NH

معاشی آزادی کے بغیر یومِ آزادی۔ | تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

جیسے جیسے چودہ اگست کا دِن قریب آ رہا ہے، سبز اور ہلالی جھنڈیاں فروخت کرنے والوں کے وارے نیارے ہوتے جا رہے ہیں۔ کیا یومِ آزادی صرف ماضی کی قربانیوں کی یادگارہے؟ کیا ہم سیاسی ، عسکری اور معاشی طور پر آزاد ہیں؟  ایک آزاد ریاست  تو وہ ہوتی ہے کہ  جس میں ہر شہری ریاست کا  قانونی اور سیاسی رکن ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیوں  اور قومی ملکیت میں بھی حقیقی حصہ  دار ہوتا ہے۔آج ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریاست صرف قانون اور فوج  کے بل پر نہیں چلتی بلکہ اسے چلانے کیلئے ایک مضبوط اور منصفانہ معیشت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ایک  ایسی  معیشت  جو عوام کی محنت،  اقتصادی تعلیم ، شرکت اور شعور سے پروان چڑھے۔

ہر بینک اور مالیاتی ادارے کا فرض ہے کہ وہ عوامی سرمایہ کاری کے منصوبے تشکیل دے۔ کیونکہ جب تک عوام کو معیشت میں صرف صارف یا مزدور سمجھا جائے گا، اور انہیں منافع و ملکیت کے دائرے میں شریک نہیں کیا جائے گا، تب تک ریاست میں وہ  آزادی  قائم نہیں ہو سکتی جس کے  خواب ہر پاکستانی دیکھ رہا ہے۔حقیقی آزادی  تب قائم ہوگی جب ہر فرد کو ملک میں  اس کا جائز معاشی حصّہ ملے گا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اقوام کیلئے  آزادی  آقاوں اور سزاوں نیز  زندانوں  کی سیاسی و جغرافیائی  تبدیلی کا نام نہیں بلکہ معاشی خودمختاری کا نام ہے۔

یومِ آزادی کا تقاضا ہے کہ ہم نوجوانوں کو کاروباری تعلیم دیں، مالی منصوبہ بندی سکھائیں، اور سب سے بڑھ کر، یہ شعور پیدا کریں کہ وہ اس ملک میں  صرف  روٹی، کپڑے اور مکان کے چکر میں پِسنے کیلئے پیدا نہیں ہوئے  بلکہ  وہ اس ملک کے تمام ذخائر اور دولت کی پیداوار میں شریک و مالک ہیں۔یہی وہ راستہ ہے جس سے ہم سرمایہ دارانہ غلامی سے نکل کر   حقیقی آزادی کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔

یہ باشعور طبقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ مُقتدر حلقوں سے یہ تسلیم کروائیں کہ آزادی کیلئے عوام کو ریاست کا صرف قانونی یا سیاسی رکن تسلیم کرنا کافی نہیں، بلکہ ان کی حیثیت اقتصادی رکن  کی بھی ہونی چاہیے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ادراک کیے بغیر کوئی  قوم   آزاد نہیں ہو سکتی۔ ریاست صرف قوانین اور عسکری طاقت سے نہیں بلکہ  معیشت سے بھی چلتی ہے، اور معیشت صرف خزانے سے نہیں، عوام کی محنت، شرکت اور اشتراک سے وجود پاتی ہے۔

معیشت میں عام آدمی تبھی شریک ہو سکتا ہے جب اسے معاشی اداروں میں شریک کرنے کیلئے منصوبے بنائیں جائیں گے۔ جب تک عوام کو معیشت میں صرف صارف یا محنت کش کی حیثیت سے دیکھا جاتا رہے گا، اور انہیں منافع و ملکیت کے حقیقی دائرے میں شریک نہیں کیا جائے گا، تب تک ریاست میں حقیقی آزادی نہیں آ سکتی۔ معاشی خودمختاری کے بغیر کوئی انسان کیسے دوسروں کے دباو اور ان کی قید و بند سے  آزاد ہو سکتا ہے؟۔ لہٰذا  کہیں پر بھی اگر کوئی ریاست اپنے شہریوں کو معیشت میں برابر کا شریک نہیں بناتی، تو وہ درحقیقت انہیں غلامی کی نِت نئی زنجیریں پہناتی رہتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ وطنِ عزیز میں اقتصادی معاملات میں عوام کی شرکت محض ٹیکس دہی یا اشیاء خریدنے تک محدود نہیں ہونی چاہیے، بلکہ  پالیسی ساز اداروں کو چاہیے کہ وہ  عوام کو ملک کے معاشی فیصلوں، منافع بخش منصوبوں، اور مالیاتی ترقی کے سفر میں اجتماعی ذمہ داری اور اجتماعی مفاد کے اصول پر شریک کریں۔ اسی سے ہمارا وطن  ایک بند کارپوریشن کے بجائے ایک جمہوری معاشی تنظیم میں تبدیل ہوگا۔

