AB

مقاومت اور مقاومتی بلاک۔ | تحریر: عارف بلتستانی

مقاومت انسانی زندگی کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے، جس سے استفادہ کیے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور بہت سے معاملات میں فطری طور پر اس پر عمل کرتا ہے۔ خطرہ جتنا زیادہ واضح ہوگا، اس شخص کی مقاومت اور ردعمل اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ ظالموں کے ظلم کے خلاف مقاومت ایک دینی اور قرآنی امر ہے۔ خدا نے ظلم و بربریت کے خلاف استقامت کو فرض سمجھا اور اپنے بندوں سے کہا کہ وہ ناانصافیوں کے سامنے ہتھیار نہ ڈالیں اور اپنی پوری طاقت سے لڑیں۔ قرآن مظلوم کی حفاظت کو فریضہ سمجھتا ہے اور ظلم کو قبول کرنے کی مذمت کرتا ہے۔ اسی کو مقاومت کہا جاتا ہے۔ مقاومت یعنی مزاحمت، استقامت، قدرت، پائیداری، استحکام اور کمر بستہ ہو جانا ہے۔

 علم اخلاق کی اصطلاح میں مقاومت، صبر کے معنی میں، علم سیاسیات کی اصطلاح میں مزاحمت، کھڑے ہونا، مخالفت اور اپوزیشن کے معنی میں جبکہ فقہ کی اصطلاح میں مقاومت جہاد (دفاعی جہاد) کے معنی میں ہے۔ یہاں مقاومت سے مراد جہاد کبیر ہے۔ جیسا کہ خداوند عالم نے ارشاد فرمایا کہ آپ کفار کی بات ہرگز نہ مانیں اور اس قرآن کے ذریعے ان کے ساتھ بڑے پیمانے پر جہاد کریں۔” جہاد کی مختلف  قسمیں ہیں۔ جہاد اکبر، جہاد اصغر اور جہاد کبیر۔ جہاد کبیر یعنی زندگی کے ہر محاذ (علمی، سیاسی، اقتصادی، فرھنگی، جنگی) پر  طاغوت کے ساتھ ہر پل مبارزہ کرتے رہنا۔ رہبر معظم سید علی خامنہ ائ مدظلہ العالی فرماتے ہیں؛ “جہادوں میں سے ایک جہاد ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں “جہاد کبیر” کہا ہے: “وجاھدھم جہاد کبیرا” “جہاد کبیر” کا کیا مطلب ہے۔؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کی نافرمانی، اس دشمن کی بات نہ مانو جو تم سے لڑنے کے لیے میدان میں ہے۔ اطاعت کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے تعمیل،  پیروی نہ کریں۔ عدم تعمیل کہاں؟ مختلف شعبوں میں؛ سیاست کے میدان میں، معیشت کے میدان میں، ثقافت کے میدان میں، فن کے میدان میں تعمیل۔ مختلف میدانوں میں دشمن کی بات نہ مانیں۔ یہ ’’جہاد کبیر‘‘ ہے۔

مقاومت سے ہماری مراد جہاد کبیر ہے، یعنی زندگی کے ہر شعبے میں دشمن کے ساتھ مبارزے میں رہنا۔ قرآن میں دشمن سے مسلسل مبارزے میں رہنے یہاں تک کہ آئمۂ کفر کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جیسے قرآن مجید، سورہ توبہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ  “اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ لوگ اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین کی عیب جوئی کرنے لگ جائیں تو کفر کے اماموں سے جنگ کرو، کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں، شاید وہ باز آجائیں۔۱۳۔ کیا تم ایسے لوگوں سے نہیں لڑو گے، جو اپنی قسمیں توڑ دیتے ہیں اور جنہوں نے رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا تھا۔؟ پہلی بار تم سے زیادتی میں پہل بھی انہوں نے کی تھی، کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔ ان سے لڑو، تاکہ تمہارے ہاتھوں اللہ انہیں عذاب دے اور انہیں رسوا کرے اور ان پر تمہیں فتح دے اور مومنین کے دلوں کو ٹھنڈا کرے۔ 

یہ آیات کس قدر صراحت سے کہہ رہی ہے کہ کسی بھی صورت میں میدان خالی نہیں چھوڑ سکتے۔ مبارزے سے ہاتھ اٹھانا یعنی زوال اور شکست کے لئے آمادہ ہونے کے مترادف ہے۔ جس طرح مسلمانوں نے آخری چند صدیوں میں جہاد سے ہاتھ اٹھایا تو تمدن اسلامی پر تمدن اٹلانٹک (غرب) نے غلبہ حاصل کر لیا۔ مسلمانوں نے حکم خدا کی نافرمانی کی تو شکست کھا گئے اور ہزار سالہ اسلامی حکومت ٹوٹ گئی، کیونکہ خدا اور اس کے ولی کو اپنا رہنماء بنانے کے بجائے یہود و نصاریٰ کو اپنا ولی بنایا تھا۔ یہود و نصاریٰ تو اس وقت تک خوش نہیں ہوتے، جب تک ان میں سے نہ ہو جائیں یا ان کی حمایت نہ کریں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فریاما کہ” اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا حامی نہ بناؤ، یہ لوگ آپس میں حامی ضرور ہیں اور تم میں سے جو انہیں حامی بناتا ہے، وہ یقیناً انہی میں (شمار) ہوگا، بے شک اللہ ظالموں کی راہنمائی نہیں کرتا۔ ۵۷۔ اے ایمان والو! ان لوگوں کو جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی، جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنایا ہے اور کفار کو اپنا حامی نہ بناؤ اور اللہ کا خوف کرو اگر تم اہل ایمان ہو۔

