محکمہ تعلیم کی زبوں حالی اور اساتذہ کے مطالبات. | تحریر: اقبال حسین اقبال

اس وقت گلگت بلتسان میں گریڈ 14 کے اساتذہ حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ بی ایڈ کی بنیادی پر بھرتی ہونے والے اساتذہ کو 16 جبکہ سی ٹی والے ٹیچرز کو 14 گریڈ میں ترقی دی جائے۔اُن کا مزید کہنا ہے کہ اسی نوعیت کے 200 اساتذہ کو سفارشی بنیادوں پر 16 گریڈ میں ترقی دی گئی ہے جبکہ باقی ماندہ اساتذہ کو سکیل سے محروم رکھنا سراسر ظلم اور ناانصافی ہے۔

اس حوالے سے کل ایک شخص نے مجھے دل چسپ کہانی سنائی۔انھوں نے کہا کہ جنگ عظیم دوم کے دوران ہٹلر سے پوچھا گیا کہ ہمارا سب کچھ تباہ ہو رہا ہے اب ہم کیا کریں تو انھوں نے کہا آپ اپنے اساتذہ کو چھپائیں اور انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کریں۔اگر اساتذہ محفوظ ہوں گے تو وہ اگلی نسلوں کی بہترین تربیت کریں گے۔اقبال صاحب! پاک بھارت جنگ کا سماں ہے۔ آپ بتائیں زیرو فیصد رذلٹ دے کر 16 سکیل کا مطالبہ کرنے والے معزز اساتذہ کو ہم کہاں چھپائیں؟اور ایک ایسے وقت میں اگلی گریڈ کا مطالبہ کرنا جبکہ ہر طرف تعلیم کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے کس قدر حماقت کی بات ہے؟ایک محتاط اندازے کے مطابق 80 فیصد گورنمنٹ اساتذہ کے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور صبح سویرے اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں چھوڑ کر غریبوں کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دینے کے لیے چلے جاتے ہیں۔

میں نے کہا آپ کی بات کو کسی حد تک درست تسلیم کی چا سکتی ہے بیشک اچھے ، برے رذلٹ کا تعلق براہ راست اساتذہ کی کارکردگی سے ہے مگر خراب نتائج کے بہت سارے عوامل پنہاں ہیں جنہیں نظر انداز کر کے صرف اساتذہ کو مورد الزام ٹھہرانا اور اُن کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنا کسی صورت مناسب نہیں ہے۔یہ بات آپ کے علم میں ہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل A-25 کے تحت، مفت تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔پرائیویٹ اسکولوں کے فیل اور باغی طالب علموں کو والدین سرکاری سکولوں میں داخل کرانے کے بعد بھول جاتے ہیں کہ ان کے کاندھوں پر کتنی بڑی ذمہ داری عائد ہے۔اکثر والدین اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مناسب وقت نہیں دے پاتے ہیں۔حالانکہ والدین کا کردار بچے کی تعلیمی ترقی کے لیے اہم ہوتا ہے۔تعلیم کے گرتے ہوئے معیار میں گھر کے ماحول اور ماں باپ کی تربیت کا بہت زیادہ اثر ہے۔اکثر اساتذہ کو سیاسی دباؤ، غیر تعلیمی ڈیوٹیوں، اور غیر ضروری تبادلوں کا سامنا رہتا ہے، جس سے وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پوری توجہ سے انجام نہیں دے پاتے۔

علاوہ ازیں فرسودہ نصاب، فرسودہ طریقہ تدریس، ناقص امتحانی سسٹم، غیر تربیت یافتہ اساتذہ، سفارشی اساتذہ، سکولوں میں کلاسس کی کمی، متعلقہ مضامین کے ماہرین کی کمی جیسے عوامل کار فرما ہیں۔اساتذہ کلاس میں داخل ہونے سے قبل باقاعدہ سبقی منصوبہ بندی (لیسن پلان) بنانے میں کوتاہی برتے ہیں۔زیادہ نمبرات کے حصول کے لیے طلبہ کو مواد رٹوایا جاتا ہے جو بچے بلا سمجھے چیزیں یاد کر لیتے ہیں اور فوراً بھول جاتے ہیں۔باقی رہی کسر ہمارا امتحانی سسٹم نے تباہ کر دیا ہے۔بورڈ کے امتحانات میں نقل کا رجحان مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔امتحانی ہال میں طلبہ تک نقل پہنچانے میں خود اساتذہ معاونت کر رہے ہیں۔اساتذہ کا بے جا دباؤ طلبہ کی ذہنی صحت اور تعلیم پر اثر ڈال رہا ہے۔سکولوں میں طلبہ کی مناسب سُپر وژن اور نظم و ضبط نہ ہونے کی وجہ تعلیمی معیار مسلسل گر رہا ہے۔

یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ بچے منشیات کا استعمال کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے حافظے پر برے اثرات پڑ رہے ہیں۔ویڈیو گیمز جیسے پب جی وغیرہ نے تو بچوں کو تباہی کے دہانے لا کھڑا کر دیا ہے۔غیر معیاری غذا کے استعمال نے طلبہ کی ذہنی صحت متاثر کیا ہے اور سب سے بڑھ کر اساتذہ پوری احساس ذمہ داری، توجہ اور دیانت داری سے طلبہ کو نہیں پڑھاتے ہیں۔مخلص اساتذہ کی تعداد بہت کم ہے۔اکثر اساتذہ سیاسی گروہوں اور مذہبی حزبوں میں بٹے ہوئے نظر آتے ہیں جن کی گفتگو کا محور تعلیم کے بجائے اپنے اپنے قائدین کی دفاع اور مدح سرائی میں وقت گزارنا ہوتا ہے۔حکومت کے پاس چیک اینڈ بیلنس کا کوئی آلہ نہیں جو اساتذہ کی کارکردگی کو ماپ کر اُن کی مناسب حوصلہ افزائی کرے۔

یہ صرف آج کی بات نہیں ہے بلکہ قیام پاکستان سے اب تک جتنی بھی حکومتیں آئیں ہیں،انھوں نے ہمیشہ سے تعلیم کو ثانوی درجے پر رکھا ہے اور تعلیم جیسا اہم شعبہ مسلسل نظر انداز ہوتا آرہا ہے۔ تعلیمی ترقی کے لیے جتنی بھی پالیسیاں اور اصلاحات بنائے گئے وہ صرف کاغذوں اور فائلوں میں قید رہے۔انھیں عملی طور پر نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔2009ء کی تعلیمی پالیسی کے مطابق اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ قومی بجٹ کا سات فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کیا جائے گا اورملک کی شرح خواندگی 86 فیصد تک لے کر جایا جائے گا مگر بدقسمتی سے نہ صرف یہ خواب ادھورا رہا بلکہ معیار تعلیم بھی روز افزوں گر رہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق جماعت پنجم کے بیشتر طلبہ انگریزی کا ایک معمولی جملہ درست نہیں پڑھ سکتے۔طلبہ انگریزی اردو کی معمولی عبارتیں درست تلفظ اور روانی کے ساتھ پڑھنے سے قاصر نظر آتے ہیں جبکہ ریاضی اور سائنس کے مضامین کو سمجھنا گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

بہر حال ایک استاد ہونے کے ناتے گورنمنٹ اساتذہ سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے یہی کہوں گا کہ اگر قوم کے معمار خود مختلف مسائل کا شکار رہیں گے۔ان کے جائز مطالبات دبانے کی کوشش کی جائے گی تو وہ اپنی خدمات مکمل دل جمعی سے انجام نہیں دے سکیں گے جس کا نقصان براہ راست طلبہ کو ہوگا اور تعلیم و تربیت کا ڈھانچہ مکمل تباہ ہو کر رہ جائے گا۔حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم کو ترجیح دے، بجٹ میں اضافہ کرے، اساتذہ کے مسائل کو سنجیدگی سے لے، اور ایک ایسا نظام مرتب کرے جو معیاری تعلیم کو فروغ دے سکے۔تعلیم کی بہتری ہی قوم کی ترقی کی ضمانت ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link