اب ہر شوہر اس بچے کو اپنا بتانے سے انکار کرے گا۔ اب یہاں نقصان یا تو اس عورت کا ہوگا کہ وہ کس طرح اس بچے کی پرورش کرے گی، یا اس بچے کا ہوگا، جسے نہ تو باپ کا نام ہی ملے گا، نہ باپ کی محبت وشفقت، اور نہ تعلیم وتربیت کے لیے کوئی رقم حاصل ہو سکے گی۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ اگر عورت کو چار شادیوں کی اجازت دے دی جائے تو عورت اور بچے کا کیا حال ہوگا اور ایسے ہولناک نتائج ہی سامنے آئیں گے، جو ہلاکت کا سبب بنیں گے۔
نفسانی استحکام:
عورت فطری طور پر مرد کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہے اور عورت میں اتنی طاقت وقوت نہیں ہوتی کہ وہ تنہا اپنے نفس کے ذریعے سے چند مردوں کی خواہشات پوری کر سکے۔ عورت کے اندر اگرچہ خواہشِ نفسانی مرد سے زائد ہو، لیکن وہ بوقتِ ضرورت اس خواہش کو کنٹرول کرنے کی طاقت وہمت مرد سے زیادہ رکھتی ہے، برخلاف مرد کے کہ وہ بے حوصلہ ہے اور اپنی خواہشات پر قابو نہیں کر سکتا۔ شرعی حدود اور ملامت کی پروا کیے بغیر وہ حرام کاریوں کے ذریعے اپنی خواہشات کی تکمیل کر لیتا ہے۔ اس کے پیشِ نظر مرد کے نکاح میں ایک سے زائد بیویاں ہونا تقریباً ہر مذہب میں رائج ہے، لیکن کسی عورت کے لیے چند مردوں سے مجامعت کے جواز کو حلال قرار دے دینا مطلب عورت کو کئی مردوں کے حوالے کر کے اس کے رحم وکرم اور اس کی جان پر ظلم کرنا ہوا۔ اس لیے کسی بھی تہذیب اور مذہب نے ایک عورت کو کئی خاوند رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔
آپسی انتشار:
مرد کیونکہ اپنی خواہشات پر قابو پانے میں عاجز ہے اور جب عورت ایک اور مرد ایک سے زائد ہوں تو ہر مرد یہی چاہے گا کہ وہی اس عورت سے استفادہ حاصل کرے۔ ایسے حالات میں لڑائی جھگڑے اور خونریزی والے میدان کا ہی تصور کیا جا سکتا ہے۔ ہر مذہب امن وسلامتی ہی کو پسند کرتا ہے۔ جب بیوی کے اخراجات، اس کے رہنے سہنے، کھانے پینے کا معاملہ آئے گا تو وہی شوہر جو کل بیوی سے استفادے کے لیے جھگڑ رہا تھا، آج بیوی کے اخراجات پر محض یہ بول کر جان چھڑانا چاہے گا کہ یہ صرف میری بیوی نہیں۔ تو ہر طرف سے نقصان صرف عورت کا ہی ہوگا، اور جھگڑے کا باعث بنے گا، اور معاشرے کا ماحول خراب ہوگا۔
ماں کے کردار کی ذمہ داری:
ایک سے زیادہ شوہر ہونے کی صورت میں عورت پر زیادہ ذمہ داریاں اور تعلقات کا دباؤ ہوگا۔ یہ صورتِ حال ماں کے کردار کی بنیادی ذمہ داری کو متاثر کر سکتی ہے اور بچوں کی پرورش اور ان کی جذباتی واخلاقی تربیت میں مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ ایک مستحکم ازدواجی ماحول بچوں کی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ جب عورت کے اوپر ایک ساتھ کئی شوہر، ساتھ ہی امورِ خانہ داری کی ذمہ داریاں جمع ہو جائیں گی، تو اولاد کی صحیح پرورش کرنا دشوار مرحلہ بن جائے گا۔
خاندان میں استحکام:
معاشرتی نظام میں خاندان کی بنیاد کو مضبوط رکھنے کے لیے مستحکم ازدواجی تعلقات ضروری ہیں۔ ایک شوہر اور ایک بیوی کے تعلقات سے خاندان میں اتحاد اور سکون قائم رہتا ہے، جبکہ ایک عورت کے ایک وقت میں چار شوہر ہونے سے ازدواجی تعلقات میں تناؤ اور انتشار کا خدشہ رہتا ہے۔ اگر عورت ایک ساتھ کئی مرد سے نکاح کرے، پھر وہ مرد بھی ایک سے زائد بیویاں رکھیں، تو اس طرح سب خلط ملط ہو جائے گا، زندگی گزارنا محال ہوگا، اور خاندانی نظام میں بگاڑ پیدا ہوگا۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ مذہبِ اسلام نے اپنے ماننے والوں کی ہر قدم پر رہنمائی فرمائی اور ملحدین ومستشرقین اور معترضین کا دندان شکن جواب دیا۔ جیسا کہ ہماری مختصر تحریر سے بھی ثابت ہے کہ عورت کے لیے ایک سے زائد شادی کرنے میں مذہبی ومعاشرتی کتنی خرابیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ کسی ذی شعور پر مخفی نہیں۔
مزید برآں اگر دنیا کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تعدد ازدواج کی اجازت عورتوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے ورنہ ان گنت عورتیں بن بیاہی زندگی گزارتیں ۔
چنانچہ اعداد و شمار کے مطابق جن ممالک میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے ان میں سے چند یک کا ذکر سپرد خامہ ہے ۔
بی بی سی نیوز کے مطابق: ہر ہزار میں بیس عورتیں زائد ہیں ( ہندوستان رپورٹ)
پی آئی بی گوب ان کے مطابق: ٢٠٣٦ میں ہندوستان میں نسوانی آبادی کی مزید کثرت متوقع ہے ۔
آرمینیا میں 5٪ 
یوکرین 4.4٪
روس 3.9%
لیتھوانیا 16%
ہونگ کونگ 16%
بھماس 16%
بلارس 15%
اعداد و شمار پر مزید جانکاری کے لیے دی ورلڈ فیکٹ بک  کا مطالعہ کریں 
اس کے علاوہ متعدد ممالک میں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے ۔ اب اگر تعدد ازدواج کی اجازت نہ ہوتی تو عورتیں کہاں پناہ لیتیں ۔
یہ اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر فضل وکرم اور احسان ہے ۔ 
رضینا باللہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمد رسولا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link