مسلمانوں نے یہودیوں کو اپنا ولی بنا کر سب کچھ ان کے ہاتھ میں دیا۔ دنیا پر حکمرانی بھی انہیں کی ہے، کیونکہ دنیا پر حکمرانی کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مشرق وسطیٰ پر کنٹرول کرے۔ بدقسمتی سے عصر امام خمینی سے پہلے دشمن نے مکمل طور پر مشرق وسطیٰ پر کنٹرول کر لیا تھا، کیونکہ دشمن کو مشرق وسطیٰ کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ جس طرح یہودی اسٹریٹیجسٹ بنام ہلفرڈ میکنڈر  نے کہا کہ “جہان پر حکمرانی وہی کرسکتا ہے، جس کے قبضے میں مشرق وسطیٰ ہو۔” اسی نظریئے کی بنیاد پر یہودی لابی نے منصوبہ بنایا اور اسی پر کام جاری رکھا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس کے بعد الفرڈ مہن  ، نیکولاس سپایکمن، آیزنہاور نے میکنڈر کے نظریئے کو عملی کرنے کی کوشش کی، یعنی تمدن غرب کی بقا کے لئے ہی کام کئے۔

 چس فریمن  ایک اور امریکی اسٹریٹیجسٹ ہے، جو مشرق وسطیٰ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ “مشرق وسطیٰ وہ جگہ ہے، جہاں ایشیا، افریقہ اور یورپ آپس میں ملتے ہیں اور اس ملاقات نے مشرق وسطیٰ کو دنیا کے تمام اسٹریٹجک آبنائے کی ماں بنا دیا ہے۔ دنیا میں اگر کوئی اسٹریٹجک آبنائے ہیں تو ان سب کی ماں مشرق وسطیٰ ہے۔ مشرق وسطیٰ پوری دنیا کا جغرافیائی محور اور اس میں دنیا کے نقل و حمل کے راستے ہیں۔ امریکہ کی عالمی طاقت کو وسعت دینے کی صلاحیت کے لیے مشرق وسطیٰ سے گزرنے کی صلاحیت بہت ہی اہم ہے۔ یعنی اگر امریکہ اس خطے میں راہداری کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ دنیا پر اپنی طاقت نہیں جما سکتا۔ اس خطے سے انخلاء کے فیصلے کا مطلب ہے کہ امریکہ اب دنیا کی پہلی طاقت نہیں رہے گا۔ زمین کے مرکز کے طور پر اس خطے کی جغرافیائی مرکزیت اور جدید انسانی زندگی کی گردش میں تیل کی اہمیت کی وجہ سے، یہ نقطہ امریکہ اور مغرب کے لیے دنیا کا سب سے اہم نقطہ ہے، یعنی امریکہ میں معیار زندگی کا انحصار اس خطے پر ان کے کنٹرول پر ہے۔

 اس کا مطلب ہے کہ امریکی معاشرہ سستے تیل پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ جس کے لیے مشرق وسطیٰ کے علاقے بالخصوص خلیج فارس پر جسمانی کنٹرول کی ضرورت ہے۔” وہ مزید لکھتا ہے کہ “مشرق وسطیٰ کو چھوڑنا کسی بھی طرح ہمارے آپشن میں سے نہیں ہوسکتا، حالانکہ ہمارے منحصر ممالک بعض اوقات ایسے کام کرتے ہیں، جو ہمارے مفاد میں نہیں ہوتے۔

 “Disengagement is not an option. But ungrateful client state must not be allowed to undercut U.S. interests” The American Conservativ, May 16,. 2016.

خلاصہ میں فری مین کا کلیدی جملہ یہ ہے کہ امریکہ مغربی ایشیاء کا کنٹرول اور غلبہ حاصل کیے بغیر عالمی سپر پاور نہیں بن سکتا اور اگر وہ مغربی ایشیاء سے نکل جائے تو اسے اب سپر پاور ہونے کی بات نہیں کرنی چاہیئے۔ دشمن کس قدر اپنی تہذیب کی بقا کے لئے لڑ رہے ہیں؟ اور ہم کس قدر خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔؟ دشمن کس طرح جہانی سوچ رکھتا ہے اور ہم کس قدر؟ ہمارا کام تو بس یہی ہے کہ کس طرح اپنے دوسرے احزاب کو گرانا ہے؟ کس طرح ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنی ہیں۔؟

