کراچی شہر میں پتھر بندھے اورکتے آزاد ہین۔ | تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
کراچی میں ہرگھنٹے میں گن پوائنٹ پر5 افراد لوٹ لیے جاتے ہیں۔ رواں برس کی پہلی سہ ماہی کے دوران اوسطاً ہر بارہ منٹ میں ایک شخص اپنی گاڑی، نقدی یا موبائل فون سے محروم کردیا جاتا ہے۔ جبکہ روزانہ اوسطاً 8 افراد کویہ ظالم چند ٹکوں کے حصول کیلیؑے قتل کرنےسے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی حکومت کے ادوارمیں کراچی پولیس شہرمیں ڈاکووں اورلُٹیروں کوروکنے میں مکمل ناکامی پرشرمندہ بھی نہیں ہے۔ ان کے دورمیں ڈکیتوں اورقاتلوں کوکھلی چھٹی ملی ہویؑ ہے۔ صوبہ سندھ کی پولیس گویا سندھ گورنمنٹ کی کارکردگی کی ناکامیوں کا منہ بولتاثبوت ہے۔ کراچی شہرمیں پتھربندھے ہیں اورکتے آزاد ہیں! دوسری جانب کچے کےجاگیرداروں کے پالتو (دھاڑیل) ڈاکو بھی ان کی رٹ کےلیےسالوں سے چیلنج بنے ہوےؑ ہیں۔
سینیئرسپرنٹینڈ ینٹ آف پولیس ساجد سدوزئی کے مطابق ایسے گروہ موجود ہیں جو کرائے پر اسلحہ مجرمان کو دیتے ہیں۔ ان سے سوال کیا گیاکہ اسلحہ کرائے پردینے والے ملزمان کی وجہ سے کتنی فیصد وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے؟ توجواب تھا کہ تقریباً 20 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔ کریمنلزکو اسلحہ کی فراہمی سے متعلق خبریں ہیں کہ بعض اسلحہ ڈیلرزکے علاوہ ذرا یؑع کا کہنا ہےکہ ماضی میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا بھی ایک ایسا کارندہ پکڑا گیا تھا جو ڈکیتوں کواسلحہ کرایئے پردیتا رہا ہے۔ جسے گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ کچھ منشیات فروش گروپ بھی پیسہ بنانےکیلیؑے نشے کے عادی افراد کو پستول دے کر وارداتیں کرواتے ہیں اور پھران سے چھینے ہوےؑ موبائل فون اور نقدی کے بدلےانھیں منشیات دے کرفارغ کردیا جاتا ہے۔ جب یہ سوال محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے سینیئرسپرنٹینڈ ینٹ آف پولیس ساجد سدوزئی سے کیا گیا توانھوں نے کہا کہ پولیس کے پاس اسٹریٹ کرمنلزیاان کے گروہوں کی کل تعداد کے حوالے سے کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے؟ اورنہ ہی اسلحہ کرائے پر دینے والے ملزمان کی کوئی تعداد موجود ہے؟
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ڈیٹا کے مطابق کراچی میں سال 2016 میں ڈکیتوں کی فائرنگ سے 73 افراد قتل ہوئے تھے۔ سال 2017 میں یہ تعداد کم ہوئی اور54 افراد کو ڈکیتی مزاحمت پر قتل کیا گیا۔ سال 2018 میں بھی یہ تعداد برقرار رہی اور54 شہریوں کو ڈکیتوں نے قتل کیا۔ سال 2019 میں اس تعداد میں اور کمی آئی اور یہ تعداد 44 ہو گئی لیکن سال 2020 میں اس تعداد میں اضافہ ہوا اور 56 افراد ڈکیتی مزاحمت پر ہلاک ہوئے۔ جواب تک کم ہونے میں نہیں آرہی ہے۔
سٹیزن پولیس لاؑیزن کمیٹی کے مطابق گذشتہ سال2023 میں کراچی میں اسٹریٹ کرائم کے واقعات 85948 ہوئے۔ گذشتہ سال 110 شہری ڈاکووں کے ہاتھوں موت کے گھاٹاتار دیؑے گئے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ سال3600 ملزمان کوگرفتار کیا گیا۔ جن کے خلاف پولیس نہایت کھوکھلےمقدمات بناتی ہے۔ جوچند مہینوں کی جیل کاٹ کرمجرمانہ سرگرمیوں کی دنیا میں پھرکرایؑم کے عمل میں قدم رکھ لیتے ہیں۔ جس کی وجہ سےجراؑیم کی بڑھوتری میں کویؑی کمی آتی دکھایؑی نہیں دیتی ہے۔ کراچی جومجرمان کی جنت ہے۔اس کو سنبھالنے اورجرایئم کا خاتمہ کرنے میں جاگیرداروں کی سندھ حکومت اورسندھ پولیس بری طرح سے نا کام دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان اورسندھ کے لوگو! تمہارا مقدریہ لُٹیرےجاگیرداراورسرمایہ دارہیں۔ جوعوام کواقتدارکی دہلیزپرچڑھنے ہی نہیں دیتے ہیں۔ ہندوستان نے آزادی کے بعدجاگیری داری نظام کوختم کر کے سات صوبوں سے باون صوبوں میں ملک کو بدل کرعوام کواقتدار کا ساجھی بنا لیا۔ بعد کے ادوار میں جس نے جتنی محنت کی اُتنا بڑا سرمایہ دار بن کے ابھرا۔مگر پاکستان کے عوام جاگیرداروں اورسرمایہ داروں کے چنگل کی وجہ سےان کے اوران کےپالتوڈکیتوں کے بھی نشانے پر ہیں۔
اگرحکومتیں خاص طورپرسندھ حکومت سدنجیدہ ہیں تواسٹریٹ کرائم کے خاتمے کے لیئے مرکزی اورصوبایئ حکومتوں کوقانون سازی کا فریضہ نبھانا ہوگا۔ ڈکیتی اوراسنیچنگ کرنے والوں اورگن پوائنٹ پر شہریوں کو لوٹنےوالوں پراقدام قتل کا مقدمہ قائم کرنے کا قانون بنایاجانا چاہئے۔ تاکہ ملک سے جرائم ، ڈکیتیوں اوردہشت گردی کاخاتمہ کر کے شہریوں کوپرسکون ماحول فراہم کیا جا سکے اورملک سے قتل ولوٹ مارکے کلچرکا خاتمہ کیا جا سکے۔
پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید