محترم سلیم صا فی صاحب سے کس طرح بات کی جائے۔؟ تحریر: نذر حافی

سلیم صافی صاحب  کا کالم بعنوان “ایران سے کس طرح بات کی جائے؟” پڑھنے کی توفیق ہوئی۔میں نے بہت کوشش کی کہ اس کالم کے متن اور عنوان میں کو ئی مطابقت ڈھونڈ سکوں لیکن اس میں مجھے کامیابی نہیں ہوئی۔ محترم کالم نگار نے اپنے کالم کا آغاز کچھ ایسے کیا   2007 میں جب پہلی مرتبہ مجھے اطلاعات ملنے لگیں۔۔۔چند سطور کے بعد انہوں نے اپنے مدعاکے حق میں دلیل یہ لائی کہ دو برطانوی انویسٹی گیٹو صحافیوں کیتھی کے نام سے ایک کتاب لکھی

سکاٹ کلارک اور ایڈرین لیوی نے دو سال قبل دی ایکسائل اس کتاب میں جو لکھا تھا  وہی لکھنا شروع کیا۔  جوپھر دی ایکسائل

پھر انہوں نے وہی بولی بولنی شروع کی جو اُن کے بقول اُس کتاب میں لکھی تھی۔
کالم کی  بعد والی سطور میں  وہ ارشاد فرماتے ہیں

چالاکیوں سے ایران  نے ایک طرف لبنان میں شیعہ حزب اللہ کو اپنا پراکسی بنا رکھا ہے تو دوسری طرف یمن کے حوثیوں کو اور اب تو سنی حماس کو بھی اپنی پراکسی میں بدل دیا۔ حماس سے اسرائیل کے اندر کارروائی کرواکے ایران نے ایک تیر سے کئی شکار کئے۔

اس کے بعد اُن کا قابلِ توجہ پیراگراف یہ ہے کہ اب سفارتی سطح پر بھی پاکستان کو بہادرانہ اور جارحانہ رویہ اپنا کر اپنا حساب پاک کر لینا چاہئے۔

انہوں نے اپنے کالم کا ہٹ سنٹینس کمال  کا لکھا اور اس میں اپنی ساری محنت کا نتیجہ اس ایک جملے میں اپنا پیغام  دے دیا کہ ایران کو اسی  طرح ڈیل کیا جائے جس طرح ہندوستان کو کیا جارہا ہے۔

اب بات کرتے ہیں کالم کے پہلے پیراگراف کی۔پہلا گراف خود یہ بتا رہا ہے کہ  محترم سلیم صافی کی اطلاعات یک طرفہ بھی ہیں اور کسی خاص طرف  سے فراہم شدہ  بھی ہیں۔ انہوں نے اُن اطلاعات کی چھان بین کیلئے دوسری طرف رجوع نہیں کیا۔ کتابیں لکھنے والے بہت کچھ لکھتے ہیں اورسورسز بھی بہت کچھ بتاتے ہیں  لیکن اس کا یہ مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جو بھی  کہیں سے اطلاع ملے، اس کی مدّمقابل سے  تصدیق کئے بغیر ملک و قوم کی سلامتی اور منافع کے قطعِ نظر قلم فرسائی کر دی جائے۔ اس حوالے سے ہمارا سلیم صافی صاحب کو   مختصر مشورہ  ہے کہ   چینل نہیں میڈیا بدلیں۔