 لیکن خداوند عالم کا شکر ہے ایک فرد خمینی کبیر کی عالمی سوچ نے مسلمانوں کو ایک دفعہ پھر جگا دیا۔ وہ بھی اپنی تہذیب و تمدن کے لئے سوچنا شروع کیا ہے۔ انقلاب اسلامی کے بعد مسلمانوں نے مقاومت شروع کی ہے۔ امام خمینی (رہ) کے بعد رہبریت، آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ائ مدظلہ العالی کے ہاتھوں میں ہے۔ ولایت فقیہ ہی مقاومت کا مرکز ہے۔ اب علم مقاومت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ جس پرچم کے تلے ایران، لبنان، یمن، عراق، سوریہ، بحرین، افغانستان، پاکستان، چین، روس، ترکی وغیرہ شامل ہیں۔ جس کو مقاومتی بلاک کا نام دیا جاتا ہے۔ رہبر معظم سید علی خامنہ ائ کی رہبری میں شہید قاسم سلیمانی نے ان سب ممالک کو متحد کیا اور ڈیل آف سینچری کے پرخچے اڑا دیئے اور داعش کا قلع قمع کیا۔ لہذا دشمن نے اس شخصیت کو ہم سے جلدی جدا کر دیا۔ لیکن شہید کے خون سے ہی  ملتیں اور آزادی پسند لوگ بیدار ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ شہید نے اپنا خون انقلاب کے دوسرے مرحلے اور تمدن اسلامی کے قیام کے راستے میں نچھاور کر دیا۔

شہید سلیمانی کی شہادت کے بعد رہبر معظم سید علی خامنہ ائ مدظلہ العالی نے انتقام سخت کا شعار بلند کیا، کیونکہ انتقام لینا، انسانی اقدار میں سے ایک ہے۔ انتقام سخت کا ایک مصداق امریکہ کا مشرق وسطیٰ سے اخراج ہے۔ جیسا کہ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ائ نے اپنے بیان میں کہا کہ انتقام سخت یعنی امریکہ کو اس منطقے (مشرق وسطیٰ) سے نکال باہر کرنا ہے۔ جب رہبر معظم کی اس بات کو میکنڈر  الفرڈ مہن، نیکولاس سپایکمن،  آیزنہاور…( سلیمانی غرب ).. … کے نظریات کے مقابلے میں دیکھتے ہیں تو تب پتہ چلتا ہے کہ سید علی خامنہ ائ مدظلہ العالی کی بصیرت اور سوچ کتنی گہری ہے۔ تب جا کر رہبر معظم کی انتقام سخت والی بات سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ اسی لیے رہبر معظم بار بار دشمن شناسی، امریکہ کے منطقے سے اخراج، شیعہ سنی اختلافات کے بجائے مشترکات پر اتحاد و اتفاق اور ملکی خود انحصاری پر بات کرتے رہتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمان ممالک خصوصاً وطن عزیز پاکستان کے پالیسی ساز ادارے اور شخصیات حالات کو سمجھے بغیر امریکہ کی اندھی تقلید کرتے نظر آتے ہیں۔ ان میں کچھ مذہبی شخصیات اور تنظیمیں بھی شامل ہیں۔

امریکہ رو بہ زوال ہے، وہ مشرق وسطیٰ میں اپنی طاقت کھو چکا ہے۔ تازہ تہران، ماسکو ملاقات نے تو ان کے ہوش اڑا دیئے ہیں۔ سی آئی اے کے سربراہ نے یہ بھی کہہ دیا کہ “ایران اور روس نے ہمیں بوڑھا کر دیا۔” وہ اب منطقے میں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس لیے رجیم چینج کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ جیسے ابھی پاکستان اور سری لنکا کی صورت حال دیکھ سکتے ہیں۔ اسی صورت حال میں پالیسی ساز شخصیات، ادارے اور عوام کو چاہیئے کہ اسی کا ساتھ دیں، جو امریکہ مخالف پالیسی رکھتا ہو اور سوچنا بھی چاہیئے کہ تمدن اسلامی کے بجائے تمدن غرب کی بقا کے لئے کیوں جنگ لڑ رہے ہیں۔؟ لیکن یہ یاد رکھئے کہ جس نے بھی امریکہ کی خدمت کی ہے اور اس کی ہدایت پر چل پڑا، اس نے اپنے لئے تباہی و بربادی کا سامان تیار کر دیا۔ لیبیا، عراق، افغانستان اور سری لنکا کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ جس نے بھی مقاومت کا راستہ اختیار کیا، وہ کامیاب ہوا اور مزید ترقی کی طرف گامزن ہے۔ پاکستان میں ان دونوں قسم کے لوگ موجود ہیں۔ اب ان پر منحصر ہے کہ امریکہ کی خدمت کرکے خود کو تباہی و بربادی کے دہانے پر لے جائیں یا مقاومتی بلاک میں شامل ہو کر مقاومت کا راستہ اختیار کرکے ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائیں۔

عارف بلتستانی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link