اردو ورثہ کی فریاد۔| تحریر: سحر شعیل

گزشتہ نصف صدی سے ہم نے بحیثیت قوم جن چیزوں کا حلیہ بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ان میں ایک چیز ہماری قومی زبان اردو بھی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ نئی نسل حقیقی اردو زبان اور اس کے ارتقاء سے نابلد ہے۔ اردو زبان میں انگریزی کی ملاوٹ تو ہمیشہ سے ہی رہی ہے مگر اب شاید انگریزی کے بہت سے الفاظ اس طرح روزمرّہ میں شامل ہو گئے ہیں کہ ان کی جگہ اردو کے الفاظ متروک ہونے کے ساتھ ساتھ نا پید بھی ہو گئے ہیں۔ ایسے بے شمار الفاظ ہیں جن کے اردو الفاظ سے ہماری نوجوان نسل ناواقف ہے۔ اگر مبالغہ آرائی سے کام نہ لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہم آدھے تیتر اور آدھے بٹیر جیسی زندگی جی رہے ہیں اور اسی میں خوش ہیں۔

اردو کے بہت سے الفاظ کی جگہ روزمرہ میں اب ہم انگریزی کے الفاظ کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ جیسے حال ہی میں” الیکشن” کا لفظ انتخابات کی جگہ استعمال ہوا ہے۔ اور حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ اردو کی نشریات میں یہ لفظ بہت دھڑلے سے استعمال ہوا۔  اگر ایسے الفاظ کی فہرست بنائی جائے تو کثیر تعداد میں ایسے الفاظ سامنے آئیں گے جن کا استعمال نئی نسل کیا، ہم نے بھی نہیں کیا۔ ہم نے آہستہ آہستہ غیر محسوس طریقے سے اردو کے الفاظ کو انگریزی سے بدلا۔ مثال کے طور پر

ڈاکٹر کی جگہ ہم معالج یا طبیب بولیں تو شاید بچے سمجھ نہ پائیں۔ سکول کی جگہ مکتب کہیں تو ہم پرلے درجے کے دقیانوسی مانے جائیں گے۔ ہوٹل کی جگہ سرائے یا قیام گاہ کہیں تو سننے والے ہم پر ہنسیں گے۔ بجلی لفظ کا استعمال بھی ہم ترک کرتے جا رہے ہیں اور عموماً اس کی جکہ” لائٹ” بولنے لگے ہیں۔ ایک جملہ سماعت سے گزرا  آج ویدر بہت اچھا ہے۔ اچھے بھلے لفظ موسم کو ہم نے بلا وجہ نکال دیا۔ لفظ” ٹیچر” کا استعمال استاد کی جگہ ہونے لگا ہے۔ اسی طرح شکریہ کی جگہ “تھینک یو “، معذرت چاہتا ہوں کہ جگہ” سوری” اور گزارش ہے کی جگہ بڑی صفائی سے” پلیز ” نے لے لی ہے۔ چشمے کی جگہ” گلاسز”، استری کرنا کی جگہ “پریس کرنا”، مہمان آئے کی جگہ “گیسٹ” آئے، معمول کی جگہ” روٹین”، نکتہ نظر کی جگہ “پوائنٹ آف ویو”، وقت کی جگہ “ٹائم “، زوجہ کی جگہ “وائف ” چچا، تایا، ماموں کی جگہ “انکل ” ہمشیرہ کی جگہ “سسٹر”، ایک، دو، تین کی جگہ ” ون، ٹو، تھری” اور اسی طرح کے بے شمار الفاظ ہیں جن کا اردو استعمال کم کرتے کرتے بالآخر ہم نے ترک کر دیا ہے۔ جیسے کہ باغ کو ہم “گارڈن” کہنے لگے۔ سبز رنگ ” گرین ” بن گیا اور میدان ” گراؤنڈ” ہو گیا۔ قوم “نیشن ” کہلانے لگی اور شب ” نائٹ” ہو گئی۔ لفظ تعداد کو چھوڑ کر ہم “نمبر ” پر آ گئے اورفطرت کو ہم نے”نیچر” بنا دیا۔ روزمرّہ میں ہم مقامی کی جگہ ” لوکل، ” عشائیہ کی جگہ ” ڈنر”، براہِ راست کی جگہ ” ڈاریکٹ”، کارخانہ کی جگہ ” فیکٹری”، گھرانہ کی جگہ ” فیملی”، پرواز کی جگہ ” فلائٹ”، لباس کی جگہ “ڈریس” اور عموماً دوست کی جگہ ” فرینڈ” بولنے لگے ہیں۔ اس طرح کے الفاظ کی فہرست بہت لمبی ہے جو ہم روزمرّہ میں بولتے ہیں۔

