وہ وقت دور نہیں کہ روبوٹکس انڈسٹری میں چینی کمپنیز عالمی سطح پر معروف جدت طراز ہوں گی۔ | تحریر : سارا افضل

بیجنگ کے شمالی ضلع چھانگ پھنگ میں واقع فیوچر سائنس سٹی میں حالیہ دنوں روبوٹکس انڈسٹریل پارک کی تعمیر کا آغاز ہوگیا ہے۔ میونسپل گورنمنٹ نے گزشتہ سال “ڈوئیل روبوٹ انڈسٹریل پارک” بنانے کے منصوبے کا  افتتاح کیا تھا ،اس منصوبے کا   دوسرا پارک  بیجنگ کے جنوبی ضلع یی زووانگ میں واقع ہے۔ بیجنگ میں متعلقہ صنعت کی ترقی میں مدد فراہم کرنے لیے اس صنعتی پارک میں پبلک سروسز  پلیٹ فارمز کی تعمیر اور روبوٹکس جدت طرازی سے منسلک کاروباری اداروں کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز  کی  جائے گی ۔ ان پارکس کی تعمیر  ۲۰۲۶  کی پہلی ششماہی میں مکمل ہونے کی توقع ہے۔تکمیل کے بعد دونوں روبوٹکس پارکس کا کل رقبہ  تقریبا ۵۶ ہزار مربع میٹر  بنے گا  اور یہ کاروباری اداروں کے لیے معیاری فیکٹریوں کے طور پر کام کریں گے۔

روبوٹکس انڈسٹری میں جدت طرازی چین  کی ایک نمایاں صلاحیت ہے ۔ جدید صنعتوں میں جدت طرازی کے حوالے سے دنیا میں عمومی طور پر امریکہ  کی شہرت ہے جبکہ چین کو اس کا پیروکار سمجھا جاتا ہے۔ لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ انوویشن فاؤنڈیشن (آئی ٹی آئی ایف) کے ایک حالیہ تجزیے کے مطابق، جب روبوٹک جدت طرازی کی بات آتی ہے، تو اب وہ وقت دور نہیں کہ  عالمی سطح پر چینی کمپنیز  معروف جدت طراز ہوں گی۔ آئی ٹی آئی ایف نے چین کی روبوٹکس صنعت  میں جاری پیش رفت کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ابھی تک  تو چین روبوٹک جدت طرازی میں رہنما نہیں ہے ، لیکن اس کی مقامی پیداوار اور اس ٹیکنالوجی کو  اپنانے میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے  نیز  چینی حکومت نے اس صنعت کو ترجیح دی ہے ، لہذا چینی روبوٹکس کمپنیز کو صف اول تک پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔  آئی ٹی آئی ایف کے صدر اور  حالیہ رپورٹ کے مصنف رابرٹ ڈی ایٹکنسن کا کہنا ہے کہ بلاشبہ روبوٹکس امریکہ نے روبوٹکس ایجاد کیے لیکن بہت سی دیگر صنعتوں کی طرح  یہ  شعبہ بھی غیر ملکی حریفوں کے سامنے قیادت کھو بیٹھا ہے۔

چین، دنیا کی سب سے بڑی روبوٹ  کنزیومر  مارکیٹ، صنعت کی کامیابیوں اور مارکیٹ کی توسیع کو آگے بڑھانے کے لیے متعدد شعبوں میں روبوٹک ایپلی کیشنز کو آگے بڑھا رہا ہے. چین نے ۱۴ویں پانچ سالہ منصوبے (۲۰۲۱-۲۰۲۵) میں نیو جنریشن آرٹیفیشل انٹیلیجنس  ترقی کے منصوبے اور روبوٹکس صنعت کی ترقی کے  رہنما اصول جیسی پالیسیز جاری کیں ، جس سے صنعت کے مختلف پہلوؤں پر عمل درآمد میں تیزی آئی ہے۔ صنعتی  اندازوں کے مطابق، سال ۲۰۳۰  تک، انسان نما روبوٹ کی عالمی مارکیٹ کا پیمانہ ایک اعشاریہ ۹ ٹریلین یوآن  یعنی تقریبا ۲۶۳ اعشاریہ ۹  بلین ڈالر  تک پہنچ جائے گا،جس میں چین کی مارکیٹ کا حصہ ۳۷۶ اعشاریہ ۲  بلین یوآن یعنی تقریبا ۵۲ اعشاریہ ۷  بلین ڈالر   تک متوقع  ہے۔ آئی ٹی آئی ایف کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ چین توقع سے ۱۲ اعشاریہ ۵  گنا زیادہ روبوٹس کے ساتھ دنیا میں سب سے آگے ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین اس شعبے میں سیکھنے اور نئے تجربات کے ذریعے  اپنی کمی کو صلاحیتوں میں بدل رہاہے  ۔ اس وقت چینی کمپنیز جو روبوٹ تیار کرتی ہیں وہ اعلی پائے کی مغربی کمپنیز  کے معیار سے میل نہیں کھاتے ہیں لیکن عام طور پر ان کو قیمت کا فائدہ ہوتا ہے۔تاہم اہم بات یہ ہے کہ  چینی حکومت  نے روبوٹ تیار کرنے کو اولین ترجیح قرار دیا ہے اور اس کے لیے فراخدلانہ سبسڈی دی ہے۔ تجزیے کے مطابق  چین اب امریکہ کے مقابلے میں تقریبا تین گنا زیادہ روبوٹک پیٹنٹ فائل کرتا ہے۔ لہذا ، یہ امکان ہے کہ چین نہ صرف غیر ملکی روبوٹک پروڈیوسرز کی طرح جدت طراز بن جائے گا  بلکہ عالمی مارکیٹ میں اپنی لاگت کا ایک اہم فائدہ بھی برقرار رکھے گا۔

دنیا کی سب سے بڑی روبوٹ مارکیٹ  چین ہے اور یہاں  ہیومن روبوٹکس کی ایک جامع صنعتی چین کو ایک مکمل شکل اختیار کرتے دیکھا  جا سکتا ہے۔ کافی بنانے سے لے کر نمائشوں میں گائیڈڈ ٹورفراہم کرنے تک، چین نے انسان نما روبوٹس کے استعمال میں قابل ذکر  اضافہ  دیکھا ہے اور یہ  صنعتوں اور لوگوں کی روزمرہ زندگی کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔تاہم اس روبوٹ ٹیکنالوجی کی ترقی کو اب بھی بہت سی تکنیکی مشکلات کا سامنا ہے ، خاص طور پر موشن کنٹرول ، بصری ادراک  اور انسانی مشین تعامل جیسے شعبوں میں کئی چیلنجز ہیں ۔اپ سٹریم میں مہنگے ہارڈ ویئر اور انسان نما روبوٹ کی بلند قیمت بھی ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ مینوفیکچررز کو اکثر سافٹ ویئر تیار کرنے کے لیے خود پر انحصار کرنا پڑتا ہے. اس کے علاوہ، اعلی درجے کے ٹیلنٹ کی کمی ہے اور ڈیٹا پرائیویسی نیز  دیگر پہلوؤں سے متعلق پالیسیز  کو ابھی بھی مکمل کرنے کی ضرورت ہے.  چین کے ۱۴  ویں پانچ سالہ منصوبے میں روبوٹکس صنعت کی ترقی کے لیے جو رہنما خطوط بیان کیے گئے ہیں ،روبوٹ ایپلی کیشن منظرنامے کو ظاہر کرنے کے لیے روبوٹ صنعتی پارکوں کی منصوبہ بندی اور تعمیر  اسی  منصوبے اور پالیسی کا حصہ ہے۔ ابتدائی مرحلے میں کچھ ایپلی کیشن منظرناموں کی ضروریات کو اپ گریڈ کیا گیا ہے اور  آگے چل کر صنعتی پارکس میں ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مصنوعات لانچ  کی جائیں گی۔

اس وقت  چین،  میں  دماغ کی حساس  سرجری سے لے کر ہزاروں پیکیجز کی ڈلیوریز کو ترتیب دینے تک ، روبوٹ  اب روزمرہ زندگی کا ایک لازمی حصہ بن  چکے ہیں۔ لاجسکٹس کی صنعت  روبوٹس کو سب سے زیادہ استعمال کرنے والی صنعتوں میں سے ایک ہے ، ای کامرس کی مضبوط توسیع کی بدولت آن لائن شاپنگ پلیٹ فارمز اور ٹاپ لاجسٹکس کمپنیز مثلاًجے ڈی اور ایس ایف ایکسپریس  اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے روبوٹکس ٹیکنالوجیز کی ترقی میں بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔جے ڈی نے اپنے گوداموں میں پیکجز چننے اور ل ڈلیوریز  کے لیے مختلف قسم کے روبوٹ تیار کیے ہیں۔ ایک گودام جو روزانہ لاکھوں پیکج بھیجتا ہے، اسے روبوٹس کے استعمال سے کارکردگی کو پانچ گنا تک بڑھانے میں مدد ملتی ہے اور پیکج کی چھانٹی کرنے والے روبوٹس کی درستگی کی شرح   ۹۹ اعشاریہ ۹ فی صد  ہے۔  روبوٹس کو زندگیاں بچانے کے لئے بھی استعمال کیا جا رہاہے ۔چینی کمپنیز نے فائر فائٹرز سے لے کر ریسکیورز تک دوسروں کی حفاظت کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنے والے ریئل لائف  ہیروز کے لیے خصوصی روبوٹ تیار کیے ہیں اور صرف ایک  بیجنگ شہر میں ہی کم از کم ۳۰۰  کمپنیز ایسے روبوٹ تیار کر رہی ہیں۔

عام طور پر فیکٹریوں اور ڈسٹری بیوشن سینٹرز میں دیکھے جانے والے  روبوٹک ٹولز  اور خود مختار پیکیج چننے والوں کے علاوہ ، انسان نما  روبوٹ ہیلتھ کیئر  ، تفریح اور کسٹمر سروسز کی  صنعت میں ایک نئی طاقت کے طور پر ابھر رہے ہیں اور اب تو عوامی مقامات پر سروسز فراہم کرنے والے یہ روبوٹ لوگوں کے لیے معمول کی بات بن گئے ہیں ۔ ہیومنائیڈ روبوٹ یا انسان نما روبوٹ ، جو مصنوعی ذہانت، اعلی درجے کی مینوفیکچرنگ اور نئے مواد جیسی جدید ٹیکنالوجیز  سے لیس ہیں  اسمارٹ فونز کے بعد اگلی انقلابی پراڈکٹ   بنتے نظر آرہے ہیں ۔

سارا افضل کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link