یومِ تکبیر پاکستان کی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش دن۔ | تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
یومِ تکبیر پاکستان کی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش دن ہے، جس کی اہمیت صرف قومی وقار اور دفاعی خودمختاری تک محدود نہیں بلکہ اس میں ایک وسیع تر تہذیبی، سیاسی اور اسٹریٹجک بیانیہ پنہاں ہے۔ 28 مئی 1998ء کو چاغی کے پہاڑوں میں کی جانے والی ایٹمی دھماکوں کی گونج نہ صرف خطے میں طاقت کے توازن کی بحالی کا اعلان تھی بلکہ یہ اعلان بھی کہ پاکستان اپنی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ یہ دن دراصل طویل جدوجہد، خفیہ منصوبہ بندی، سائنسی ریاضت، قومی عزم اور سیاسی دوراندیشی کی ایک مجسم علامت ہے۔
یومِ تکبیر کی اصطلاح بذاتِ خود ایک اسلامی ثقافتی تناظر رکھتی ہے۔ ’’تکبیر‘‘ یعنی ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ صرف مذہبی تاثر کا حامل نہیں بلکہ یہ اس قوتِ ایمانی کی نمائندگی کرتا ہے جو نامساعد حالات میں قوموں کو اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر ابھارتی ہے۔ جب یہ دن نامزد کیا گیا تو حکومتِ پاکستان نے عوام سے تجاویز مانگیں اور ہزاروں میں سے ’’یومِ تکبیر‘‘ کو منتخب کیا گیا، جو کئی زاویوں سے موزوں ترین تھا۔ یہ نہ صرف ایک عظیم کامیابی کی علامت ہے بلکہ خدا کی کبریائی اور اس پر ایمان کے اظہار کا بھی استعارہ ہے۔
اس دن کے پس منظر میں کئی دہائیوں پر محیط ایک تہہ در تہہ کہانی موجود ہے۔ بھارت کی طرف سے 1974ء میں “سمائلنگ بدھا” کے نام سے کیے جانے والے ایٹمی تجربے نے خطے میں ایٹمی دوڑ کا آغاز کیا۔ پاکستان کے لیے یہ محض ایک سائنسی چیلنج نہیں تھا بلکہ ایک وجودی خطرہ بھی تھا، خصوصاً اس تاریخی تناظر میں جب 1971ء میں پاکستان کو دولخت کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے یہ بات کہی تھی کہ “ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے”، تو یہ کوئی جذباتی نعرہ نہیں بلکہ اس قومی موقف کا اعلان تھا جو بعد میں ہر حکومت نے کسی نہ کسی شکل میں اپنایا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی کامیابی صرف سائنسدانوں یا حکمرانوں کا کمال ہی نہیں بلکہ اس میں خفیہ اداروں، بالخصوص آئی ایس آئی، کا وہ ناقابلِ تردید کردار بھی شامل ہے جو آج بھی کئی لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ یورپ، مشرق وسطیٰ اور ایشیائی ممالک سے حساس آلات کی خفیہ ترسیل، جرمنی سے ٹریشئم ٹیکنالوجی کا حصول، ایلومینیئم پرت کے پائپوں کی سنگاپور کے راستے بھارت کے ائیرپورٹ سے پاکستان منتقلی جیسی کارروائیاں صرف ایک منظم ریاستی مشن کا حصہ نہیں بلکہ یہ قوم کے غیرت مند اذہان کی بے مثال حکمتِ عملی کا شاہکار ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وطن واپسی اور ان کی شبانہ روز محنت نے وہ بنیاد فراہم کی جس پر پاکستان کے جوہری پروگرام کی عمارت تعمیر ہوئی۔ ان کا دعویٰ کہ ایک ڈیوائس افزائش پزیر آلہ تھا اور باقی ذیلی کلوٹن کے آلات تھے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان نے ایک مکمل تکنیکی مہارت حاصل کر لی تھی جو کسی بھی عالمی طاقت کے لیے باعثِ حیرت تھی۔
جب بھارت نے مئی 1998ء میں پانچ ایٹمی دھماکے کیے تو پاکستان کے سامنے ایک سخت امتحان تھا۔ عالمی دباؤ، معاشی پابندیوں کی دھمکیاں، اور سیاسی تنہائی کا اندیشہ، یہ سب ایک طرف اور قومی وقار و سلامتی کی حفاظت دوسری طرف۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اس دباؤ کے باوجود دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں چاغی اول اور بعد ازاں چاغی دوم میں کیے جانے والے چھ دھماکوں نے پاکستان کو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت اور اسلامی دنیا کی پہلی جوہری قوت بنا دیا۔
یومِ تکبیر صرف ایک عسکری مظاہرہ نہیں تھا بلکہ اس میں ایک تہذیبی بیانیہ بھی پوشیدہ ہے۔ یہ ان اقوام کے لیے پیغام تھا جو مسلم دنیا کو ہمیشہ مغلوب اور محتاج دیکھنا چاہتی تھیں۔ چاغی کے پہاڑوں میں دھماکے نہ صرف سائنسدانوں کی کامیابی تھے بلکہ یہ پوری قوم کے اجتماعی شعور، صبر، محنت، اتحاد، اور قومی حمیت کی نمائندگی بھی تھے۔
اس دن کی یادگار کے طور پر “چاغی میڈل” اور دیگر اعزازات کا اجراء ایک تحسین آمیز اقدام تھا، جس نے سائنسی و دفاعی میدان میں خدمات انجام دینے والے افراد کی حوصلہ افزائی کی۔ یومِ تکبیر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ کسی بھی قوم کی سلامتی، خودداری اور وقار اس کے سائنسی، فکری اور نظریاتی استقلال سے جڑے ہوتے ہیں۔ آج جب پاکستان کو اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے تو یومِ تکبیر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر قومی مفاد کے لیے قوم متحد ہو جائے تو کوئی رکاوٹ ناقابلِ عبور نہیں۔
یومِ تکبیر محض ایک دن کا نام نہیں بلکہ یہ پاکستان کے قومی شعور، تاریخی عزم، اور نظریاتی قوت کا استعارہ ہے۔ یہ دن ہر سال ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دفاع صرف توپ، بندوق اور بم سے نہیں بلکہ علم، اتحاد اور عزم سے مضبوط ہوتا ہے۔ یہ دن اس بات کی شہادت ہے کہ ایک نظریاتی ریاست اپنے اصولوں پر قائم رہے تو وہ ناممکن کو ممکن بنانے کا ہنر بھی رکھتی ہے۔