گھوڑے ہنہناتے رہے، قوم مرتی رہی۔ | تحریر: عارف بلتستانی
یہ تحریر ایک ایسے منظرنامے پر مبنی ہے جہاں قومی ترجیحات عقل و خرد کی نہیں، بلکہ غلامی کا طوق اور دکھاوے کی آئینہ دار ہیں۔ کبھی قوموں کی جنگیں گھوڑوں پر لڑی جاتی تھیں۔ اصطبل بارود کا گودام تھا، اور نیزہ قومی غیرت کی علامت تھا۔ کبھی گھوڑا جنگ کا ہتھیار تھا، اب صرف نمائش کی زینت ہے۔ لیکن ہم اب بھی “گھوڑے کی اصطبل کے لیے لاکھوں کا بجٹ مختص کرنے” جیسے فلسفوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ آج، جب دنیا چاند پر بستیاں بسا رہی ہے، کچھ ذہن ایسے ہیں جو اصطبل کو تقدیر کا طلسم سمجھے بیٹھے ہیں۔
قوم بھوکی ہے، پیاسی ہے، تعلیم سے محروم ہے۔ ہسپتالوں میں نہ ڈاکٹر ہیں، نہ دوائیں؛ اگر کچھ ہے تو صرف کھنڈرات میں گونجتی ماؤں کی چیخیں۔ بچے سڑک کنارے علم کی بھیک مانگتے ہیں، جبکہ کچی جھونپڑیوں میں علم کے متلاشی دبے ہوئے ہیں۔ جبکہ ہمارے “رہنماے قوم” اصطبل کی چمکتی اینٹوں پر فخر کر رہے ہیں۔ یہ محض پسماندگی نہیں، بلکہ عقل و خرد، شعور و آگہی، بنیادی ضروریات اور ترجیحات کا کھلا مذاق ہے۔ یہ وہی سوچ ہے جو آج بھی ماضی کی جہالت کے مزار پر سجدہ ریز ہے اور حال کے زندہ مسائل سے نظریں چرا رہی ہے۔
دنیا لائبریریاں تعمیر کرتی ہے، ہم اصطبل بناتے ہیں۔ وہ تعلیم بانٹتی ہیں، ہم ٹانگیں ناپتے ہیں۔ انہیں انسانیت کی فکر ہے، ہمیں گھوڑوں کی فکر۔ حکمران اگر گھوڑے پالنے کو قومی خدمت سمجھیں، تو یہ محض جاہلیت نہیں بلکہ ایک بھوکی، پیاسی، بیمار، بےروزگار قوم کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ اس سے بڑھ کر جرم وہ عوام کا ہے جو ایسے تماشبین کو “سیاسی لیڈر” سمجھ کر ووٹ دیتی ہے۔
کیا یہ وہی قوم ہے جس نے کلمہ “اقْرَأْ” سے آغاز کیا تھا؟ جس کا نبی اُمّی تھا مگر جس نے دنیا کو علم کا چراغ دیا؟ آج اس کی امت ایسے لوگوں کو اپنا حکمران مانتی ہے جو گھوڑوں کے اصطبل پر اربوں جھونک کر سمجھتے ہیں کہ یہی ترقی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اصطبل کی پرورش تب ہوتی ہے جب ذہن مردہ ہوں۔ جب قوم کا کوئی خواب نہ ہو بلکہ صرف خواب میں ہو۔ جب رہبر علم کا چراغ نہ ہو، بلکہ شاہی تماشا دکھانے والا مسخرہ ہو۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ قوم کے فیصلے وہ لوگ کر رہے ہیں جنہیں الف سے انار اور بے سے بے وقوفی کے سوا کچھ نہ آتا ہو۔ وہ آج تعلیم کے منہ پر تمانچہ مار رہے ہیں اور اصطبل کو قومی منصوبہ قرار دے رہے ہیں۔ گویا تعلیم، صحت، عدل، انصاف، معیشت یہ سب فضول چیزیں ہیں۔ بس اصطبل میں موجود گھوڑا ہنہناتا رہے کافی ہے۔
اصل مسئلہ اصطبل نہیں، سوچ کا ہے۔ جب رہنما کی نظر میں قوم کا مستقبل نہ ہو بلکہ اپنی ذات کے مفادات ہوں، جب سیاستدان کا مقصد تعلیم نہیں بلکہ پروپیگنڈہ ہو، جب اہلیت کی جگہ خوشامد، حوصلے کی جگہ خوف، اور علم کی جگہ اصطبل ہو، تو پھر قومیں ترقی نہیں کرتیں، صرف سُرخیاں بنتی ہیں۔ پھر رہبر وہی بنتا ہے جس کا گھوڑا زیادہ مہنگا ہو، نہ کہ جس کا ضمیر بیدار ہو۔
یاد رکھو! جس قوم کے حکمران اصطبل بناتے ہوں، وہ قومیں لائبریریاں نہیں دیکھتیں، صرف غلامی دیکھتی ہیں۔ قوم کا اصل دشمن وہ نہیں جو ہتھیار سے مارے، بلکہ وہ ہے جو جہالت کے نشے میں قوم کو تباہ کر دے۔ اور افسوس! اس سے بڑا جرم وہ عوام کرتی ہے جو ایسے عقل کے اندھوں کو “سیاسی رہبر” مانتی ہے۔ جس کا چہرہ دکھاوا ہو، اور جس کی جیب میں قوم کا مال ہو، اسے ووٹ دینا محض بیوقوفی نہیں، غلامی کی آخری حد ہے۔ قومیں مال و زر سے نہیں، عقل، علم، اور کردار سے بنتی ہیں۔ رہبر وہ ہوتا ہے جو علم بانٹے، نہ کہ اصطبل دکھائے۔
اب انتخاب عوام کے ہاتھ میں ہے، وہ گھوڑوں کے اصطبل کو سلام کرے گی یا علم کے چراغ جلائے گی؟ وہ رہنما کے تماشے کو ووٹ دے گی یا آنے والی نسلوں کا مستقبل سنوارے گی؟ یاد رکھیں، قومیں اسلحے سے نہیں، افکار سے مرتی ہیں۔ اور اگر یہی روش رہی، تو تاریخ ہمیں “اصطبل کے وارث” کے نام سے یاد کرے گی، نہ کہ علم کے شیدائی اور زندہ و جاوید قوم کے طور پر۔ بلکہ تاریخ ایک مزید جملہ لکھے گی؛ “کتابیں جلتی رہیں، گھوڑے دوڑتے رہے۔ قوم مرتی رہیں اور گھوڑے ہنہناتے رہے اور یہ قوم غلامی کے دلدل میں
ڈوب گئے کسی کے زبان سے اس غلامی کے خلاف آواز تک نہ نکلی”۔