اردو ادب کے چاہنے والوں کے لئے یہ ملاوٹ بھری زبان نا قابلِ قبول ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ کہنے کو تو اردو ہماری قومی زبان کا درجہ رکھتی ہے مگر یہ جملہ بھی اب شاید کاغذی کاروائی تک ہی ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کسی بھی قوم نے اپنی زبان کو چھوڑ کر کسی دوسری زبان میں ترقی کبھی نہیں کی۔ اس لئے اردو کی حالت کو بگاڑ کر ہم اپنے ورثے میں ملاوٹ کا جرم کر رہے ہیں اور ایسے میں ترقی کرنا کیسے ممکن ہو سکتا۔  اردو زبان کی چاشنی اور اس کے اپنائیت بھرے لہجے سے نا آشنا ہمارے آج کے نو جوان اسے اسی طرح ایک آمیزے کے طور پر جانتے ہیں۔ حالات کی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ خود اپنوں کے ہاتھوں ہی اردو زبان کو نقصان پہنچا ہے اور نقصان بھی ایسا جس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ زبان قوم کی ثقافت کا حصّہ ہوتی ہے اور ثقافت پر ملمع کاری قوم کی شناخت کو مسخ کر دیتی ہے۔

یہ بات قابلِ قبول ہے کہ اردو زبان شاید وہ واحد زبان ہے جو دوسری زبانوں کو اپنے اندر ضم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سالوں سے اس میں فارسی، عربی، اور سنسکرت کے الفاظ شامل رہے ہیں مگر حالیہ دور میں اس پر انگریزی کا غلبہ جاری ہے۔ ہماری روزمرہ بول چال سے اردو کے بہت نایاب اور میٹھے الفاظ ختم ہو رہے ہیں۔ اسی طرح الفاظ کے ساتھ اردو کا خاص لب و لہجہ بھی نا پید ہوتا جا رہا ہے۔ المیہ یہ کہ ہم انگریزی بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہماری شخصیت اس سے با رعب ہو گی۔ انگریزی بولنا  بلکہ اسے اپنا کر اپنےا صل کو بھول جانا غلط ہے۔ اس وقت ہم نے اپنی قومی زبان کے ساتھ جو سلوک کیا ہے آنے والے برسوں میں شاید یہ زبان صرف کتابوں تک محدود رہ جائے گی۔

اردو ادب کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایسی بہت سی ہستیاں گزری ہیں جنھوں نے ساری زندگی انگریزی پڑھی اور پڑھائی مگر وجۂ شہرت اردو ٹھہری۔ جیسے احمد شاہ پطرس بخاری۔ ان کے مزاح سے بھرپور ادب کو اقلیمِ اردو میں خاص مقام حاصل ہے مگر وہ انگریزی کے استاد تھے۔ اسی طرح مولانا محمد علی جوہر جو ایک انگریزی اخبار نکالتے تھے مگر اردو ادب میں ان کا مشہور زمانہ شعر زبان زدِ خاص و عام ہے۔

قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

اسی طرح فراق گورکھپوری جو تمام عمر انگریزی کے استاد رہے مگر شہرت بطور اردو شاعر اور نثر نگار پائی۔ مرزا محمد سعید بھی انگریزی پڑھاتے تھے مگر اردو ادب کی بہترین تخلیق “مذہب اور باطنیت” کے خالق تھے۔ اسی طرح کی ایک شخصیت فیض احمد فیض ہیں۔ یہ تمام شخصیات اردو ادب کے آسمان پر چمکنے والے روشن ستارے ہیں جن کی ضو سے ایک زمانہ فیض یاب رہا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ انگریزی پڑھنا یا پڑھانا اردو ادب پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ اردو زبان کی انفرادیت کو ہر حال میں زندہ رکھنا ہر صاحبِ قلم کا فرض ہے۔

اردو زبان ایک نغماتی زبان ہے اور اس کی خوب صورت اصطلاحات دلوں میں گھر کر لیتی ہیں۔ یہ ایک فراخ پس منظر رکھتی ہے اور تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ اس زبان کے ذریعے دہایوں تک کی ثقافت کا انعکاس ملتا ہے۔ یہ واحد مخلوط زبان ہے جس نے دوسری زبانوں کو اپنی آغوش میں چھپا رکھا ہے مگر ظلم یہ ہے کہ آج اسی زبان پر دوسروں کا غلبہ ہے۔ اور اس کے قصوروار یقیناً ہم ہیں۔ اردو زبان ہماری میراث ہے اور ہم اس کے امین ہیں۔ یہ صرف لفظوں کا مجموعہ نہیں ہے یہ احساسات ہیں اور اس کی تخلیقات ایک زمانے کی سوچ ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ قوموں کی زندگی میں وہ نسل یاد رکھے جانے کے قابل ہوتی ہے جو قوم کے ورثے کو بچاتی ہے۔ اس حیثیت سے یہ ذمہ ذاری ہم پر آتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اردو زبان کا دامن تھام کر رکھیں۔ بھلے ہی انگریزی کے ہزاروں الفاظ اردو کا حصہ بن جائیں مگردانستہ اردو کو چھوڑ دینا اس زبان کے ساتھ اچھا سلوک نا کرنے کے مترادف ہے۔ اردو ادب کا بہت بڑا خزینہ اس زبان میں محفوظ ہے جو ہماری شناخت ہے۔ ہمیں اس شناخت کو بچانے میں اپنا حصہ ڈالنا ہو گا ورنہ اس سنہری ورثے کو گنوانے میں ہم بھی مجرم ہوں گے۔

سحر شعیل کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link