دورۂ ٹرمپ: استحصالِ اسلام، عرب کی بے حسی اور فلسطین کی آہیں۔| تحریر: سید تبسم عباس

عجیب دور آ گیا ہے… جہاں دشمنِ اسلام کو عزت، دولت، اور استقبالی نغمے پیش کیے جاتے ہیں، اور مظلوموں کو گولی، بارود اور خاموشی! سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ دورۂ عرب اس امت مسلمہ کے ماتھے پر وہ بدنما داغ چھوڑ گیا ہے جسے شاید آنے والی کئی صدیاں نہ دھو سکیں۔

ٹرمپ کے استقبال کے مناظر تاریخِ اسلام کے تابناک ماضی کے منہ پر طمانچہ تھے۔ حجازِ مقدس کی سرزمین پر ننگے سر رقص کرتی لڑکیاں، شراب و شباب کی محفلیں، سونے کے تحفے، لگژری طیارہ، اور شاندار دعوتیں… وہ بھی ایک ایسے شخص کے لیے جس نے اسلام دشمنی کو اپنے اقتدار کا حصہ بنایا۔ قطر کے بادشاہ نے لاکھوں ڈالر مالیت کا جہاز تحفے میں دے دیا، سعودی عرب  اور باقی عرب حکمرانوں نے ملکر  یوکرائن جنگ میں امریکہ کے اخراجات سے بھی 12 گنا زائد مال و زر نچھاور کر دیا۔ کیا یہ وہی سرزمین ہے جہاں خندق کھودی گئی؟ جہاں بدر میں خون بہا تھا؟

مگر اس سب کے بیچ ایک سوال کانٹے کی طرح چبھتا ہے: غزہ کا کیا؟ فلسطین کے لاشے، بچوں کی بھوک، عورتوں کی چیخیں، بوڑھوں کی آہیں… ان کا کیا؟

سعودی حکومت برملا کہتی ہے کہ“اس جنگ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں”۔ دیگر عرب ریاستیں یا تو خاموش ہیں یا اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو“امن”کا نام دے رہی ہیں۔ ان کے محلات روشن ہیں، مگر غزہ کے گھر اندھیرے میں ڈوبے ہیں۔ ان کی میزوں پر قازان بھر بھر کھانا ہے، اور غزہ کے بچے نوالے کو ترس رہے ہیں۔

افسوس! وہ ممالک جو مظلوم فلسطینیوں کی مدد کر رہے ہیں جیسے ایران، عراق، لبنان، یمن انہیں یہی عرب حکمران “دہشتگرد” کہتے ہیں۔ جس نے غزہ میں دوا بھیجی، وہ بدنام؛ جس نے شہید کے جنازے پر آنکھ نم کی، وہ مجرم؛ جس نے اسرائیل کو للکارا، وہ دہشتگرد! کیا مظلوم کے حق میں آواز اٹھانا دہشتگردی ہے؟ یا ظالم کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا؟ تاریخ اس سوال کا جواب ضرور دے گی۔

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
“المسلم أخو المسلم، لا يظلمه ولا يخذله”
“مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے بییار و مددگار چھوڑتا ہے۔”
(الکافی، ج 2، ص 199، حدیث نمبر 6، باب حقوق المؤمن علی المؤمن)

یہ حدیث اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کے ہاں متفق علیہ ہے، اور آج کی صورتحال پر اس سے بڑا آئینہ کوئی نہیں۔

ٹرمپ کو دیے گئے سونے کے ہار کل تاریخ کے گلے کا طوق بنیں گے۔ غزہ کے مظلوموں کو تنہا چھوڑنے والے حکمران کل قبر میں جواب دہ ہوں گے۔ اور ان مجاہدوں، طبی عملے، رضاکاروں اور ان ماؤں کے سامنے شرمندہ ہوں گے جنہوں نے اپنے بیٹے قربان کر دیے مگر باطل سے سمجھوتا نہ کیا۔
اے اہل عرب! کب تک غیرت کی قبریں آباد کرو گے؟ کب تک بیت المقدس کی فریاد پر کان بند رکھو گے؟

اور اے امتِ مسلمہ! جان لو کہ اب خاموشی جرم ہے۔ اگر ہم نے اپنی آواز نہ بلند کی تو اگلا ٹرمپ، اگلا ظالم، اگلا حملہ شاید ہمارے دروازے پر ہو۔

غزہ جل رہا ہے، ہم خاموش تماشائی  ہیں… تاریخ ہمیں نہیں معاف کرے گی۔

STAN
تبسم نقوی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link