عوام کو اقتصادی رکن بنانے میں سب سے مؤثر اور فیصلہ کن کردار بینکاری نظام بینکنگ سسٹم  کا ہے، کیونکہ جدید معیشت میں بینک محض مالیاتی لین دین کے ادارے نہیں، بلکہ سرمایہ کے بہاؤ، پیداواری صلاحیت، اور اقتصادی شرکت کے نظامِ اعصاب ہوتے ہیں۔بینکوں کو چاہیے کہ وہ صرف دولت کا ذخیرہ نہ بنیں، بلکہ دولت کی گردش اور تقسیم کا منصفانہ ذریعہ بھی بنیں۔ جب بینک صرف اشرافیہ کو قرض دیتے ہیں اور عوام کو صرف بچت کھاتے یا کرنٹ اکاؤنٹس تک محدود رکھتے ہیں، تو وہ دراصل معاشی غلامی کا جال بچھاتے ہیں۔بینکوں کا بنیادی فرض ہے کہ وہ عام شہریوں کو بھی کاروباری شراکت داری، اسلامی سرمایہ کاری اسکیموں، کارپوریٹ یونٹس میں شیئرز، مائیکروفنانس، حلال کریڈٹ سہولیات اور پروفٹ اینڈ لاس شیئرنگ (پی ایل ایس)  جیسے ذرائع سے معیشت میں براہ راست شریک کریں۔ہمارے اقتصادی ماہرین صرف اُسی صورت میں کامیاب کہلائیں گے جب و ملک کے  اقتصادی ڈھانچے میں ہر فرد کو مساوی شرکت  دلا سکیں گے۔بینکوں کے ملازمین کو بھی یہ شعور دیا جانا چاہیے کہ وہ سود کے وعظ گو نہیں، بلکہ معاشی عمل کے رہبر اور عوام کے معاشی وکیل ہیں۔وہ اگر خود کو صرف تنخواہ دار کلرک سمجھیں گے، اور عوام کو بینکوں سے دور رہنے کا مشورہ دیں گے، تو یہ اپنے فرض سے انحراف ہو گا۔

جب بینک عوام کے سرمائے کو بلا منافع اپنے تک محدود رکھتے ہیں، تو یہ دراصل عوام کی معاشی  صلاحیتوں کو قتل کرنا ہوتا ہے۔ عوام کے سرمائے کو اسلامی اصولوں کے مطابق فعال کرنا  نیز  تخلیقی  اور ترقی آفرین بنانا، وطنِ عزیز کے اقتصادی ماہرین اور  بینکوں کی اخلاقی، معاشی اور قومی ذمہ داری ہے۔

یومِ آزادی صرف سیاسی آزادی کا جشن نہیں، بلکہ یہ اس بنیادی سوال کی یاددہانی بھی ہے کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ جب تک ایک انسان کو اپنی محنت کے ثمر پر مکمل حق حاصل نہیں، جب تک وہ معاشی فیصلوں میں برابر کا شریک نہیں، تب تک آزادی صرف ایک رسمی اعلان ہے، حقیقت نہیں۔

معاشی غلامی، خواہ وہ قرضوں کی زنجیروں میں ہو یا دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم میں، آزادی کے جوہر کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ آزادی صرف انتخاب کا حق نہیں، بلکہ اپنی زندگی کے مادی، روحانی و اخلاقی پہلوؤں پر خود اختیار رکھنے کا نام ہے۔ اس تناظر میں، یومِ آزادی دراصل ایک ایسا لمحہ ہے جو ہمیں جھنجھوڑ کر یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اگر ہماری معیشت چند ہاتھوں میں مرتکز ہے، اور عوام صرف محنت کش یا صارف کی حیثیت سے موجود ہیں، تو پھر ہماری سیاسی آزادی بھی ایک فریب ہے۔ حقیقی آزادی تب ہی ممکن ہے جب ہر فرد کو نہ صرف بولنے کا، بلکہ کمانے، خرچ کرنے، بچت کرنے، سرمایہ کاری کرنے  اور آگے بڑھنے کا مساوی حق حاصل ہو۔ یہی وہ آزادی ہے جو فرد کو خودی عطا کرتی ہے، اور ریاست کو آزادی۔

نذر حافی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link