یکم مئی مجھے مزدور کے بچوں کو پڑھانا ہے۔ | تحریر: نذر حافی
یکم مئی کو بعض ممالک میں دو مناسبتیں منائی جاتی ہیں۔ ایک یومِ مزدور اور دوسرے یومِ معلّم۔ دنیا میں یومِ مزدور کی ابتدا ۱۸۸۶ سے ہوئی۔یہ صنعتی انقلاب کا دور تھا۔ انسانوں سے بھی بطورِ صنعت کام لیا جانے لگا۔مزدوروں نے کام کے اوقات کو اٹھارہ گھنٹوں کے بجائے آٹھ گھنٹوں تک محدود کرنے کا مطالبہ کیا۔جب اشرافیہ نے کان نہیں دھرے تو مطالبہ احتجاج میں بدل گیا۔ طاقتوروں نے بزورِ طاقت مزدوروں کے ساتھ نمٹنے کا فیصلہ کیا۔حسبِ معمول پولیس کی مقدّس وردی کو غریب مزدوروں کا خون بہانے کیلئے استعمال کیا گیا۔ بھوک اورمشقّت کے مارے ہوئے سینوں سے رائفلوں کی سنگینیں ٹکرائیں۔ پیاسے لبوں کو گرما گرم گولیوں سے سیراب کیا گیا۔ کئی مزدور موقع پر ہی جاں بحق اور زخمی ہوئے اور کئی کو بعد ازاں پھانسیاں دی گئیں۔
ہمارے ہاں یوم مزدور منانے کا آغاز متحدہ ہندوستان کے دور میں ہوا۔ یکم مئی 1923 کو مزدور کسان پارٹی نے مدراس میں اس کی ابتدا کی۔ آج یکم مئی ۲۰۲۴ کو وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ” پاکستان اس وقت معاشی طور پر نازک دور سے گزر رہا ہے اور مجھے اس بات کا بھی بخوبی ادراک ہے کہ موجودہ مہنگائی نے ہمارے مزدور طبقے کو سب سے ذیادہ متاثر کیا ہے۔ حکومت خصوصی سبسڈیز، سماجی تحفظ اور تخفیفِ غربت کے پروگراموں کے ذریعے اپنے معاشی طور پر کمزور ہم وطنوں کی مشکلات کے ازالے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ ہم بہتر اور کم لاگت رہائش، مفت تعلیم و صحت اور سماجی تحفظ کے اقدامات کے ذریعے اپنے مزدوروں کی فلاح و بہبود کو مزید فروغ دے کر ان کے حالاتِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ مزدور دوست پالیسیوں اور اقدامات کے ذریعے ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ مزدوروں کو زرق حلال کے حصول کیلئے موزوں ماحول میسر ہو۔ اس طرح ہمارے مزدور پاکستان کی طاقت بنیں گے۔اس موقع پر میں بالخصوص ایسی باہمت خواتین جو اپنے خاندان کیلئے روزی کمانے کیلئے معاشرے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں انکے حوصلے وعزم کی داد دونگا اور انکی عظمت کو سلام پیش کرونگا
وزیراعظم کے پیغام میں راقم الحروف کو مزدوروں کیلئے سوائے وعدوں کے کوئی عملی پیغام دکھائی نہیں دیا۔ آج کے مزدور کے مسائل ۱۸۸۶ کے مزدوروں کی نسبت انتہائی سنگین ہو چکے ہیں۔ ہمارے ہاں کا مزدور نسل در نسل زوال پذیر ہے۔ وہ بیمار ہو جائے تو اُس کا بیمہ نہیں، اُس کے ساتھ حادثہ ہو جائے تو اُس کے کنبے کا کوئی کفیل نہیں، اور اُس کے ہاں بچے کی پیدائش ہو جائے تو اُس کی تعلیم کے اخراجات اٹھانے کی اُس میں سکت نہیں۔
اب مزدور کو یہ اطمینان بھی نہیں کہ اُسے روزانہ مزدوری ملے گی۔ اُسے یہ بھی نہیں سمجھ آ رہی کہ وہ آٹھ گھنٹے کی مزدوری کرنے کے بعد بھی بجلی، گیس اور پانی کا بِل کیوں نہیں ادا کرپاتا؟ وہ اپنی پوری طاقت اور محنت کے ساتھ مزدوری کرنے کے باوجود کیوں ایک انجکشن کی رقم، ایک گولی کی قیمت، ایک ڈاکٹر کی فیس تک ادا نہیں کر سکتا؟ ایٹمی ٹیکنالوجی کی حامل ریاست کا شہری ہونے کے باوجود آج کے جدید دور میں اُس کے بچے جدید تعلیم اور پینے کے صاف پانی سے کیوں محروم ہیں؟
قابلِ ذکر ہے کہ آج کا مزدور صرف وہ نہیں ہے جو جاکر اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتا ہے بلکہ آج ہم سب مقتدر اشرافیہ اور چند سیاسی خاندانوں کے مزدور ہیں۔ ہم میں سے ہر وہ شخص جسے تعلیم، صحت، عدل و انصاف، ٹرانسپورٹ، جان و مال کا تحفظ، رہائش، غذا، لباس اور سانس لینے کیلئے معیاری سہولیات اور صاف ستھرا ماحول میسّر نہیں ، وہ مزدور ہے اور اُس کا استحصال ہو رہا ہے۔
اشرافیہ کے زکام کا علاج بھی بیرون ملک ہوتا ہے، ان کے بچوں کے جداگانہ اسکول ہیں، سیاست اور بیوروکریسی پر انہی کا قبضہ ہے اور آگے چل کر بھی ان کی نسلوں نے نسل در نسل ہمیں اپنا مزدور بنائے رکھنا ہے۔مقتدر حلقوں کو دشمن کے بچوں کو پڑھانے کی فکر ہے لیکن مزدوروں کے بچوں کو پڑھنے سے اُنہیں خوف ہے۔ یہ خوف اس لئے ہے چونکہ اگر مزدوروں کے بچوں کیلئے معیاری تعلیم کا بندوبست کر دیا گیا تو پھر اشرافیہ اور مقتدر بیوروکریسی کے بچوں کے جوتے کون اٹھائے گا؟
اس کا راہِ حل فقط معیاری تعلیم میں مضمر ہے۔ جن لوگوں کی آمدن کم ہے ان کے بچوں کیلئے معیاری تعلیم کا بندوبست ریاستی قانون، انسانی شرافت اور دینی اخلاق کا تقاضا ہے۔ یکم مئی کو ہم میں سے ہر ایک کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ مجھے مزدور کے بچوں کو پڑھانا ہے۔ یکم مئی یومِ مزدور بھی ہے اور یومِ معلم بھی۔ آئیے اس روز کسی ایک مزدور کے بچوں کو معیاری تعلیم دلانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