دوسرے منتخب شدہ پیراگراف میں انہوں نے لبنان کی حزب اللہ، یمن کے حوثیوں اور فلسطین کی حماس کو ایران کی پراکسیز کہا ہے۔ ہم پراکسی کی تعریف  کی قیل و قال میں اصل مدعا کو دفن نہیں کرنا چاہتے۔اگر حزب اللہ والے لبنان کے بیٹے، انصار اللہ والے حوثی یمن کے فرزند اور حماس والے فلسطین کے غیرت مند بیٹے نہ ہوتے تو پھر تو شاید کوئی اعتراض بنتا کہ ایران  وہاں پر باہر کے لوگوں کو لے جا کر بسا رہا ہے  اور مضبوط کر رہا ہے۔ساری دنیا یہ جانتی ہے کہ ایران نے جارح قوتوں کے خلاف حزب اللہ کو لبنان میں، حوثیوں کو یمن میں اور حماس کو فلسطین میں مضبوط بھی کیا ہے اور اس کے بدلے میں شدید ترین اقتصادی و سیاسی پابندیوں کا شکنجہ بھی مسلسل برداشت کر رہا ہے۔  جارح اور غاصب طاقتوں سے آزادی حزب اللہ، حوثیوں اور فلسطینیوں کا انسانی اور اخلاقی حق ہے، یہ دنیا کے ہر باشعور انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مظلوموں کی مدد کرے۔ یہ تاثر دینا کہ ایران اُن کی مدد کرکے غلط کر رہا ہے

یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی  یہ کہے کہ پاکستان نے کشمیریوں کو اپنی پراکسی بنایا ہوا ہے۔ بھائی! کشمیر ی خود کشمیر کے بیٹے ہیں، کسی بھی جارح طاقت کے خلاف جہاد کرنا  اُن کا فطری اور انسانی حق ہے۔ اگر پاکستان کشمیریوں کی مدد کرتا ہے تو یہ قابلِ تعریف ہے نہ کہ اسے پاکستان کی چالاکی یا سازش کہا جائے۔

 محترم سلیم صافی صاحب بخوبی جانتے ہی ہونگے کہ   قیامِ پاکستان کے بعد کشمیری و پاکستانی قیادت کے درمیان بھی متعدد اتار چڑھاو آئےلیکن  اگر کوئی اس اتار چڑھاو سے سوئے استفادے کی کوشش کرے اور  کشمیریوں کو یہ کہے کہ پاکستان کو بھی اُسی نگاہ سے دیکھیں جیسے ہندوستان کو دیکھتے ہیں تو یہ معاملہ فہمی نہیں بلکہ کم فہمی ہے۔  اگر انسان سے غلطی میں کوئی ایسی بات ہوجائے تو اُس سے چشم پوشی کی جا سکتی ہے لیکن اگر کوئی آدمی اپنا مشن یہی بنا لے کہ کشمیریوں و پاکستانیوں کے درمیان جنگ کی فضا بنے ہی بنے تو یہ قابلِ اغماض نہیں۔

اسی پیراگراف میں انہوں نے لکھا ہے کہ  ” حماس سے اسرائیل کے اندر کارروائی کرواکے ایران نے ایک تیر سے کئی شکار کئے۔” یہ جملہ محترم سلیم صافی صاحب کی معلومات، سورسز، ان کی تحقیقات اور معلومات کو زیرِ سوال لے جاتاہے۔ یہ وہی بات ہے کہ ۶۵ کی جنگ میں ہندوستانی طیارے تہران سے تیل بھر کر اسلام آباد پر بمباری کرتے تھے، یا  اکہتر کی جنگ میں بنگلہ دیشیوں کو  آیت اللہ خمینی نے انقلاب برپا کرنے کیلئے فتویٰ دیا تھا۔

میں یہاں پر محترم سلیم صافی صاحب کی خدمت میں یہ دس بستہ عرض کروں گا کہ آپ لوگ پاکستان کا چہرہ ہیں، دنیا بھر میں آپ کو پڑھنے، سننے اور دیکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ آپ کی معلومات اگر بہت زیادہ نہ ہوں تو کم از کم مستند تو ہوں۔ آپ کو یہ تو پتہ ہونا چاہیے کہ طوفان الاقصی کیا ہے؟ یہ کس کا منصوبہ تھا؟ کس نے اس کی پلاننگ کی؟ ایران کو اس کی خبر کب ہوئی؟ حوثیوں کو اس کا کب پتہ چلا؟ حزب اللہ کو اس کی کب اطلاع ہوئی؟یہ موٹی موٹی معلومات تو آپ کے پاس درست ہونی چاہیے۔  درست معلومات  کیلئے میرا آپ کو پھر یہی مشورہ ہے کہ چینل نہیں میڈیا بدلیں۔

خیر ایران و پاکستان کے درمیان جو ہوا سو ہوا،  اُسے  متعلقہ اداروں نے بروقت  اپنے اپنے طور پر سلجھالیا۔  دوطرفہ مصلحت، دوطرفہ خیرخواہی اور دوطرفہ دانشمندی کا تقاضا بھی تھا۔  یہ تاریخ ایران و پاکستان کا اس نوعیّت کا پہلا ناخوشگوار اتفاق ہے جسے حُسنِ اتفاق اور خوش اسلوبی سے نمٹا دیا گیا۔ ہمیں قوّی امید یہی رکھنی چاہیے اور اپنی زبان و قلم سے  کوشش بھی یہی کرنی چاہیے کہ  پھر یہ سانحہ کبھی تکرار نہ ہو۔
البتہ محترم سلیم صافی صاحب کو یہ خیر سگالی اور برادرانہ جذبہ قطعاً نہیں بہایا۔ چنانچہ انہوں نے اگلے پیراگراف میں اپنی   سب سے جاندار سطر کچھ یوں لکھی کہ” سفارتی سطح پر بھی پاکستان کو بہادرانہ اور جارحانہ رویہ اپنا کر اپنا حساب پاک کر لینا چاہئے”۔ یہ سطر بتا رہی ہے کہ وہ اس معاملے کو جیسے حل ہو رہا ہے ویسے نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ وہ اس سے بڑھ کر کچھ کروانے کے درپے ہیں۔ یعنی اُن کے پاس ایک وژن ہے جس کے تحت وہ حالات کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔وہ وژن انہوں نے اپنے  آخری جملے میں بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ  ایک ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں کہ جو ایران کو اُسی طرح ڈیل کرے جس طرح ہندوستان کو کرتا ہے۔

اُن کی اس معصومانہ خواہش سے لگتا ہے کہ   اُن کے سورسز نے اُنہیں یہ سمجھایا  ہے کہ  پاکستان اور ایران کے درمیان اُتنی ہی دشمنی ہونی چاہیے جتنی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہے۔اندازہ لگائیں کہ  سلیم صافی صاحب کے سورس کتنے سمجھدار اورذہین ہیں۔ ان کے قوی سورسز اور انہیں گائیڈ لائن فراہم کرنے والوں کی  ذہانت کو اکیس توپوں کی سلامی ہی دی جانی چاہیے۔

انہوں نے عنوان مقرر کیا تھا کہ  “ایران سے کس طرح بات کی جائے؟”تاہم سارے کالم میں انہوں نے ایران سے کرنے والی کوئی بات نہیں کی۔ اپنی جیب سے سورسز   اور ایک کتاب کا ذکر کرکے کانسپریسی کے مصالحے سے ایک گھوڑا تیار کیا جس کے اندرپاکستان و ایران کے درمیان جنگ اور خونریزی کیلئے ایک فکری لشکر  کو سمو دیا۔ اسے صحافت کی زبان میں ہارس ٹروجن تھیوری کہتے ہیں۔

ہم  ایسا کرنے سے اُنہیں  روک تو نہیں سکتے لیکن ٹوک تو سکتے ہیں۔ ٹوکنا اس لئے ضروری ہے کہ غلط فہمی، غلطی اور کوتاہی دو بھائیوں کے درمیان بھی ہو سکتی ہے، اگر وہ دونوں صلح صفائی پر آمادہ ہو جائیں تو اُن کے درمیان دشمنی اور کینے کی فضا کو باقی رکھنے کی کوشش کرنا  کسی بھی صورت میں مستحسن نہں۔

نذر حافی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link