ہماری ثقافتی اقدار اور بدلتا پاکستانی معاشرہ۔ | تحریر: سیدہ ایف گیلانی

ثقافت کسی بھی قوم کی روح اور پہچان ہوتی ہے۔ یہ نہ صرف ہمارے رہن سہن، لباس، زبان اور رسوم و رواج کی آئینہ دار ہوتی ہے، بلکہ ہماری اجتماعی سوچ، اخلاقی قدریں اور تہذیبی رویے بھی اسی کے دائرے میں آتے ہیں۔ پاکستان، جو اسلامی نظریے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا، ایک ایسی تہذیب کا امین ہے جس کی جڑیں صدیوں پرانی روایات، صوفیانہ افکار، خاندانی نظام اور باہمی احترام میں پیوست ہیں۔ لیکن آج جب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی رجحانات، ڈیجیٹل انقلاب، مغربی اثرات اور اندرونی سماجی انتشار نے ہماری ثقافتی اقدار کو شدید چیلنجز سے دوچار کر دیا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب جوائنٹ فیملی سسٹم پاکستانی معاشرے کی پہچان سمجھا جاتا تھا۔ بڑے بوڑھوں کا احترام، بچوں کی اجتماعی پرورش، اور رشتوں میں مضبوطی ہمارے تمدنی ڈھانچے کا حسن تھا۔بڑوں کی موجودگی کسی ذہنی دباؤ کی صورت میں ماہر نفسیات کا کام کرتی؛ لیکن اب ایٹمی خاندانوں (نیوکلئیت فیملیز) کے فروغ، معاشی دباؤ، اور سوشل میڈیا پر انحصار نے خاندانی رشتوں میں وہ قربت اور اپنائیت ختم کر دی ہے۔ بزرگ تنہا ہو رہے ہیں اور نوجوان اپنی الگ دنیا میں مگن۔

اردو ہماری قومی زبان ہے اور یہ ہماری تہذیبی شناخت کی بنیاد بھی۔ لیکن آج کا نوجوان طبقہ انگریزی اور ہائبرڈ زبان (اردو + انگلش) کو ترجیح دیتا ہے۔ دوسری جانب مغربی طرزِ لباس اور فیشن نے مقامی ملبوسات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ شادی بیاہ کی رسومات ہوں یا تہوار، سب کچھ مصنوعی نمائش اور دکھاوے کی نذر ہو رہا ہے۔

ٹی وی ڈرامے، فلمیں، اور خاص طور پر سوشل میڈیا ایپلیکیشنز نے پاکستانی معاشرے میں نئی اقدار متعارف کروا ئیں ہیں۔ اخلاقی حدود کی پامالی، فضول شہرت کی دوڑ، اور سستی تفریح کی بھرمار نے نوجوان ذہنوں کوالجھا دیا ہے۔ اب سوشل ویلیوز کا تعین ٹک ٹاک ویڈیوز، فیس بک اور ینسٹا گرام ٹرینڈز کرتے ہیں نہ کہ گھر، مسجد یا درسگاہ۔

پاکستانی ثقافت کی بنیاد اسلامی تعلیمات اور روحانی افکار پر ہے۔ مگر آج مذہب کو یا تو ذاتی معاملہ سمجھا جا رہا ہے یا شدت پسندی کے ایک محدود خول میں بند کر دیا گیا ہے۔ برداشت، رواداری اور باہمی محبت کے جو پیغام ہماری تہذیب کا حصہ تھے، وہ دھندلا چکے ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ ثقافتی اقدار جامد نہیں ہوتیں بلکہ وقت کے ساتھ ان میں ارتقاء آتا ہے، لیکن اس ارتقاء کو بگاڑ بننے سے بچانا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اسکولوں میں اخلاقی تعلیم، اردو زبان کی ترویج، صوفی ادب کا فروغ، اور خاندانی نظام کی بحالی پر توجہ دینا ہوگی۔ میڈیا کو بھی اپنی سماجی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ایسے مواد کو فروغ دینا چاہیے جو مثبت ثقافتی شناخت کو تقویت دے۔

بین الاقوامی میڈیا، غیر ملکی تعلیمی نظام، اور کثیرالقومی اداروں نے پاکستانی نوجوانوں کو ایسی ثقافت سے آشنا کر دیا ہے جو مقامی اقدار سے متصادم ہے۔ اس دباؤ میں اکثر نوجوان احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں، اور مغربی طرزِ زندگی کو ہی ترقی کی علامت سمجھتے ہیں۔گویا نوجوان نسل بین الثقافتی دباؤ یعنی کراس کلچرلر پریشر کا شکار ہے۔

ثقافتی تبدیلیاں شہری علاقوں میں تیز تر ہو رہی ہیں، جبکہ دیہی معاشرے نسبتاً زیادہ قدامت پسند ہیں۔ مگر شہری ثقافت کا اثر دیہات پر بھی پڑ رہا ہے، خاص طور پر جب دیہی نوجوان شہر یا بیرونِ ملک تعلیم یا ملازمت کے لیے جاتے ہیں اور واپس آکر ایک “منتقلی شدہ ثقافت” لاتے ہیں۔

ہمارے تعلیمی ادارے جدید نصاب اور زبان کو تو اپناتے ہیں لیکن مقامی ثقافت اور قومی تشخص کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ نہ اردو زبان کا فکری فروغ ہے، نہ قومی تہذیب کی کوئی ترجمانی۔ نتیجتاً طلبا اپنی جڑوں سے کٹ جاتے ہیں۔

عورت کا روایتی کردار ماں، بہن، بیٹی کے ساتھ ساتھ اب معاشی و سیاسی میدان میں بھی نمایاں ہے۔ لیکن بعض اوقات جدیدیت کے نام پر نسوانی شناخت کو غیر فطری طرزِ حیات میں ڈھالا جا رہا ہے۔ ہمیں توازن اور احترام پر مبنی سوچ کو فروغ دینا ہوگا۔

سوشل میڈیا نے جہاں معلومات کی ترسیل کو آسان بنایا، وہیں سطحی سوچ، شہرت کی خواہش اور ’وائرل‘ ہونے کی دوڑ نے نوجوانوں کو تہذیبی گہرائی سے دور کر دیا۔ اَب مزاح، لباس، گفتگو اور انداز میں وقار کی بجائے چٹکیاں، نقالی، اور فحاشی غالب ہے۔

ہمارا تہذیبی ورثہ صوفی شعرا، مزارات، اور عوامی ادبیات میں محفوظ ہے۔ بلھے شاہ، شاہ حسین، سچل سرمست، وارث شاہ اور خواجہ فرید جیسے شعرا نے جو روحانی پیغام دیا، وہ آج بھی وحدت، امن اور انسانیت کی اساس بن سکتا ہے۔ اس ورثے کو نصاب، میڈیا اور میلوں میں زندہ کیا جانا چاہیے۔

بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کمیونٹیز، خاص طور پر برطانیہ، کینیڈا، امریکہ اور آسٹریلیا میں، اپنی ثقافت کے تحفظ کے لیے اردو اسکول، میلاد، عید میلے اور مشاعرے منعقد کرتے ہیں۔ ان کی کوششیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہماری ثقافت زندہ رہ سکتی ہے، بس خلوص، ادارہ جاتی معاونت اور پالیسی درکار ہے۔

ثقافتی تحفظ کے لیے ریاست کو قومی زبان کے فروغ، علاقائی زبانوں کی سرپرستی، ادب و فن کی سرکاری سطح پر ترویج، اور میڈیا کے لیے اخلاقی رہنما اصول جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ ثقافت کو صرف تفریحی سرگرمی نہ سمجھا جائے، بلکہ قومی بقاء کا اہم ستون تسلیم کیا جائے۔

ہمیں اس سوال کا جواب اب دینا ہوگاکہ کیا ہم آنے والی نسل کو ایک ایسی تہذیب دینا چاہتے ہیں جو صرف یادداشتوں میں زندہ ہو یا ایک ایسی متحرک، مثبت اور متوازن ثقافت جو جدید دنیا میں بھی اپنی پہچان قائم رکھ سکے؟

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی جڑوں سے جُڑے رہتے ہوئے آگے بڑھیں تاکہ پاکستانی معاشرہ جدیدیت اور تہذیب کا خوبصورت سنگم بن جائے، نہ کہ اپنی اصل کو بھول بیٹھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link