جعفر ایکسپریس ہو یا پارہ چنار،منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک۔ | تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
بلوچستان سینٹرل ایشیا کا دروازہ ہے۔کیا بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کا سانحہ فقط فوج کو بدنام کرنے کیلئے تھا؟ جعفر ایکسپریس کے کامیاب آپریشن پر جہاں پاک آرمی مبارکباد کی مستحق ہے وہیں اس نکتے پر توجہ دینا بھی ضروری ہے کہ کامیاب فوجی آپریشن اتنا مشکل نہیں جتنا مشکل اُن مسائل کو سمجھنا ہے کہ جن کی وجہ سے کہیں پر کوئی فوجی آپریشن کرنا پڑتا ہے۔
راقم الحروف نے متعدد مرتبہ اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ عوام و خواص دونوں کو مسئلے کی سنگینی کا احساس کرنا چاہیے۔ بلاشُبہ جب تک کسی ملک کی آرمی مضبوط رہتی ہے اُس پر دہشت گرد ٹولے مسلط نہیں ہو سکتے۔ وہ جعفر ایکسپریس ہو یا پارہ چنار جانے والی مسافر گاڑیاں ، ایک بات ہم سب کو پلّے باندھ لینی چاہیے کہ ایک مضبوط قومی آرمی ہی ملک و قوم کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔
جو لوگ بلوچستان کا سفر کرتے رہتے ہیں وہ بخوبی اس امر کی گواہی دیں گے کہ بلوچستان میں جابجا آرمی اور ایف سی کے خلاف نفرت بھڑکانے کا عمل جاری ہے۔ ٹرانسپورٹر حضرات ایران جانے والے مسافروں سے کرایہ ڈبل ٹرپل وصول کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سب تو آرمی و ایف سی کابھتہ ہے۔ راستے میں جب چیکنگ کیلئے ایف سی والے آتے ہیں تو مسافروں کو یہ کہہ کر ڈرا دیتے ہیں کہ ایف سی والوں یا آرمی کو نہیں بتانا کہ ہم نے ایران جاناہے۔ اس طرح کرایہ بھی دُگنا وصول کرتے ہیں اور ایف سی وآرمی کے خلاف بھتہ خوری کاالزام ہر سواری کے دماغ میں بٹھا دیتے ہیں۔
انہی مسافر گاڑیوں کے نیچے تیل اور چینی وغیرہ کی اسمگلنگ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، چیک پوسٹوں پر ان گاڑیوں کی تلاشی اور چیکنگ آرمی و ایف سی کے جوانوں کیلئے اپنی شہادت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہ جوان اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر جو کچھ کر سکتے ہیں، اُس میں لگے رہتے ہیں لیکن اسمگلنگ کو حقیقی معنوں میں روکنا اُن کے بس میں نہیں۔ مسافروں کو راستے میں جتنے تیل سے بھرے ٹرک نظر آتے ہیں، گاڑی میں اوورلوڈنگ ہوتی ہے یا ۔۔۔ اس کے بارے میں لوگوں کو یہی ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ یہ سب خود فوج اور ایف سی کر رہی ہے ورنہ یہ ادارے نہ چاہیں تو یہ سب کیسے ہو سکتا ہے؟
ایک طرف تو ملک کو لوٹا اور نوچا جا رہا ہے اور دوسری طرف اس لوٹ کھسوٹ کا سارا الزام ملک کے سیکورٹی اداروں پر لگایا جاتا ہے۔ بد سے بدترین یہ ہے کہ یہ مسافر جب ملک کے سیکورٹی اداروں کے خلاف ایک منفی ذہنیّت لے کر تافتان بارڈر پر پہنچتے ہیں تو وہاں موجود سیکورٹی اہلکاروں اور امیگریشن کےعملے کا برتاو بھی یہ ثابت کرتا ہے کہملک کے سیکورٹی اداروں کے نزدیک عوام کا کوئی احترام نہیں۔ اس ذہنیت کے ساتھ لوگ تفتان بارڈر سے روزانہ آتے اور جاتے ہیں۔ ملکی و قومی سیکورٹی اداروں کے خلاف اس بلاوقفہ تبلیغ کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟ کیا بلوچستان میں آرمی کے خلاف ٹرانسپورٹرز کے منفی رویّوں کی نگرانی، چیک پوسٹوں پر اسمگلنگ کی روک تھام کو یقینی بنانا، پبلک سیفٹی کیلئے روڈ پر تیل سے بھرے ٹرکوں کو روکنا اور ملکی بارڈرز پر معقول، مودب اور پبلک ڈیلنگ کے حوالے سے تربیت یافتہ عملے کی تعیناتی ملک و قوم اور سیکورٹی اداروں کی فوری ضرورت نہیں؟
جعفر ایکسپریس کے سانحے سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ دہشت گرد انتہائی منظم ہیں۔ پہلے پہل دہشتگردوں نے ایف سی کی چیک پوسٹ پر حملہ کر کے تین جوان شہید کئے۔ ساتھ ہی ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑایا ۔ اگلے مرحلے میں انہوں نے مسافروں کو ٹرین سے اتار کر گروپوں میں بانٹ دیا۔۔۔اس کے بعد جو ہوا اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ پاک آرمی نے آپریشن کیا اور چھتیس گھنٹے کے اندر قوم کو کامیابی کی خوشخبری سُنائی۔
