مسلمانوں میں اہلِ تشیع کے عقیدہ امامت کی حقیقی تصویر۔ | تحریر: نذر حافی
انسانی معاشرے میں باہمی تعامل ایک لازمی امر ہے۔ اس تعامل کے رُشد، ارتقا اور نکھار کیلئے ایک دوسرے کے اخلاق، رویّوں، عقائد، آداب ، رسومات اور نظریات سے درست آشنائی ضروری ہے۔ اہلِ تشیع جہانِ اسلام کا دوسرا بڑا اور موثر فرقہ ہیں۔ ان کا سب سے نمایاں عقیدہ ” امامت” ہے۔ اہلِ تشیع کا عقیدہ امامت درست ہے یا غلط اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ ہم اس تحریر میں صرف یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اہلِ تشیع کا عقیدہ امامت ہے کیا؟
اہلِ تشیع کے ہاں عقیدہ امامت در اصل ختمِ نبوّت پر مہر ہے۔ اس عقیدے کے مطابق پیغمبرِ اسلام کے بعد قیامت تک نہ ہی کسی پر وحی آئے گی اور نہ ہی کتاب نازل ہو گی اور نہ کوئی شریعت آئے گی۔ پس کسی امام پر فرشتہ وحی نازل نہیں ہوتا۔ نہ ہی کسی امام پر کوئی کتاب یا شریعت نازل ہوتی ہے۔ اہلِ تشیع، اللہ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہﷺ کے دین کے محافظ اور مبلغ کو اپنی اصطلاح میں امام کہتے ہیں۔
یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ شیعہ اپنے اماموں کو معصوم کیوں کہتے ہیں؟ معصوم سے مراد یہ ہے کہ ایسا امام جو قرآن و سنّت بیان کرنے، اس کی حفاظت کرنے یا اُس پر عمل کرنے میں کسی قسم کی سستی، غلطی، معصیت، نسیان یا بھول چوک کا مرتکب نہیں ہوتا ۔شیعوں کے ہاں امام عام لیڈروں کی مثل نہیں ہوتا بلکہ وہ اُمت کے اعمال کی میزان ہوتا ہے۔لہذاغلطی، سستی یا بھول چوک کرنے والے کو امت کے اعمال کیلئے معیار اور میزان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
چونکہ امامت، نبوّت کا راستہ بند کرتی ہے اور ختمِ نبوّت کی مہر ہے، اسی لئے اہلِ تشیع کے ہاں امامت ضروریاتِ دین میں سے ہے۔
امامت کو اصول دین میں شامل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ نبیؐ نے جہاں اپنے بعد بارہ اماموں کے بارے میں بتایا ہے وہیں یہ بھی فرمایا ہے کہ جس نے اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا وہ جہالت کی موت مرا۔یہ حدیث اہلِ سُنّت اور اہلِ تشیع یعنی طرفین نے متواتر نقل کی ہے۔
اب آئیے اہلِ تشیع کے عقیدہ امامت کے حوالے سے کچھ غلط فہمیوں پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔
پہلی غلط فہمی
شیعہ اپنے اماموں پر فرشتہ وحی کے نازل ہونے کے معتقد ہیں اور اُن کے بارہ امام نعوذباللہ بارہ نبی ہیں وغیرہ وغیرہ
غلط فہمی کا جواب
ختمِ نبوّت کا مطلب ہے کہ اب نبوّت ختم ہو گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا قیامت تک اُمّت کی ہدایت کی ضرورت بھی ختم ہو گئی ہے۔ یقیناً ہدایت کی ضرورت باقی ہے۔ اس ہدایت کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے اہلِ سُنّت ختم نبوّت کے بعد خلافت کے قائل ہیں۔ یہ خلافت کیا ہے؟ اہلِ سُنّت کی طرف سےخلافت در اصل ختم نبوّت پر مہر ہے کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا، اب خلیفہ ہدایت کی ذمہ داری نبھائے گا۔
سقیفہ بنی ساعدہ میں جب خلافت کا سلسلہ شروع کیا گیا تو حضرت علی ؑ اور شیعیانِ علی ؑ کو اُس میں شامل نہیں کیا گیا، اس لئے شیعہ کے ہاں ختمِ نبوّت کے بعد اُمت کی ہدایت کیلئے خلافت کے بجائے امامت موجود ہے۔جیسے اہلِ سُنّت کی طرف سے خلافت در اصل ختمِ نبوّت پر مہر ہے ویسے ہی اہلِ تشیع کی طرف سے یہ عقیدہ امامت ختم نبوّت پر مہر ہے کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا اور ہدایت کا فریضہ امام انجام دے گا۔
دوسری غلط فہمی
شیعہ بارہ اماموں کے قائل ہیں، اہل تشیع کے مطابق یہ بارہ امام آلِ رسولؐ یا قریش سے ہونگے، اب قیامت اسی ایک ہی نسل سے بارہ امام کیسے پیدا ہونگے جبکہ اب تو نسلیں بھی مخلوط ہیں؟
غلط فہمی کا جواب
پیغمبر نے اپنے اہل بیت ؑ کو اس لئے اپنے بعد ہدایت کا مرکز قرار دیا کہ آپ نے اپنے اہلِ بیت کی تربیت خود کی۔ اُس وقت لوگ نئے نئے مسلمان ہو رہے تھے لہذا پیغمبر انہیں بتا رہے تھے کہ دین میرے اہلِ بیت سے سیکھنا۔نبی ؐ نے پہلے حضرت امام علیؑ اور حضرت فاطمۃ الزہرا ؑ کو خود پالا،ان کی تربیت کی، پھر اُن کی شادی کرائی، پھر اُن کے بچوں کو بھی خود پالا اور تربیّت کی۔ یہ اوّل تا آخرپیغمبرؐ کی تربیّت کے شہکار تھے ۔ اب یوں نہیں ہے کہ قیامت تک ان کی نسل سے معصوم امام پیدا ہوتے رہیں گے۔
صرف حضرت امام علیؑ، ان کے دو بیٹے جو رسولؐ کی آغوشِ تربیت میں پلے اور آگے صرف امام زین العابدینؑ جو امام حسین کی تربیت کا ثمر ہیں اور آگے صرف امام محمد باقر ؑجو کہ امام زین العابدین ؑ کی تعلیم و تربیّت کا عکس ہیں اور آگے صرف امام جعفر صادقؑ۔۔۔۔یعنی اُسی دور میں بارہ کے بارہ امام جوکہ صدرِ اسلام،صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے عہد میں مکمل ہوگئے صرف وہی معصوم امام ہیں۔ اہلِ تشیع کے ہاں صرف یہ بارہ امام ایسے تربیّت یافتہ ہیں کہ معصوم کہلانے کے حقدار ہیں اور قیامت تک میزانِ عمل ہیں۔ نہ کہ جو شخص بھی اب یہ کہے کہ میں آلِ رسول ہوں وہ امام یا معصوم ہے۔حتی کہ ان بارہ اماموں کے سگے بہن بھائی بھی قیامت تک کیلئے معیارِ قرآن و سُنّت ، امام یا معصوم نہیں ہیں۔
پس پیغمبر ؐ کی حدیث کی روشنی میں بارہ امام اوائلِ اسلام میں ہی مکمل ہو چکے ہیں۔ ان کے علاو ہ قیامت تک کوئی آلِ رسول سے ہو یا کسی بھی دوسری نسل سے، عرب میں پیدا ہو یا عجم میں ،وہ سیدّ کہلائے یا غیر سید وہ معصوم نہیں اور غیر معصوم ہے۔ وہ جتنا بھی بڑا عالم ہو اُسے ان معصوم اماموں کے معیار پر یہ پرکھنا ہوگا کہ میرے اعمال قرآن و سُنّت کے مطابق درست ہیں یا نہیں۔
تیسری غلط فہمی
جوہمارے اماموں کی پیروی نہیں کرتا ، اُسے بے شک ہم دنیا میں مسلمان کہیں لیکن وہ آخرت میں جہنم میں جائے گا۔
غلط فہمی کا جواب
اہلِ تشیع کے ہاں عقائد میں تقلید حرام ہے۔ آپ عقائد میں کسی بھی مجتہد یا مفتی کی تقلید نہیں کر سکتے۔ آپ کو عقیدے کیلئے تحقیق کرنی ہو گی۔ جس نے عقیدے کی تحقیق میں سُستی یا کوتاہی کی وہ عنداللہ سزا کا مستحق ہے ۔ لیکن جس نے اقرارِ توحید و رسالت کو تحقیق کے ساتھ انجام دیا اور اپنا عقیدہ تحقیق کی روشنی میں بنایا پھر وہ جس بھی نتیجے پر پہنچا، تحقیق کے ساتھ چاہے فقہ حنفی پر ، مالکی پر، شافعی پر یا جعفری پر ۔۔۔ جس پر بھی اور اُس نے اپنے یقین کے مطابق ٹھیک طریقے سے اپنے اعمال کو انجام دیا تو وہ عنداللہ اجروثواب پائے گا۔
خلاصہ: انسان اپنی تحقیق اور عمل کے مطابق جنت یا جہنم میں جائے گا نہ کہ دوسروں کی تحقیق اور عمل کے باعث۔
چوتھی غلط فہمی
شیعہ اپنے اماموں کے فرامین کو حدیث اس لئے کہتے ہیں کہ وہ نعوذ باللہ اپنے اماموں کو نبی سمجھتے ہیں۔
غلط فہمی کا جواب
حدیث ایک علمی اصطلاح ہے ، جس کا اطلاق سب سے پہلے نبی اکرمؐ کے فرامین پر کیا جاتا ہے۔ بارہ اماموں کو چونکہ نبیؐ نے اپنے جانشین، اور اپنے خلفا کہا ہے اور اُن کی سُنّت کو اپنی سُنّت کہا ہے لہذاپیغمبرؐ کے فرامین کو حدیث کہنے کی اتباع میں بارہ اماموں کی کے فرامین کیلئے بھی وہی حدیث کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
اب اس اصطلاح کو زبردستی کھینچ کر یہ کہنا کہ شیعہ اپنے اماموں کو نبی کہتے ہیں، یہ ایک انتہائی حد سے بڑھا ہوا الزام ہے ۔ جولوگ جان بوجھ کر ایسا کہتے ہیں وہ یقینا خدا کے ہاں جوابدہ ہونگے اور جو نہیں جانتے اُن کیلئے ہم نے واضح کردیا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ اختلاف سے ڈرنا نہیں چاہیے، اگر اختلاف نہ ہو تو پھلوں کے رنگ، خوشبو، پھلوں کے ذائقے، کہسار و صحرا کے مناظر سب بے رنگ اور بے ذائقہ ہو جائیں گے۔ اختلاف اگر جان کر، سمجھ کر، تحقیق اور سلیقے کے ساتھ ہو تو اسی کا نام حُسن اور دلرُبائی ہے۔
Jazakallah Hafi Saheb AP ne maktab e ahlebait Shia k bare ma aam sunnion ma phailayi gyi manghadat khayalat or iftera’a ka nihayat ma’qool,mukhtasar or mudallal o jami’e jawab diya.