AB

تہران یونیورسٹی کا ایک پروفیسر۔ | تحریر: عارف بلتستانی

یہ جوان نسلِ جدید ہیں کہ کرۂ ارض پر ظاہر ہوئے ہیں۔ غفلت کے غبار میں ایسے گھرے ہوئے ہیں کہ شفاف آئینوں پر بھی گرد و غبار چھا گیا ہے۔ شبہات اور باطل افکار کی دلدل میں اس طرح پھنس گئے ہیں کہ جو بھی نکلنے کی کوشش کرے، مزید پھنستا چلا جاتا ہے۔ اس طرح کے زہر آلود افکار؛ جو نہالوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے، غنچوں کو مرجھانے، زرخیز زمینوں کو بنجر بنانے، علم کو تسکین خواہشات کا ذریعہ بنانے اور عقائد کو تہس نہس کرنے کے درپے ہیں۔ حالانکہ خداوند متعال نے اس جہان کی تبدیلی کی ذمہ داری انہی جوانوں کے کندھوں پر رکھی ہے۔ یہی جوان عصرِ رسالت کے پیغام آور ہیں۔ جن کا پیغام ہی مزاحمت، استقامت اور رشد و تکامل ہے۔ کمال طلبی اور بلند ہمتی جیسی خصوصیات ان کی فطرت کا حصہ ہیں۔ عقل و منطق اور دلیل و استدلال کی بنیاد پر چیزوں کو پرکھنا اور حقیقت کو تلاش کرنا ان کی سرشت و طبیعت میں شامل ہے۔

جوان پروانے کی مانند ہیں، انہیں جلنے کا کوئی خوف نہیں ہے، نور و شمع کے عاشق ہیں اور جہاں بھی ہدایت کا نور ملے، اسی کے گرد طواف کرتے ہیں۔ جوان حقیقت کے متلاشی، اصلاح پسند، متجسس اور حقیقت کو قبول کرنے کے لئے آمادہ رہتے ہیں۔ جوانوں کی اسی جاذبیت کی خصوصیت کی بنیاد پر، انقلاباتِ عالَم میں دانش مندوں اور اہل علم نے ان سے استفادہ کیا ہے اور کرتے رہیں گے۔ ان انقلابات کی بنیاد جوانوں کی فکری تربیت پر منحصر ہے، کیونکہ حرکت اور تبدیلی انسان کی سوچ و فکر سے شروع ہوتی ہے۔ لہذا جوانوں کو غور و فکر کرنے کی عادت ڈالنی چاہیئے، ان کی ذمہ داری بھی یہی ہے کہ تقلید کے اسیر نہ رہیں بلکہ حادثات و واقعات اور اجتماعی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں پر غور و خوض کے ذریعے تجزیہ و تحلیل کریں اور مسائل کے لئے راہ حل پیش کریں، کیونکہ جوان ایک ملک کی تمدنی زندگی اور اس قوم کی حقیقی تہذیب کے پشت پناہ ہیں۔

عصر حاضر میں جوانوں کو ان کی اصل اور اہم خاصیت “تفکر، تدبر اور تعقل” کے راستے سے دور رکھنے کے لئے مغرب نے جدید ٹیکنالوجی، ہزاروں وسائل اور مختلف انٹرٹینمنٹ کے وسائل بنائے ہیں، تاکہ نوجوان نسل تفکر، تدبر اور تعقل سے دور رہے اور ان کے ذہن و دل اور فکر و نظر تک مغرب اپنی نظریات کو منتقل کرسکے۔ ان کو معلوم ہے کہ مغربی تصورِ کائنات کی بنیاد صرف مادیات پر ہے۔ ان کا سب کچھ تجربے اور حس کی بنیاد پر ہیں، ان کے نزدیک وہی حقیقت ہے، جس کو وہ حواس کے ذریعے محسوس کرسکیں۔ ماورائے طبیعیات اور مجرد چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اگر جوان تفکر و تدبر و تعقل سے کام لینے لگیں تو ان کا یہ تصورِ کائنات سرے سے ہی باطل اور چکنا چور ہوتا نظر آئے گا۔ اس لئے انہوں نے عصر حاضر کے تعلیمی نظاموں اور اداروں پر تسلط حاصل کرکے مادی نظریات اور نظریہ ارتقاء، بگ بینگ تھیوری جیسے نظریات کو مختلف طریقوں سے نئی نسل کے اذہان کو پر کر رہا ہے، تاکہ نئی نسل تمدن نوین اسلامی کے بجائے تمدن اٹلانٹک کے لئے مفید اور آلہ کار ثابت ہوسکے۔

سوچ و فکر اور نظریات میں تبدیلی لانے میں بہت سارے عوامل موجود ہیں۔ ان عوامل میں سے ایک عامل کچھ ایسی شخصیات ہیں، جن کے افکار، جوانوں کو یا تو گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں یا جوانوں کے منجمد اور شبہات کے گرداب میں گری ہوئی سوچوں کو روشن فکری اور ہدایت کی طرف لے آتے ہیں۔ انہی شخصیات میں سے شخصیت *تہران یونیورسٹی کا ایک پروفیسر* شہید مرتضیٰ مطہری کی ذات ہیں۔ جنہوں نے اپنی پوری زندگی، شبہات میں گھرے ہوئے اور افکار ضالین سے پر شدہ اذہان کو ان سے نکال کر ہدایت اور فکرِ ناب کی طرف لانے میں صرف کی ہے۔ اس دور کے ہر جوان کو ان جیسی شخصیات کے افکار کا مطالعہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ شہید مطہری کی ذات ہی ایسی ذات ہے، جس نے ناقد کے نقد کو اس سے بہتر طریقے سے سمجھا کر اس کو سرے سے رد کیا ہے، پھر اسلام کا نکتہ نظر بیان کیا ہے۔

شہید مطہری کی علمی، فلسفی، عرفانی، سلوکی اور جامع شخصیت سے آپ سب اہل علم حضرات باخبر ہیں۔ ان کے افکار کا مطالعہ کرنے اور پڑھنے کی اہمیت کے بارے میں علامہ مودودی رح کے ہم عصر اور دوست روح اللہ خمینی اور عالم اسلام کے برترین سیاست مدار ایران کے سابق صدر اور سپریم لیڈر علی خامنه ای کے کلام سے ایک اقتباس پر اکتفاء کرونگا۔ مرتضیٰ مطہری اور ان کے آثار کے بارے میں روح اللہ خمینی (رہ) بیان کرتے ہیں کہ “یہ ان ستاروں میں سے ایک ہے، جو عمل کو ایمان، اخلاق کو عرفان، برھان کو قرآن، علم کو حکمت اور اپنی شہادت سے سماج کی ہدایت اور تاریکیوں کی ظلمتوں میں ڈوبے ہوئے سماج کے لیے مشعل راہ تھا، جو ایک چراغ کی طرح جلتا رہا اور اپنے چاہنے والوں کو اپنے نور کی کرنوں سے منور کرتا رہا۔ امید یہ تھی کہ پھلوں سے لدے ہوئے اس درخت سے جتنے پھل چنے گئے ہیں، اس سے کہیں زیادہ چنے جائیں اور اس کے ذریعے عظیم مفکرین معاشرے کے حوالے کیے جائیں، لیکن افسوس ہے کہ ظالموں اور جنایتکاروں نے ہمارے جوانوں کو اس عظیم درخت کے پھل سے محروم کر دیا۔ پھر بھی خدا کا شکر ہے کہ ان کا علمی سرمایہ جتنا ہمارے پاس ہے، وہ اپنی جگہ ایک مربی اور معلم ہے۔”

مزید فرماتے ہیں کہ “مجھے کسی ایسے شخص کا علم نہیں، جس کے تمام قلمی آثار اچھے ہوں، لیکن شہید مطہری کے تمام آثار بلا استثناء اچھے اور انسان ساز ہیں۔”

جدید اسلامی تفکر کے احیاگر سید علی خامنہ ای، مرتضٰی مطہری اور ان کے آثار کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ “ہمارے انقلاب کی فکری بنیادیں مرتضیٰ مطہری کی کتابیں ہیں۔ مرتضٰی مطہری اسلامی ثقافت کے خزانے کی کنجی ہیں۔ میں یہ ضروری سمجھتا ہوں اور میں نے یہ نکتہ کئی بار کہا ہے کہ تمام اسٹوڈنٹس اور خطباء، مرتضیٰ مطہری کے تمام آثار کا ایک دفعہ مطالعہ کرنا چاہیئے۔ مدارس اور حوزہ علمیہ کے ضروری کاموں میں سے ایک اہم کام ان کے آثار کا مطالعہ کرنا ہے۔ ہمارے عزیز نوجوانوں کو مرتضیٰ مطہری کے آثار (کتابوں) سے آشنائی ہونی چاہیئے۔ اگر میں حوزہ علمیہ کے لیے نصاب لکھتا تو نصاب میں، میں مرتضیٰ مطہری کی کتابوں کو پڑھنے، خلاصہ لکھنے اور امتحان میں ضرور شامل کرتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link