یہ خوشخبری ابھی ادھوری ہے۔ ملک میں ٹارگٹ کلنگ اور خودکُش دھماکوں کا سلسلہ رُکنے میں نہیں آ رہا۔ دمِ تحریر خیبر پختونخوا میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں دس حملے ہو چکے ہیں۔ پنجاب میں بھی یہ سب جاری ہے۔ لاہورمیں ڈالہ کلچرختم نہ ہوسکا۔ مغلپورہ میں بیجنگ انڈر پاس پر مسلح گارڈز نے کار سوار شہری کو بیچ سڑک پر تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ مسلح گارڈز کے تشدد کا نشانہ بننے والے شہری عمران کے مطابق وہ رائیونڈ روڈ سے آرہے تھے اور کنال روڈ سے سیدھا کپڑوں کی خریداری کرنے جا رہے تھے کہ کچھ لوگ ڈالہ میں آئے اور انہوں نے سرِ عام مجھے ایک پل کے نیچے روک کر فائرنگ کی۔
وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف بڑا آپریشن کرنے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا فقط آپریشن ہی دہشت گردی کے خلاف ایک آپشن ہے؟ اگر آپریشن ہی ایک آپشن ہے تو پھر یہ آپشن پار چنار کے لوگوں کو دہشت گردوں کے محاصرے سے نجات دلانے کیلئے کیوں استعمال نہیں کیا جاتا؟ خصوصاً وہاں تو مذاکرات اور جرگے بھی ناکام ہو چکے ہیں۔
اگر دہشت گردمنظم ہیں تو کیا دہشت گردوں کے خلاف ساری قوم کو منظم کئے بغیر ہم صرف آپریشنز کر کے دہشت گردی پر قابو پاسکیں گے؟ بلاشُبہ ساری دنیا میں لاپتہ افراد یعنی مسنگ پرسنز موجود ہونگے لیکن ہمیں تو سب سے پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ مسنگ پرسنز کا ایشو ہمیں فائدے کے بجائے نقصان دے رہا ہے۔ ناراض جوان چاہے کسی بھی صوبے سے تعلق رکھتے ہوں،انہیں لاپتہ کرنے کے بجائے انہیں سینے سے لگانا، ان کے جائز مطالبات کا حل نکالنا، اُن کی فکری و نظریاتی تربیّت کرنا ۔۔۔ یہ سب ہماری قومی پالیسی کا حصّہ ہونا چاہیے۔ نیشنل ایکشن پلان صرف فوجی آپریشن کرنے کا نام نہیں بلکہ اس پلان کے مطابق عوام اور فوج کے درمیان فاصلوں کو بھی کم کیا جانا چاہیے۔
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نظریاتی اعتبار سے بی ایل اے کا طالبان دہشت گرد وں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں لیکن ان کے پیچھے کوئی ایک ہی طاقت ہے جو ان دونوں کو پاکستان کے خلاف انتہائی مہارت کے ساتھ استعمال کر رہی ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے غیرقانونی تجارت اور اسمگلنگ کا مکمل خاتمہ کر کے ہی پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالا جا سکتا ہے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک افغانستان کسی بھی صورت میں مذکورہ صوبوں کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتا۔ ہمارے سیکورٹی ادارے جعفر ایکسپریس کے امتحان میں تو کامیاب ہوئے لیکن انہی اداروں کیلئے پارہ چنار کا محاصرہ توڑنا ایک عسکری چیلنج بن چکا ہے۔ ہمارا سلام ہو پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے اُن جوانوں پر جو جعفرایکسپریس کے سانحے کے موقع پر ہماری حفاظت کیلئے قربان ہوگئے بلاشبہ ہم اُن کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ اس موقع پر ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ پارہ چنار میں طالبان کے ہاتھوں یرغمال شدہ انسانی جانیں بھی اتنی ہی قیمتی ہیں جتنی کہ جعفر ایکسپریس کے مسافر تھے۔ جعفر ایکسپریس کی مانند پارہ چنار کا محاصرہ توڑنے کیلئے بھی ساری قوم کو ایک پیج پر آنا چاہیے۔
بے شک اتحاد اور وحدت سے خشک زمینیں سرسبز ہوجاتی ہیں اور محاصرے ٹوٹ جاتے ہیں۔ آج جو کچھ ہمارے پاس باقی ہے وہ اتحاد اور وحدت کی وجہ سے ہی ہے اور آئندہ بھی جو کچھ باقی رہے گا وہ بھی اتحاد اور وحدت کی وجہ سے ہی رہے گا۔سانحہ جعفر ایکسپریس کے شہدا اس لئے شہید ہوئے تاکہ اُن کے مقدس خون کی برکت سے پارہ چنار سمیت ملک کے تمام گوش و کنار کے پاکستانیوں کو یہ پیغام مل جائے کہ ہم نے آخری سانس تک اپنی ذمہ داری ادا کر دی ہے ، اب اس ملک کو آزاد اور سربلند رکھنا تم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
شاعرِمشرقنے کیا خوب کہا ہے
منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک